جس معاشرے میں غیرت بس نام کی رہ جائے تو وہاں بنت ِ حوا
کا ڈول کی تھاپ پر رقص کرنا کوئی بڑی بات نہیں،جس معاشرے میں عورت کو حقارت
کی نظر سے دیکھا جائے وہاں درندہ صفت انسانوں کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں
۔جس معاشرے میں ماں بہن اور بیٹی میں امتیاز کرنا مشکل ہو وہاں بنت حوا کا
ابن آدم کی ہوس کا نشانا بن جانا کوئی بڑی بات نہیں ۔جس معاشر ے میں اچھے
لوگ خاموش ہو جائیں تو وہاں فرعونیت ،ظلم وبربریت ،قتل وغارت گری اور
ریاستی دہشتگری کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں جس معاشرے میں جموریت گھر کی
لونڈیاہو تو وہاں عادل وانصاف جاگیرداروں کے گھر میں ہونا کوئی بڑی بات
نہیں ،اور جس معاشرے میں تمام لوگ بے حس ہو جائیں وہاں قتل انسانیت پر کوئی
آنکھ رنجیدہ نہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ۔۔۔۔۔ہاں بڑی اور دکھ کی بات تو یہ
ہے کہ ہم اُسی معاشرے میں اپنی زندگی بسر کر رہیں ہیں ۔
شائد کچھ لوگ میری باتوں سے اتفاق نہ کرئے مگر یہ سچ ہے کہ ہم ایسے ہی
معاشرے میں رہ رہے ہیں ، جہاں آپ حق مانگو گے تو غدار کہلاؤ گئے ،حق
چھینوگے تو دہشت گرد کہلاؤ گئے ،اور خاموش بیٹھو گئے تو جمہوریت پسند کہلاؤ
گئے ۔
اب اپنی زمیں چاند کی مانند ہے انور ؔ
بولیں تو کسی کو بھی سنائی نہیں دیتا
انور مسعودؔ صاحب کے اس شعر کو شائد ہی کوئی نظر انداز کر ئے، کیوں کہ ہر
کوئی یہ جانتا ہے کہ اس معاشرے میں کسی بھی بے بس انسان کی فریاد سننے ولا
اب کوئی نہیں ۔ہاں اگر کوئی فریاد سننے ولا ہوتا توباغ آزادکشمیر کے نواحی
گاؤں چیڑھان کی رہنے والی بیوہ کمال جان کبھی بھی باغ پریس کلب نہ آتی۔
باغ آزاد کشمیر کے نواحی گاؤں چیڑھان میں رہنے والی بیوہ کمال جان کے ساتھ
بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ وہ اپنی فریاد لے کر باغ پریس کلب پہنچ گئی ،وہ
شائد اب بھی یہ مانتی ہے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر اُس کی دہائی کو سن لے
گئے ۔شائد کمال جان کو اس بات کا علم نہیں کہ وہ غریب ہے اور وقت کے حاکم
اور بادشاہ اپنے لیے اقتدار میں آتے ہیں، اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وزیر
اعظم صاحب اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیسے کوئی اقدام کرسکتے ہیں، باغ کے
اثرورسوخ رکھنے والے مختیار اور سرور نامی دونوں بھائی کہیں نہ کہیں سرکار
سے جوڑے ہوئے ہیں ۔
ایک بیوہ اور اس کے معذور بچوں کے ساتھ قیامت کا کھیل اُسی دن سے جاری ہے
جب سے اس کا شوہر پاک آرمی میں اپنی خدمات سرانجام دیتے ہوئے گاؤں میں لگنے
والی آگ کو ٹھنڈاکرنے گیا تھا ،مگر وقت نے اس کی سانس پر قابو پا لیا ۔شائد
مرنے والے کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس کہ مرنے کہ بعد تین لوگ اور
جیتے جی مر جائیں گئے،ان کی زندگی کا ہر پل اجیرن بنا دیا جائے گا ۔
سمجھ سے بلاتر یہ بھی ہے کہ مختیار اور سرور کو اہل علاقہ کیوں کچھ نہیں
کہتے ،کسی نے سچ کہا تھا ۔
دنیا اس لیے برُی نہیں کہ یہاں برُے لوگ ذیادہ ہے بلکہ دنیا اس لیے بُری ہے
کہ یہاں اچھے لوگ خاموش ہیں۔
اہل علاقہ شائد اس سے بھی برے وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب مختیار اور
سرور اس سے بھی برا کھیل شروع کرئے اور ہمیں دیکھنے کو برہنہ تماشا ملے
کیوں کہ اگر وہ صیح اور غلط میں فرق سمجھتے تو یقیناکمال جان کا مسئلہ گاؤں
کی حدود میں ہی حل کر دیتے اور اس طرح کمال جان کبھی بھی پریس کلب میں اپنی
فریاد لے کر نہ آتی۔
میں آزادکشمیر کے وزیراعظم سے سوال کرتا ہوں کہ کیا عارف کو بیس سال پاک
آرمی خدمات کا انعام یہ دیا جانا کہ بیوی اور دونوں بچوں کی سانسوں پر
مختیار اور سرور کا قبضہ ۔۔۔۔۔اور پھر اس عمل کو جمہوریت کا نام دینا صحیح
ہے ۔قانون نافذ کرنے والوں اداروں نے کمال جان کی پریس کانفرنس کے بعد بھی
خامشی اختیار کی ہوئی ہے، اُن کی خاموشی واضح پیغام دیتی ہے کہ مختیار اور
سرور صیح کہہ رہے ہیں، کہ قانون ہماری مھٹی میں ہے اسی وجہ سے اُنھوں نے
بیوہ کمال جان کے گھر پر قبضہ بھی کیا ہوا ہے اور آئے روز پتھرراو بھی کرتے
ہیں ۔
میں پوری طرح سے آشنا نہیں کہ جمہوریت ہے کیا ۔۔مگر بیوہ کمال جان کو اس
طرح خوف میں مبتلا کرنا بھی کوئی جمہوریت کا حسن ہو تو وہ میری سمجھ سے
بلاتر ہے۔
اگر کمال جان کے ساتھ ہونے والے تمام تر واقعات کو نظر آنداز کرنا ہی
جمہوریت ہے ۔۔۔اگر کمال جان کے معذور بچوں کو تشدد کا نشانا بنتے دیکھنا ہی
جمہوریت ہے ۔۔۔۔اگر مختیار اور سرور کو سزا نہ ملنا جمہوریت ہے تو ایسی
جمہوریت کو میں نہیں مانتا ۔۔۔میں نہیں مانتا ۔۔
آخر میں آزادکشمیر کے وزیراعظم اور چیف سیکرٹری سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر
وہ بیوہ کمال جان کو انصاف نہ دلا سکیں تو کم از کم ایسا ہی کر دیں کہ
اسمبلی میں غیریب اور غربت کے خاتمے کا ایک بل پاس کر کے کمال جان اور
معذور بچوں کوباغ کے گاؤں چیڑھان میں ہی سب کے سامنے سولی پر لٹکا دیں تاکہ
وہ اس ظلم سے جلدی آزاد ہو جائیں ۔۔ |