غذا کا بوجھ

اگر ایک دن اچانک کسی کو یہ پتا چلے کہ اس کے نام کے معنٰی وہ نہیں جو اسے بتائے گئے ہوں بلکہ کچھ اور ہی ہوں اور کافی عجیب بھی ہوں تو وہ بیچارہ تو کافی مخمصے میں مبتلا ہوجائے گا ، اور یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکے گا کہ آیا اس کو اپنا نام بدل لینا چاہیئے یا اسی کو برداشت کرنا چاہیئے ۔ اگر تو وہ خود پسند شخصیت کا مالک ہوا تو پھر تو یہ حقیقت اس کے لیئے کافی پریشان کن ہو سکتی ہے ، اور اگر کوئی سست قسم کا انسان ہوا تو پھر تو اسی پر گزارا کرلے گا کیونکہ نام بدلنے کی صورت میں اس کو اپنے تمام کاغذات کی تبدیلی کروانے والے محنت طلب کام کو بھی سرانجام دینا پڑے گا۔ ایسی ہی ایک صورتحال میرے ساتھ بھی ہونے والی تھی لیکن بس بال بال بچت ہوگئی۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے عربی زبان سیکھنے کی ابتداء کی تھی۔ چونکہ عربی میں ہر لفظ کسی مادّہ (root) سے بنا ہوا ہوتا ہے اور اردو میں عربی زبان کے بہت سے الفاظ پائے جاتے ہیں تو میں نے یہ سیکھا کہ اگر مجھے عربی مادّوں (roots) کے معنٰی معلوم ہونگے تو میرے لیئے عربی اور اردو کے بہت سے الفاظ کو خود سے سمجھنا آسان ہوجائے گا۔چناچہ اسی طرز پر چلتے ہوئے میرے استاد نے مجھے کہا کہ ’’غازیہ‘‘ کا مادّہ تو وہ ہی ہوگا جولفظ’’ غذا‘‘ کا ہوتا ہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ جس نام کی بدولت تم آج تک خود کو فاتح سمجھتی آئی ہو وہی نام تمہیں مغلوب کروادے، یعنی بہت زیادہ غذا کھانے والی! وہ تو شکر ہے کہ میرے محترم استاد کی طبیعت میں مزاح کا لطیف عنصر موجود ہے اور انکا ایسا کہنا بھی اسی مزاح کا ایک حصّہ تھالہٰذا انکی اس بات سے میں ہمیشہ محظوظ ہی ہوئی، ورنہ اگر میرے نام کے واقعی یہ معنٰی ہوتے تو کم از کم مجھے اپنے بارے میں یہ جاننے کا موقع مل جاتا کہ میں خود پسند ہوں یا سست! ویسے جہاں تک نام کا تعلّق ہے میرا مطالعہ یہ ہے کہ نام کا شخصیت پر اثر نہیں پڑتا بلکہ شخصیت انسان اپنی خود بناتا ہے۔ہاں البتّہ ایک چیز کا انسان کی شخصیت پر بہت اثر پڑتا ہے اور وہ ہے اس کی خوراک کی مقدار۔ جتنی زیادتی وہ خوراک میں کرتا جائے گا اتنا ہی بگاڑ اس کی شخصیت اور اس کی طبیعت میں ہوتا جائے گا۔شیخ سعدی کی ایک حکایت اس قیاس کو بہت بہتر طریقے سے واضح کرتی ہے۔

ارشیر بابکان (ایران کا بادشاہ) نے ایک حکیم سے پوچھا، ’’انسان کو دن بھر میں کتنی غذا کھانی چاہیئے؟‘‘ حکیم نے کہا، ’’ڈیڑھ پاؤ‘‘بادشاہ نے فرمایا،’’اتنی سی مقدار بھلا کیا طاقت دے گی؟‘‘حکیم نے کہا،’’جہاں پناہ ! انسان کی صحت کے لیئے اسی قدر کافی ہے۔ جو شخص اس سے زیادہ کھاتا ہے وہ غذا کا بوجھ اٹھاتا ہے‘‘۔
غذا کا کام ہے توانائی دینا اور رب نے ہر ذی روح کے لیئے اس کا پورا پورا انتظام کررکھا ہے۔
ارشادِ ربّانی ہے: وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (سورۃ ۱۱، آیت ۶)۔۔
ترجمہ:اور زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اﷲ کے ذمّے نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب جب رب نے یہ کہہ دیا کہ زمین پر موجود ہر جاندار کے حصّے کا رزق اﷲ نے مہیّا کردیا ہے تو اب اگر کوئی بھوکا رہ جاتا ہے تو اسکا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے حصّے کا رزق کسی اور نے چھین لیا ہے اور ایسا کرنے والا صرف انسان ہی ہوسکتا ہے کیونکہ حیوانات کبھی اپنی ضرورت سے زیادہ نہیں کھاتے۔ سال ۲۰۱۲کے اختتام پر state of the world's healthکی ایک تحقیق نے یہ رپورٹ پیش کی کہ دنیا بھرمیں زیادہ خوراک کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد خوراک کی کمی سے مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ تھی۔اس سے تو بآسانی یہ ثابت ہوتا ہے کہ رب ِکریم نے دنیا میں موجودہر جاندار کی نہ صرف ضرورت کا رزق فراہم کیا ہے بلکہ ضرورت سے زیادہ عطا کیا ہوا ہے لیکن انسان اضافی غذا کھا کر اس کا بوجھ اٹھاتا ہے اور اپنے مقام سے گر جاتا ہے۔اس طرح سے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی موت اور تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔

ربِّ کریم نے تمام مخلوقات کو ان کے مقامات اور مقاصد کے ساتھ پیدا کیا ہے، مثلاََسورج کا کام ہے روشنی اور حرارت فراہم کرنا، شہد کی مکھّی کا کام ہے شہد بنانا، ہوا کا کام ہے پھولوں اور پھلوں کے مختلف اجزائے ترکیبی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا، مٹّی کا کام ہے نباتات کی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرنا ،نباتات اور بہت سے حیوانات کا کام ہے جاندار اشیأکی غذا کی ضروریات کو پورا کرنا اوران تمام مخلوقات کو جو صلاحیتیں دی گئی ہیں وہ ان کے مقاصد کے مطابق عطا کی گئی ہیں اور وہ اپنی تمام صلاحیتوں کوپورا پورا استعمال کرتے ہیں اور اپنا کردار ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔لہٰذا اس تمام جائزے کی روشنی میں اگرہم یہ دیکھنا چاہیں کہ انسان کا مقام اور مقصد کیا ہے تو اس کو جاننے کے لیئے انسان کوسب سے پہلے اپنا موازنہ دیگر مخلوقات سے کرنا چاہیئے اور بنظر تعمّق، یہ بالکل واضح ہوجائے گاکہ جس طرح اﷲ کریم نے انسان کو صلاحیتیں دیگر مخلوقات سے زیادہ دی ہیں اسی طرح اس کا مقام اور مقصدِ حیات بھی انہی صلاحیتوں کے مطابق بہت عظیم مقرّر کیا ہوگا۔اور اس عظیم مقام کو حاصل کرنے کے لیئے جو مقصد انسان کو سونپا گیا ہے اس کی ابتدأ ہوتی ہے اﷲ ربّ العزّت کی اس ہدایت سے:
ارشادِ ربّانی ہے : َمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ(سورۃ۲، آیت ۳)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اسے (ضرورت مندوں کے لیئے) کھلا رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ــ’’رزقنٰھم‘‘سے مراد ہروہ نعمت ہے جوربِّ کریم نے انسان کو عطا کی ہے تاکہ اس کی صلاحیتوں کی نشوونما ہوتی رہے اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا ہے کہ اس پر کوئی بھی ایسی پابندی نہ لگائی جائے جو ان صلاحیتوں کی نشوونما میں رکاوٹ بنے۔لہٰذا انسان کے مقصد کی ابتدأ ہوئی کائنات کی نشوونما کے لیئے سرانجام دینے والے کاموں سے۔اور اس کی شروعات ہوگی ان لوگوں سے جن کو وہ ذرائع حاصل ہیں جو اس مقصد کے حصول کے لیئے درکار ہیں، مثلاََ علم، مال، صحت،ذہانت،طاقت ہی وہ ذرائع ہیں جن کا ہونا کسی خوش قسمتی کی نہیں بلکہ ایک اہم ذمّہ داری کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی ان ذرائع کو استعمال کرکے ان لوگوں تک ان کا حصول ممکن بنانا جو اپنی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کرپارہے ہوں اور اپنے مقام کو حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔ یہ ہے لمحہٗ فکریہ ہر اس شخص کے لیئے جسے رب کی نعمتیں حاصل ہیں کیونکہ یہ نعمتیں اﷲ تعالیٰ کی امانتیں ہیں جو ہمیں اس متعیّن وقت پر کائنات کے نشوونما کے عمل کے ساتھ شامل کرنی ہیں جو پروردگار نے اپنے قانون کے مطابق طے کر رکھا ہے تاکہ ہمارا اور کائنات کا تعلق مضبوط سے مضبوط ہوتا جائے اور ہماری صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے ۔اور اگر ہم نے اس امانت میں خیانت کی تو یہ صلاحیتیں بالآخر ہم سے واپس لے لی جائیں گی اورنتیجہ ہماری نامرادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا اور ہم اس کائنات کے صرف ایک بیکار پرزے کی سی حیثیت سے اپنی ابدی موت تک پہنچ جائیں گے جس کے بعد زندگی کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔
Ghazia Kazi
About the Author: Ghazia Kazi Read More Articles by Ghazia Kazi: 2 Articles with 1504 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.