بڑی عید سرپر ہے اور مفلسی ہمارے
در پر ہے ۔درپردہ بات یہ ہے کہ ان نا سازگار حالات میں جب کہ ہم اور ہمارے
جیسا ہر پاکستانی ہر قسم کی قربانی چارو نا چار دے رہا ہے ۔ خواہ وہ
مہنگائی کی صورت میں ہو، دہشت گردی کی صورت میں ہو،پولیس گردی کی صورت میں
ہو یا انتظامیہ کی غیر انتظامی سر گرمیو ں کی صورت میں ہوبہر حال قربانی
عوام کو ہی دینا پڑتی ہے ۔اتنی قر بانیوں کے باوجود ہماری ہمت دیکھیں کہ ہم
عید قرباں کے کے موقع پر بھی قربانی دینے کا سوچ رہے ہیں۔ایسا کیوں سوچ رہے
ہیں شاید اسکی وجہ ہمارا راسخ العقیدہ مسلمان ہونا ہویا محلے داروں اور
رشتہ داروں پر اپنے صاحب حیثیت ہو نے کی دھاک بٹھانا مقصود ہو ۔اول الذکر
وجہ تو اس لئے نہیں ہو سکتی کہ ہم ایک مسلمان ہو نے کے باوجود اسلام کے
متعین کر دہ بہت سے فرائض سے پہلو تہی کر جاتے ہیں تو ”قربانی “ تو پھر بھی
ایک سنت ہی ہے اور یہ استطاعت سے مشروط ہے ۔اگر حیثیت ہو تو کر لی جائے
ورنہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ وہ آئند ہ سال ہمیں قربانی کر نے کی
حیثیت و توفیق عطا فرمائے ۔اب قربانی کر نے یا اس حوالے سے منصوبہ بندی کر
نے کی ایک وجہ رہ جاتی ہے کہ ہم نمودو نمائش ہی چاہتے ہیںجو کہ کسی طرح بھی
ایک اچھی و مثبت سوچ نہیں ہے اور اس سے ”قربانی “کا اصل مقصد ختم ہو جاتا
ہے ۔اللہ تعالیٰ نمود و نمائش اور دکھاوے کو ہر گز پسند نہیں فر ماتا اور
خصوصاً اس وقت جب یہ نمودو نمائش قر ض کے بل بوتے پر کی جائے۔بچوں نے بھی
ہم پر قربانی کے حوالے سے دباﺅ ڈال رکھا تھا اور و ہ بضد تھے کہ قربانی ہو
گی اور ضرور ہو گی خواہ کچھ بھی ہو جائے۔بچے تو بچے ہی ہو تے ہیں اور وہ تو
کھیلنے کو چاند کا مطالبہ بھی کر دیتے ہیںتو یہ تو پھر بھی گائے یا بکرے کی
بات تھی لہٰذا ہم نے بچو ں کے آگے ا س طرح ہتھیار ڈال دیئے جیسے کو ئی شکست
خوردہ فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے ۔ہمارے ہتھیار ڈالنے کے بعد بچوں نے بھی با
لکل اسی طرح جوشیلے نعرے لگائے اور بھنگڑے ڈالے گویا انھوں نے کشمیر فتح کر
لیا ہو ۔اب ہم نے اس نکتہ پر غور کرنا شرروع کر دیا کہ قربانی انفرادی کی
جائے یا اجتماعی او ر اس کیلئے رقم کا بندو بست کہاں سے ہو گاکیونکہ ورلڈ
بنک اور آئی ایم ایف تو قرضہ دیگا نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم براہ راست قر
ض نہ لیکر بھی عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے اچھے بھلے مقروض ہیں۔اب کیا
کیا جائے قربانی کر نی ہے تو رقم بھی درکار ہو گی۔کاش وزیر اعظم میاں نواز
شریف نے نوجوانوں کو قرضے دینے کیلئے 20ارب روپے کا جو اعلان کیا ہے اس میں
سے ایک حصہ قربانی کر نے والوں کیلئے بھی مختص کر دیتے تو سارا مسئلہ ہی حل
ہو جاتاہے اور عزت سادات بھی رہ جاتی ۔چونکہ 20ارب کا پیکج نوجوانوں کیلئے
مختص کیا گیا ہے لہٰذا ہمیں بھی قرضہ مل جانے کی قوی امید تھی کہ ہم noجوان
ہیں۔قربان جاﺅں میاں صاحب کی فہم و فراست پر انھوں نے یہی سوچ کر کہ قرضہ
برائے قربانی نہیں رکھا کہ عوام توپہلے ہی قربانیاں دے رہے ہیںاب انھیں کو
ئی قربانی دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ہم نے سوچا حسب عادت کسی دوست سے کچھ
ادھار پکڑلیتے ہیں ۔اس حوالے سے دوستوں کی ایک طویل فہرست میں سے کچھ نام
شارٹ لسٹ کیئے ۔لگ بھگ 2سو میں سے 10ایسے دوست تھے جن کے ہم پہلے سے مقروض
نہ تھے ۔ہم بہت خوش تھے کہ ہمیں دوست کی تعریف سے بھی آگاہی تھی ”دوست وہ
ہوتا جو مصیبت کے وقت کام آئے“۔اب ہم دوستوں سے ادھار مانگنے جارہے تھے
لہٰذا ایک موبائل کمپنی سے 30روپے کا بیلنس ادھار لیا تاکہ ادھار لینے کی
ریہر سل ہو جائے ۔مزکورہ کمپنی نے ہمیں فٹا فٹ ادھار بیلنس دیدیا جس سے
ہماری ڈھارس بندھی اور اعتماد بڑھا ۔اس کے بعد ایس ایم ایس کا پیکج لے کر
دس کے دس دوستوں کو ایک ہی ٹیکسٹ لکھ کر بھیج دیالیکن دو دن گزر جانے کے
بعد بھی کسی دوست کی طرف سے کو ئی جواب نہیں آیاتب ہم سمجھ گئے کہ ”دوست ہو
تا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا“۔دوستوں کی طرف سے مایوس ہو نے کے بعد ہم سوچ
رہے تھے کہ اب کیا کیا جائے ۔فوراً خیال آیا کہ بیویاں تو شوہر کیلئے ہر
آڑے وقت میں کام آتی ہی ہیں۔اگر کوئی فلم ہو تی تو ایسے موقع پر بیوی فور ی
طور پر جزباتی انداز میں اپنے ہاتھوں سے کنگن اتار کر کہتی کہ سر تاج یہ
فروخت کر کے قربانی کر لیں۔ایک ہماری اہلیہ ہیں کہ ہاتھو ں میں 4کڑے ہو نے
کے با وجود وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھیںہم اہلیہ کی بے حسی پر اندر ہی
اندر کڑھنے لگے اور ان کی ماضی میں دی گئی تمام قربانیوں کو یکسر فراموش کر
تے ہو ئے دل ہی دل میں انھیں سخت سست کہنے لگے مگر چہرے پر غصہ کے آثار
نمودار نہ ہونے دیئے کہ ”گھر میں رہ کر بیوی سے بیر نہیں لیا جا سکتا“جب
اہلیہ کی طرف سے کو ئی ہل جل نہ ہو ئی تو ہمت کر کے خو د ہی کہہ دیا اگر آپ
کا ایک کنگن فروخت کر دیا جائے تو کیسا رہیگا۔بس پھر کیا تھا کہ بیگم نے وہ
بے بھاﺅ کی سنائیں کہ اس لوڈ شیڈنگ کے دور میں بھی ہمارے چاروں طبق روشن ہو
گئے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ کنگن مصنوعی ہیں جاﺅ لے جاکر بیچ دو۔اس موقع پر
ہمیں چار بیویوں کی اجازت کی افادیت کا پتا چلا کہ کو ئی ایک تو ہمارا مشکل
وقت نکال ہی دیتی۔بہر حال ابھی عید الا ضحیٰ میں کچھ وقت ہے اور ہمیں امید
ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کہیں نا کہیں سے چھپر پھاڑ کر ضروردیگا تا کہ ہم
سنت ابراھیمی کی یاد تازہ کر سیکں۔
|