یہ قوم کبھی مر نہیں سکتی مگر۔۔۔

تائیوان کی 63سالہ خاتون چن شو اپنی آمدنی کا تھوڑا سا حصہ خود پر خرچ کرکے باقی سب کچھ سکول کے بچوں کے لیے عطیہ کر دیتی ہے ۔چن شو نے حال ہی میں ایک سکول کو 10لاکھ تائیوانی ڈالر کا عطیہ کیا ہے ۔ یہ سبزی فروش 63سالہ خاتون روزانہ 18گھنٹے کام کر کے گزشتہ 20برسوں میں ایک کروڑ تائیوانی ڈالر عطیہ کر چکی ہے ۔

تائیوانی خاتون کی اس لگن اور قربانی کو پڑھ کر مجھے 2008کا وہ دن یاد آگیا جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بلوچستان کے سیلاب زدہ گان کے لیے فنڈ جمع کرنے ایک گورنمنٹ پرائمری سکول گیا جہاں مجھے ایک ایسے بچے سے واسطہ پڑا کہ جس نے مجھے ایک چیز باور کرا دی کہ یہ قوم کبھی مر نہیں سکتی۔فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں جب میں اس بچے کی کلاس میں داخل ہوا اور میرے ساتھ آئے ہوئے میرے دوست نے فنڈ ریزنگ کا مدعا بیان کیا تو چہارم کلاس کے یہ بچے میرے پھیلے دامن میں ایک روپیہ دو روپے ڈال رہے تھے چوں کہ سکول گورنمنٹ کا تھا اور بچوں کی ظاہری حالت ایسی تھی کہ جس سے واضح ہورہا تھا کہ ان کے جیب میں پیسے تو دور کی بات ان کے پیٹ میں بھی کچھ نہیں ہونا ہے مگر پھر بھی یہ اپنے خالی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک اور دو روپے کی سکے نکال کر میرے دامن میں ڈال رہے تھے اسی اثناء میں ،میں نے جب ایک بچے کو بے چین دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس کا جذبہ اسے بے چین کیے ہوئے ہے ۔یہ بچہ اپنے ساتھ بیٹھے ایک کلاس فیلو سے ایک روپیہ مانگتا ہے اور میرے دامن میں ڈال کر ایسے خوش ہوتا ہے کہ جیسے اس نے زندگی کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کر لی ہو۔واپس جاتے ہوئے اپنے اس دوست کو کہتا ہے کہ میں تمھیں کل یہ ادھار واپس کر دو ں گا اور پر سکون ہو کر بیٹھ جاتا ہے ۔میں آج تک اس سوال کا متلاشی ہوں کہ پھٹے پرانے یونیفارم میں ملبوس اس بچے نے کیسے کل پیسے واپس کیے ہوں گے جب کہ اس کے پاس تو اس دن ایک روپیہ بھی نہیں تھا ساتھ ساتھ مجھے اس کے کلاس فیلو پر بھی رشک آتا ہے کہ جس نے خود تو امداد کر کے ثواب کما ہی لیا ساتھ ساتھ اپنے کلاس فیلو کو بھی شامل کیا کہ وہ بھی ثواب کمائے ۔

خیر یہ تو ایک واقعہ ہے مگر پاکستان کی تاریخ ایسی قربانیوں سے بھری پڑی ہے جس میں اس قوم نے یہ درس دیا کہ یہ قوم کبھی مر نہیں سکتی ۔مجھے 2005کے زلزلہ کے بعدزلزلہ زدگان کے لیے لگایا گیا کیمپ آج بھی یاد ہے۔ اپنے گھر کے سامنے چند گھنٹو ں کے لیے زلزلہ زدگان کے لیے لگائے گئے اس کیمپ میں گلی سامان سے بھر گئی تھی جہاں عورتیں بھی آرہی تھی تو مرد بھی، بوڑھے بھی اور جوان بھی حتیٰ کہ ایسے بچے بھی آرہے تھے جن کی چال سے پتا لگتا تھا کہ انھوں نے ابھی چلنا شروع کیا ہے یہ سب دیکھ کر خوشی تو ہوتی تھی مگر خوشی تب دوبالا ہورہی تھی کہ جب گلی کے ان چھوٹے چھوٹے بچوں کی لگن کودیکھا جو پورا دن گلی میں اودھم مچائے رکھتے تھے۔یہ بچے اس دن امداد جمع کرنے کو کھیل بنا کر گھر گھر جاتے اور امداد لا کر مجھے جمع کروا رہے تھے انھی امداد کرنے والوں میں ایک اندھا بھکاری بھی تھا جوعین اس وقت آیا جب اندھیرا چھارہا تھا چوں کہ اندھیرا چھا رہا تھا تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ بھکاری دن بھر کی جمع پونجی کے ساتھ اپنے بیوی بچوں کے پاس گھر جارہا ہوگا جہاں لازمی بات ہے اس کے بیوی بچے بھوک سے نڈھال اس کا انتظار کر رہے ہوں گے ۔اس کی سفید لاٹھی کو جب آگے جانے کا راستہ نہ ملا تو اس نے باآواز بلند اپنے اندھے پن کا تذکرہ کر کے گلی بند ہونے کا گلہ کیا۔میں نے اسے پانچ منٹ صبر کا کہا اور گلی میں سامان کو ایک طرف کر کے اس اندھے بھکاری کے لیے راستہ بنا کر اس کا ہاتھ پکڑا اور سامان میں سے گزارنا شروع کیا ۔سامان کے ساتھ جب اس کے لاٹھی بار بار ٹکرائی تو اس نے مجھ سے پوچھ لیا کہ یہ سامان کیوں پڑا ہے کیا کوئی مکان خالی ہو رہا ہے ؟میں نے اس اندھے بھکاری کو کہا نہیں بابا جی مکان خالی نہیں ہو رہا ہے بل کہ ہم زلزلہ زدگان کے لیے امداد جمع کر رہے ہیں ۔میرا یہ کہنا تھا کہ اس اندھے بھکاری کے پاؤں وہیں جم گئے اور میرے سے اپنا ہاتھ چھڑا کر اپنی سفید چھڑی کو بغل میں دبا کر اپنے سارے جیب ٹٹولنا شروع ہو گیا ۔دن بھر کی ساری جمع پونجی میرے حوالے کی اور بولا کہ میرا حصہ بھی ڈال دو۔یہ کہہ کروہ اندھابھکاری اپنے گھر کی طرف تو روانہ ہو گیا مگر مجھے ایک منجمد جسم کی مانند کر گیا۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم حادثات اور آفات کی صورت میں جس بھائی چارے اور لگن کا مظاہرہ کرتی ہے اس کا ثانی نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ بھیڑیے ایسی بھی ہیں جو ان حادثات اور آفات پر اپنے مقاصد بھی حاصل کرتی ہیں یہ بھیڑیے سیاست دانوں میں بھی ہیں تو ریاست دانوں میں بھی ہیں ، افسر شاہوں میں بھی ہیں اور نوکروں میں بھی ہیں ۔ اسی حوالے سے چند دن پہلے جب 8اکتوبر 2005کے زلزلہ زدگان کی بحالی کے بارے میں پراجیکٹ کی رپورٹ پڑھی تو رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ ایک طرف قوم بھوک برداشت کر کے ان کی بحالی کے لیے سرگرداں ہے تو دوسری طرف اسی قوم کے افراد زلزلہ زدگان کے لیے ملنے والی امداد کو عیاشیوں میں اڑانے میں مصروف ہے رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ زلزلہ بحالی کے 11ہزار پراجیکٹس میں سے 9سال گزرنے کے باوجود 5ہزار پراجیکٹس بھی مکمل نہ ہوئے وجوہات میں کرپشن ، من پسند تعیناتیاں، اختیارات کا ناجائز استعمال اور متاثرین کے لیے مختص کیے گئے فنڈز میں بے ضابطگیا ں شامل ہیں ۔

زلزلہ زدگان کے لیے وصول ہونے والی امداد کو یہ یقینا مال غنیمت تو سمجھ بیٹھے ہیں مگر انھیں شایداس مال و متاع اور عہدے اور رتبے نے یہ بھلا دیا کہ اﷲ پاک نے اس دنیا کی عیش و عشرت کو صرف چند دن کا کھیل کہا ہے۔۔۔محاسبہ کون کرے ؟اصلاح کون کرے ؟جزا و سزا سے کون ڈرائے ؟اچھا ئی اور برائی میں تفریق کرنے والے اور نیکی کا درس دینے والے خاموش ہیں جب کہ اچھائی اور برائی میں فرق نہ کرسکنے والے شتر بے مہار۔۔۔کیا ہم اتنے بہادر اور دلیر ہوچکے ہیں کہ ہم پھر کسی قدرتی آفت کا انتظار کر رہے ہیں یا پھر کسی قدرتی آفت کو اپنی تباہی و بربادی کے لیے دعوت دے رہے ہیں ؟
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86131 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.