یکسوئی سے زندگی بسر کرنا سیکھئے
(Khalil Ahmad Almadani, )
انسان کو اللہ تعالٰی نے اشرف
المخلوقات بنایااور اسے ہر طرح کی نعمت سے نوازا ۔یہ جب اپنے شعور کو
استعمال کرتا ہے تو اسے کامیابیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں لیکن جب یہ اسے
چھوڑ دیتا ہے تو اسے طرح طرح کے وسوسے گھیر لیتے ہیں جو اسے نہ صرف پریشان
کرتے بلکہ ایک ایسی بیماری میں گرفتار کر لیتے ہیں جس کی تشخیص "عدم یکسوئی"
کے نام سے کی جاتی ہے ۔
یکسوئی ایک ایسی نعمت ہے کہ اگر عبادت میں ہو تو اس کو قبولیت کے قریب کی
دیتی ہے اب صرف للاہیت اور رضائے الہی کا پانی چاہئے ہوتا ہے جو اسے سیراب
کر کے قبولیت تک پہنچا دیتا ہے۔
اگر یکسوئی دنیا کے کسی معاملے میں ہو تو انسان بڑے بڑے میدان فتح کر لیتا
ہے کسی دانشور نے کہا تھا "کہ جب تک خیال ایک مقام پر نہ ٹھہر جائے، ہم کسی
مقام پر نہیں ٹھہر سکتے"۔ اگر ایسا ہو کہ خیال ایک مقام پر نہ ٹھہرے، دھیان
ایک نقطہ پر مرکوز نہ ہو سکے، ذہن ہر وقت اِدھر اُدھر بھٹکتا رہے، منتشر
خیالی کی وجہ سے خوبصورت، پرُسکون، کامیاب اور خوشگوار زندگی خواب و خیال
لگنے لگے، آپ بات بات پر چونک کر کہنے لگیں "جی! کیا فرمایا آپ نے؟جی کیا
کرنا ہے ؟کیسے کرنا ہے ؟حتی کہ اس کام کو کرنے بیٹھے تو عدم توجہی اور
یکسوئی کے فقدان سے نا مکمل ہوا " تو جان لیجیے کہ آپ قوتِ یکسوئی بڑھانے
کی ضرورت ہے۔
اب مزید وضاحت کی کوشش کرتے ہیں کہ قوت یکسوئی ہے کیا…؟ یاد رکھیں یہ وہ
صلاحیت ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی تمام تر توجہ کسی ایک خیال یا نقطے پر
قائم کر لیتا ہے، اسے قوت ارتکاز یا یکسوئی کہتے ہیں۔
جب توجہ کسی ایک نقطے پر قائم ہو جائے تو انسان اپنے اُمورِ زندگی بہتر
انداز اور کم وقت میں سرانجام دینے کے قابل ہو جاتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ
خوشی، اطمینان، سکون اور کامیابی قوتِ ارتکاز میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔یوں
انسان ترقی کی طرف بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔
اس کے بر عکس مستقبل کے انجانے خدشات، بیماری، ناآسودہ حالات، لاحاصل
آرزوئیں،پے درپے ناکامیوں جیسے عوامل خیالات کو منتشر کرتے اور شخصیت کو
بکھیر دیتے ہیں۔
عدم ارتکاز یا عدم یکسوئی کی وجوہات
اگر ہم اپنے معاملات کا جائزہ لیں تو ہمیں یکسوئی حاصل نہ ہونے کی وجوہات
کا ندازہ ہوتا چلا جائے گا۔جیسے:
1. حد سے زیادہ مصروفیت تھکن کو جنم دیتی ہے اور یہ تھکن ذہنی ارتکاز کو کم
کر دیتی ہے۔
2. اُلجھنیں، پے درپے ناکامیاں اور پریشانیاں دماغ کو گھیر لیتی ہیں اور
یکسوئی کی صلاحیت سے محروم کر دیتی ہیں۔
3. کچھ لوگ فطری طور پر تنہائی پسند ہوتے ہیں۔ اگر وہ لوگوں کے ہجوم میں
یوں گھِرجائیں کہ باوجود خواہش اور کوشش کے انھیں تنہائی کے لمحات میسر نہ
آئیں، تو ان کے خیالات کے بہائو میں خلل آنے لگتا ہے، جو یکسوئی میں کمی
کا سبب بنتا ہے۔
4. کسی بھی شے میں دلچسپی کم ہو تو اس پر ارتکاز مشکل ہو جاتا جیسے آپ
اپنے پسندیدہ موضوع پر کتاب بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ محویت اور شوق جتنا
زیادہ ہو یکسوئی اسی قدر بڑھ جاتی ہے بصورتِ دیگر اسی قدر کم ہو جاتی ہے۔
5. غیر منظم زندگی بھی ذہنی انتشار کو جنم دیتی ہے، اگر ایک شخص کا حلیہ
پریشان، بال غیر تراشیدہ، لباس غیر نفیس، جوتے گرد آلود ہوں۔ اس کا کمرا
بکھرا پڑا ہو، آفس کی گاڑی پر مٹی کی تہیں جمی ہوں تو اس کی ظاہری زندگی
کا ہر پہلو اس کے منتشر باطن کی کہانی سنا رہا ہوتا ہے۔
6. زندگی کے خواہ مخواہ کے پچھتاوے اور منفی سوچیں بھی ذہنی ارتکاز کی
صلاحیت کو ختم کرنے لگتی ہیں۔
7. بعض اوقات آوازیں، چہرے، منظر، ماحول، خوشبوئیں بھی توجہ بٹاتی اور قوتِ
ارتکاز کو کم کردیتی ہیں۔
8. خواہ مخواہ کی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکسوئی کو کیسے بڑھایا جائے؟
تو آیئے اب یکسوئی سے زندگی بسر کرنا سیکھیں :
1. باوضو ہوکر آٓنکھیں بند کیجئے، لمبا گہرا سانس لیجئے۔"اپنے تمام گناہوں
کو یاد کر کے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کیجئے،اب تمام مسائل، پریشانیاں،
اُلجھنیں اور تفکرات ایک گٹھڑی میں بند کر دیجئے اور اللہ عزوجل کی بارگاہ
میں دُعا کیجئے، کہ یا اللہ عزوجل ! تُو ہی طاقتور ہے، میں کمزور ہوں، میں
ان کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتالیکن تیری ہی دی ہوئی طاقت سے ۔ اے اللہ ! آج
سے میرے تمام معاملات، میری سوچیں، میرے ارادے سب تیرے حوالے ہیں"۔ جب بھی
پریشان ہوں، یہی مشق دہرائیے۔ یقین جانیے ان شآء اللہ عزوجل اس مشق کے بعد
آپ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کریں گے اور آپ کے اندر اس یقین کی
روشنی اْترنے لگے گی کہ اللہ عزوجل اپنی رحمت سے آپ کے تمام مسائل کو آپ
کے بہترین مفاد میں حل کر نے کے اسباب عطا فرمائے گا اور جو کام آپ کے لئے
نقصان کا باعث ہو گا اس سے بچنے کی توفیق بھی عطا فرمائے گا۔اور اپنے ذہن
میں ہر لمحہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ان شآء اللہ
یکسوئی آپ کا مقدر ہو گی۔
2. جب بھی کسی معاملہ پر سوچ بچار درکار ہو یا کسی فیصلہ پر پہنچنا مقصود
ہو، تو مدھم تاریکی میں دیوار کے ساتھ ٹیک یعنی پشت لگاکر زمین پر بیٹھ
جائیے اور آنکھیں بند کر کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیجئے۔ مدھم تاریکی
یکسوئی کو بڑھا دیتی ہے۔لیکن ہر وقت اللہ کی مدد شامل حال ہونے کا تصور
جمائے رکھیے۔
3. اللہ عزوجل کی نعمتیں یعنی کھلی تازہ ہوا، پانی کی آبشار یا جھیل، پھول
اور سبزہ ذہن اور آنکھوں کو طراوٹ بخشتا ہے-
اور موڈ کو خوشگوار کرتا ہے۔ نتیجتاً یادداشت بہتر ہو جاتی ہے، ذہن بھٹکتا
نہیں اور توجہ ایک نقطہ پر مرکوز کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
4. اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ اپنے معمولات میں توازن لائیے، صبح جلدی جاگیے،
رات کو جلد سو جائیےاس کی برکتیں نماز تہجد اور فجر باجماعت کے ساتھ روحانی
اور یکسوئی کی طرف لے جائیں گیں اورمتوازن غذا لیجئے، ناشتا بھرپور کیجئے
پھر صبح سویرے ہی اپنے تمام دن کے معمولات کار کو ترتیب دیجئے۔ زندگی جتنی
منظم اور پْراعتدال ہو گی، قوتِ ارتکاز اسی قدر اچھی ہو گی۔فجر کے بعد ہرگز
ہرگز نہ سوئیےبلکہ تلاوت ذکر اللہ کے بعد اپنے شیڈول کی طرف بڑھیے۔
5. اپنے اہداف یا مقاصد کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیجیے اور قدم بہ
قدم آگے بڑھتے چلے جائیےاس کے لئے اپنے ہر عمل کو نمازوں کے ساتھ پلان
کیجئے مثلاً فجر سے ظہر تک یہ کام مکمل ہو گااور ظہر کے بعد قیلولہ کر کے
دوسرا کام ،یوں عصر کے بعد کے کام اور مغرب تاعشا کا رآمد جدول ضرور
بنایئےتاکہ ہر کام انتہائی مناسب انداز میں ماحول اور وقت کی تبدیلی کے
ساتھ اچھے انداز میں یکسوئی سے ہو رہا ہو۔
6. ہمیں اپنی ترجیحات کا واضح طور پر پتا ہونا چاہیے جب تک اصل مقصد کو
باقی مقاصد پر فوقیت نہ دیں یکسوئی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ یکسوئی کا
مطلب ہی یہ ہے "ایک مقصد یا ایک خیال"ایک خیال کے لیے بہت سے خیال چھوڑنے
پڑتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اولیا کی سیرت کو پڑھیں تو توجہ الی اللہ غالب نظر
آتی ہے اور اسی سبب و ہ لوگ اولیاء اللہ کہلاتے ہیں ۔اور اُن کے سامنے "ایک
مقصد یا ایک خیال" ہوتا ہے جو انہیں اللہ تک لے جاتا ہے۔یہ ان کی یکسوئی ہی
ہوا کرتی ہے کہ وہ کسی دوسری چیز کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور زندگی گزر
جاتی ہے۔
7. بچوں میں یکسوئی بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی قوتِ خود اعتمادی میں
اضافہ کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بچوں کو بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ
نہ کیجئے۔ ان کو کوئی کام کہیں اور اس کام کی تکمیل کے لیے انھیں مناسب مدد
بھی فراہم کیجئے۔ جب بچے وہ کام کر لیں تو ان کی حوصلہ افزائی بھی
ضرورکیجئے۔ دوسروں کے سامنے ان کی تعریف کیجئے۔ اس سے نہ صرف بچوں کی
کارکردگی بہتر ہو گی بلکہ وہ زیادہ یکسوئی سے کم وقت میں اچھانتیجہ دے سکیں
گے۔
8. زندگی کی کچھ تلخ حقیقتوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرناسیکھئےکیونکہ
زندگی میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جسے ہم بدلنا چاہتے ہیں لیکن بدل نہیں سکتے
اور اس وجہ سے مسلسل بے سکونی اور بے چینی کا شکار رہتے ہیں۔ بہتر یہی ہے
کہ خود کو سمجھا لیجئے اوراگر حالات کو بدل نہیں سکتے تو خود کو بدل لیجئے۔
کوئی متبادل راستہ تلاش کر لیجئے جس طرح ندی کا پانی جب راستے میں آنے
والے بھاری پتھر کو اپنے ساتھ بہا نہیں سکتا تو وہ دوسری طرف سے راستہ بنا
کر گزر جاتا ہے۔
9. اپنے آپ کودرست سمت پرمصروف ضرور رکھئےجیسا کہ کسی شخص نے کیا خوب کہا
کہ "میں اتنا مصروف ہوں کہ پریشان ہونے کے لیے وقت نہیں" ایسی مصروفیت
اپنایئے جو آپ کی کامیابیوں اور دوسروں کی خوشیوں میں اضافہ کر سکے۔
10. جلد بازی سے بچئے کہ جلد بازی بھی اضطراب میں اضافہ اور قوتِ یکسوئی
میں کمی کرتی ہے۔ ہم بہت سے کام فوراً کرنا چاہتے ہیں اور جلد از جلد ان کا
نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ جلد بازی پریشانی کو جنم دیتی ہے۔ بہتر ہے کہ
صبر سے کام لیجئے، سازگار حالات، مواقع اور وقت کا انتظار کیجئے۔ البتہ
کوشش ترک نہ کیجئے۔
11. ماضی کی تلخیوں کو حال پر اثر انداز مت ہونے دیجئے۔ حال اور لمحۂ
موجود کی اہمیت کو سمجھئے، اپنے آج کو روشن اور خوبصورت بنانے کے لیے اپنی
تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں وقف کر دیجئے۔تابناک حال آپ کو سیاہ ماضی
سے نجات دلا سکتا ہے۔
12. منفی رویوں اور سوچوں سے کہہ دیجیے "آپ کو قریب آنے کی اجازت نہیں"۔
ہر شے کا مثبت پہلو دیکھئے۔ ہماری بہت سی پریشانیوں کا سبب ہماری خود ساختہ
منفی سوچیں اور آنے والے کل کے بے جا اندیشے ہوتے ہیں۔ کل کے اندیشوں سے
اپنے دل کو افسردہ مت کیجئے،بلکہ یہ ہنستا ہوا موسم اور یہ خوشبو کا سفر
دیکھ کر جینا سیکھئے۔
13. ایسے لوگوں کی صحبت سے گریز کیجئےجو ہر وقت دوسروں کی ٹوہ میں رہتےہیں
اور ان کی جڑیں کا ٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ جنھیں دُنیا بھر کی اچھائیاں
اپنی ذات میں اور بُرائیاں دوسروں میں نظر آتی ہیں۔ یاد رکھیے!"لوہار کی
دوستی دھوئیں کے سوا کچھ نہیں دیتی"۔
14. بے دلی عدم توجہی کو جنم دیتی ہے جب کہ شوق اور خوش دلی یکسوئی کو بڑھا
دیتی ہے۔شوق کا نام ہی یکسوئی ہے۔ جب تک ذوق نہ ہو، یکسوئی کا سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا۔لہذا ہر کام شوق اور ذوق سے کیجئے کامیابی قدم چومے گی۔
15. ذہنی ارتکاز یا یکسوئی کو بڑھانے کا آخری ، اہم،بہت آسان اور کارآمد
فارمولا یہ ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت کم از کم اتنی بلندآواز کے ساتھ کی
جائے کہ آواز آپ کی سماعت تک پہنچ سکے اور آپ کو پتا چل سکے کہ آپ کے
تلاوت کردہ الفاظ کیا ہیں۔ اس طریقے سے تلاوت کرنے سے نہ صرف توجہ منقسم
نہیں ہوتی بلکہ خیالات میں بہاؤپیدا ہونے لگتا ہے اور قوتِ یکسوئی بہت بہتر
ہو جاتی ہے۔
16. ہر کام سے پہلے اور بعد میں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں مدد اور نصرت
،کام کی بخیریت انجام دہی کی دُعا ضرور کیجئے۔
نوٹ : اگر آپ یکسو نہیں ہو پاتے اور خیال کسی ایک جگہ نہیں ٹھہرتا تو
مندرجہ بالا طریقوں پر عمل کیجیے۔ آپ خود دیکھیں گے کہ خیال سے مقام تک کا
سفر کتنی تیزی سے طے ہوتا ہے۔
تمت بالخیر
عرض !
مضمون کو بہتر مفید اور کار آمد بنانے نیز لفاظی کی بجائے آسان انداز میں
لیکن خوبصورت طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اگر کوئی
غلطی پائیں یا مشورہ دینا چاہیں تو ضرور ای میل کیجئے۔[email protected] |
|