ضمیر کا سودہ لالچ اور حلال سے دوری کا نتیجہ
(Ata Ur Rehman Noori, India)
ووٹرس کو چاہئے کہ چند سِکّوں کی
خاطر اپنے ضمیر کی سودے بازی نہ کریں
چند سکوں کی خاطر اپنے ضمیر کا سودہ کرکے اپنی محنت و مشقت سے کمائی گئی
حلال رزق کو مشتبہ نہ کریں
اﷲ رب العزت کا فرمان ہے ’’پاک مال کھاؤ اور نیک کام کرو‘‘ (المومنون:۵۱)
مصطفی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’ حلال روزی کی طلب ہر مسلمان پر
فرض ہے‘‘۔ مزید فرمایا : جس شخص نے چالیس دن رزق حلال کھایا، اﷲ اس کے دل
کو روشن کردیتا ہے اور حکمت کے چشمے دل سے زبان پر جاری کردیتا ہے۔‘‘ دوسری
روایت میں ہے ’’اﷲ تعالیٰ اس کو دنیا کی آلودگیوں سے محفوظ کردیتا ہے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم سے درخواست کی
کہ آپ میرے مستجاب الدعوات(ایسا شخص جس کا ہر دعا قبول ہو) ہونے کے لئے دعا
فرمائیں تو فرمایا ’’حلال کھاؤ، دعا قبول ہوگی‘‘ ۔غرضیکہ قرآن و احادیث
شریفہ میں رزق حلال کے متعلق بڑے فضائل موجود ہیں۔ مگر دن بہ دن بڑھتی ہوئی
ضرورتوں اور طول امل (لمبی امیدوں)کے پیش نظر آج حلال و حرام کی تمیز کم یا
ختم ہوتی جارہی ہے بس کسی بھی طرح جیبیں ، روپیوں پیسوں سے بھر جائے بینک
اکاؤنٹس میں دولت کا انبار ہو۔ چاہے یہ مال حلال ذریعے سے حاصل ہو یا پھر․․․․․․․․․․؟
الیکشن کی اس ہنگامہ آرائی میں روپیوں کا جو اسراف ہورہا ہے اسلامی نقطۂ
نظر سے کسی طرح بھی درست نہیں۔ خلفائے راشدین نے سیاست کا وہ پاکیزہ عملی
نمونہ پیش کیا کہ اغیار و معاندین اور حاسدین بھی نظام سیاست سیکھنے اور
سمجھنے کے لئے خلفائے راشدین اور با کردار مسلم سیاست دانوں کی سیرت سے
استفادہ کرنے پر مجبور ہیں۔ باوجود اس کہ ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ
خلیفۃ المسلمین کے منصب پر فائز ہونے کے لئے رشوت کا ایسا بازار گرم کیا
گیاہوجیسا کہ موجودہ دور میں ہے۔ بلکہ وہ اس منصب سے پرہیز کرتے تھے، انھیں
اس بات کا خوف لاحق ہوتاکہ حدودِ مملکتِ اسلامیہ میں کوئی خارش زدہ جانور
بھی ہلاک ہوجائے تو بارگاہِ صمدیت میں پوچھ ہوگی۔ مگر یہ وقت کا کتنا بڑا
المیہ ہے کہ خلفائے راشدین کے نقشِ قدم پر چلنے کی بجائے آج کے سیاست داں
باطل وعدوں، لفاظی ، دروغ گوئی، فحش گوئی، یاوہ گوئی اور دشنام طرازی کے
ساتھ روپیوں کی بارش برسارہے ہیں ۔ ساتھ ہی ووٹرس کو بھی چاہئے کہ چند
سِکّوں کی خاطر اپنے ضمیر کی سودے بازی نہ کریں ان پیسوں کی حقیقت کیا ہے
اس کا بخوبی اندازہ قلائد الجواہر کی اس روایت سے ہوجائے گا۔
ایک دفعہ خلیفۂ وقت مستنجدباﷲ ابوالمظفر یوسف سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ عنہ سے
ملاقات کے لئے آیاسلام کیا اور درخواست کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیں اور
ساتھ ہی دراہم و دنانیر کی دس تھیلیاں پیش کیں۔ جنھیں دس خادم اٹھائے ہوئے
تھے آپ نے قبول کرنے سے انکار کردیا، خلیفہ کے اصرار پر دو تھیلیاں ہاتھوں
میں لے کر دبائیں تو ان میں سے خون ٹپکنے لگا، آپ نے فرمایا: اے ابوالمظفر!
تمہیں اﷲ تعالیٰ سے حیا نہیں آتی کہ لوگوں کا خون چوس کر لاتے ہو اور مجھے
پیش کرتے ہو، خلیفہ یہ دیکھ کر بے ہوش گیا ، حضرت شیخ نے فرمایا: خدا کی
قسم! اگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعلق کا پاس نہ ہوتا تو یہ خون بہتا
ہوا خلیفہ کے محل تک پہنچ جاتا۔
ووٹ دینا ہر شہری کا حق ہے مگر چند سکوں کی خاطر اپنے ضمیر کا سودہ کرکے
اپنی محنت و مشقت سے کمائی گئی حلال رزق کو مشتبہ نہ کریں۔ فرمان مصطفوی ہے
’’جس کسی نے دس درہم میں کوئی کپڑا خریدا اور اس میں ایک درہم بھی حرام کا
ہوا تو جب تک وہ اس کپڑے کو پہنے گا اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نماز قبول نہیں
فرمائے گا۔‘‘ یہ بھی فرمایا: ’جو گوشت حرام رزق سے اگتا ہے وہ دوزخ کے قابل
ہوتا ہے‘‘ رب تبارک تعالیٰ ہمیں کثیر رزق حلال عطا فرمائے۔ آمین |
|