حال کا آئینہ مستقبل کا مصور ؛مولانا غفران ساجد قاسمی

مظفر احسن رحمانی
استاد دارالعلوم سبیل الفلاح جالے دربھنگہ
امام و خطیب جالے جامع مسجد
درمیانہ قد،کشادہ پیشانی اور اس پیشانی پر فکروں کی لکیر، ان لکیروں میں مستقبل کے تابندہ نقوش،گول مگر کشیدہ چہرہ،اس پرنورانی عکس جس عکس سے چھلکتا حسن،اس حسن سے ٹپکتی حیا،آنکھیں بڑی،پلکیں امت کے غم میں تر، گھنی داڑھی ان داڑھیوں میں دو چند بال سفید ،سر کے بال سیاہ ،درمیان سے اڑے اور جھڑے ہوئے،پر گوشت ہتھیلی ان ہتھیلیوں میں چاند کی گولائی،شہادت کی انگلی پر قلم کا نشان،ہلکا پھلکا بدن جو اب آہستہ آہستہ بھاری ہوتا جارہاہے،درمیانہ قد، یہ نقوش جب آپ کے ذہن کے اسکرین پر آئے تو آپ اس پر محبت و عقیدت کے قلم سے لکھ دیں نوجوان اور بے باک صحافی کا نام مولانا غفران ساجد قاسمی ۔

مولانا غفران ساجد قاسمی نے عالمی شہرت یافتہ عالم دین، عظیم فقیہ،مایہ ناز مفسر قرآن، سنجیدہ صحافی حیادار ادیب، مشفق استاد، باکمال مربی،فقیہ العصر مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی کے دامن محبت وشفقت میں رہ کر جہاں تربیت پایا وہیں زانوئے تلمذ بھی تہ کیا ہے، اور آج تک ان کے مشوروں کو اپنے لئے حرز جاں تصور کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک نوجوان صحافی صحافت کے آسمان پر درخشندہ ستارے کے مانند چمکتے نظر آتے ہیں،جب انہوں نے صحافت کی زمین پر قدم رکھا تو قلم نے اس کے سینے پر ایسے سنہرے باب لکھے جس نے اپنے اندر سے بے باک صحافیوں کو جنم دیا،جس میں ایک ابھرتا نام مولانا شمس تبریز قاسمی کا ہے، جس کے قلم نے بصیرت آن لائن میں ہلچل مچا رکھاہے، اور ایک جوان قلم نے تاریخی حیثیت حاصل کرلی ہے،اور یہ نوک قلم مولانا غفران ساجد قاسمی کی مرہون منت ہے،مولانا شمس تبریز قاسمی اپنے ایک مضمون میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ جب میں نے ایک مضمون بصیرت کیلئے بھیجا تو مولانا نے خوب داد تحسین سے نوازا،اور اس راہ پر سفر کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے اسی طرح لکھتے رہنے کی تلقین کی اور میرے حوصلہ کو جوانی بخشا یہ اور اس طرح کے بہت سے نو عمر صحافیوں نے اپنے حوصلے کو آزمانا شروع کردیا جن کا نام آج ہندوستان کی صحافت پرچمکتا اورروشن نظر آتا ہے،جس کی ایک لمبی فہرست ہے،الھم زد فزد۔

مولانا غفران ساجد قاسمی نے اپنی صحافت کا آغاز مدرسہ چشمہ فیض ململ ضلع مدھوبنی سے شائع ہونے والے جریدہ ندائے بصیرت سے کیا،جو ان کی ہی تحریک پرجاری ہوا تھااوراس کے چیف ایڈیٹر تھے۔ لیکن افسوس کہ مولاناکے ململ چھوڑنے کے بعد یہ رسالہ اپناسفرجاری نہ رکھ سکااورامت مسلمہ ایک مفید رسالہ سے محروم ہوگئی۔اسی درمیان بہار کے مشہور اور ملت کا نمائندہ روز نامہ اخبارقومی تنظیم سے وابستہ ہوئے اور کئی سالوں تک ملت کے درد کو امت تک پہونچاتے رہے، لیکن یہ سلسلہ سعودی جانے کے بعد اپنی آخری منزل کو پہونچ گیا،مولانا کو فکر معاش نے اگرچہ سات سمندر پار جانے پر مجبور کردیا اور قلم کی سیاہی بھی خشک ہونے لگی،لیکن اسی درمیان قرطاس وقلم نے پھر سے کروٹ لیا ،اور ایک نئی تازگی کے ساتھ صحافت کے آسمان پر بصیرت آن لائن پوری تابانی کے ساتھ طلوع ہوا، جو پوری بے باکی کے ساتھ مسلمانوں کی نمائندگی کا فریضہ انجام دے رہا ہے اور یہ سب مولانا غفران ساجد قاسمی کی کاوشوں اور جہد مسلسل کا نتیجہ ہے،خدا کرے یہ سلسلہ قائم اور باقی رہے اور یہ آئینہ مستقبل کا مصور ثابت ہو ۔
ایں دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین باد
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180737 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More