دم توڑتی رسمیں

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ جیسے سماج ترقی کی منازل طے کرتا ہے تو پھر تقریبا تمام شبعہ ہائے زندگی میں بہت زیادہ تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں رہن سہن،رہائش،کھانے پینے پہننے،تعلم و طرز تعلیم، ادب، سیاست، شادی و موت غرض کہ ہر ایک شعبہ زندگی تبدیلی کی زد میں آتا ہے۔ یہ تبدیلی مثبت بھی ہوتی اور انسان کی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے منفی بھی ہوتی ہے۔ایسی تبدیلیاں جو مثبت ہوتی ہیں وہ معاشرہ کی ترقی کے لئے مہمیز کا کردار ادا کرتی ہیں، انسانیت کو معراج کی کئی اور منازل طے کرواتی ہیں اور کئی ایک معاشرتی بیماریوں کا علاج کرتی ہیں اور یوں معاشرہ میں امن و آشتی کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے۔اسی طرح جو تدیلیاں منفی ہوتی ہیں وہ معاشرہ میں بے سکونی و بداعتمادی کے فروغ کا باعث بنتی ہیں،انسانیت کی تذلیل کا سامان پیدا کرتی ہیں اوراکثر معاشرہ کی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔

ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سی ایسی رسومات دم توڑتی نظر آتی ہیں کہ جو چند عشرے پہلے ہمارے معاشرہ کا لازمی جزو تھیں ۔ جن کے بغیر معاشرہ میں زندہ رہنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھا۔مثال کے طور پر اسی کی دہائی سے قبل جب زراعت میں مشینری زیادہ آسانی سے دستیاب نہ تھی تو اس وقت بیل گائے کی ضرورت کیوجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی اہل دیہہ سے تعلقات بہتر رکھے جاتے تھے تاکہ کی کاشتکاری اور فصل کی برداشت کے مواقع پر اہل محلہ کے تعاون سے جلد اور بروقت کاشت و برداشت کا کام نمبٹا یا جاسکے۔اب ٹریکٹر ،تھریشر،ڈرل ،ہارویسٹر کیوجہ سے جہاں کاشت کاری اور برداشت میں آسانی ہوئی ہے وہاں احیتاج کیوجہ سے جو میل ملاپ اور رواداری تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔ اب تعلق صرف اخلاص کا ہے۔

اسی طرح شادی و موت کی بہت سے رسومات ہیں کہ جو یا تو ختم ہو رہی ہیں یا ختم ہو چکی ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر برادری اور محلہ کے نوجوان کھانا کھلانے اور شامیانے وغیرہ لگانے کا کام سرانجام دیا کرتے تھے۔لیکن اب دیہات میں بھی اسی فیصد سے زائد شادی بیاہ کی تقریبات کے انتظامات کیٹرنگ و ٹینٹ سروس والوں نے سنبھال لئے ہیں۔یعنی اب ٹینٹ سروسز والے ’’ایونٹ مینجمنٹ‘‘ کی کمپنیوں کا روپ دھار چکے ہیں۔یوں جو ولیمہ سے قبل والی رات جو محفلیں پکوائی والے احاطہ میں جمتی تھیں اور شرارتا چوری چوری روسٹ بوٹیاں کھائی جاتیں تھیں ۔ پر مزاح گفتگو ، لطائف اورجگتوں سے جو محفل کا سماں ہوتا تھا وہ اب دیوانے کے خواب ہی لگتے ہیں۔حالانکہ چھ آٹھ سال پہلے یہ محفلیں عروج پر تھیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ تقریبا ختم ہو چکی ہیں۔البتہ مہندی،مایوں وغیرہ کی رسومات میں نت نئے اضافوں سے اخراجات کافی زیادہ بڑھ گئے ہیں۔اسی طرح ویٹرنگ وٹینٹج کی وجہ سے بھی اخراجا ت میں اضافہ ہو گیا ہے۔پہلے پہل برادری اور محلہ کے نوجوان صبح سویرے ہی شادی والے گھر پہنچ جاتے تھے اب وہ بھی دیگر دور کے مہمانوں کی طرح عین کھانا کھلنے کے وقت ہی تشریف لاتے ہیں جو یقین تعلقات میں دوری اور سرد مہری کا سبب بنتے ہیں۔ بیشک خال خال لیکن اب دیہات میں بھی آہستہ آہستہ شادی ہال کا رواج تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے ۔ شادی ہال سے پہلے کھلی جگہ کے مالکان یا بڑے صحن کے مالکان کے گھروں میں یہ تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔شادی ہال کی رسم بھی میل ملاپ میں کمی کا باعث بن رہی ہے اور اخراجات میں اضافہ اور اعزاء واقرباء کی پریشانی سوا ہوتی ہے۔

قبل اس کے کہ موت کی رسومات کے متعلق لکھوں اپنے ایک انکل کا کہا یہاں بیان کرتاچلوں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ جس بھی گاؤں میں دوستی ہوں وہاں آپ کی تعلق داری ایک ہی گھرانے سے نہ ہو کیونکہ شادی بیاہ یا دیگر خوشی کے مواقع پر تو انتظامات منصوبہ بندی سے کئے جاتے ہیں اور اس وجہ سے آپ کوکوئی تکلیف نہیں ہوتی لیکن کسی حادثہ یا موت کی صورت میں یہ بندوبست بہترین نہ ہونے کے مواقع ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں دوسرا تعلق دار گھرانہ آپ کے لئے مفید ہوتا ہے۔ میرے ان بزرگوار کا فرمایا میری لئے تو کوئی ایسی بات نہ تھا کہ میں اس پر عمل کروں اور آپ بھی اپنے نظریات کے مطابق اس سے فرمان سے اختلاف کر سکتے ہیں۔

بچپن میں اگر محلہ میں کوئی فوتگی ہو جاتی تو ریڈیو، ٹی وی تو دور کی بات ہے کھانا بھی اگر پکایا جاتا تھا تو وہ بھی اس طرح کہ دھواں نہ اٹھے کہ مبادہ لوگ یہ نہ کہیں کہ ادھر میت پڑی ہے اور ان کو کھانے کی پڑی ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ موت والے دن کھانا پینا نہیں ہوتا بلکہ ہمارے بچپن میں دوسرے دیہات میں بسنے والے رشتہ داری اور دوست احباب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق فوتگی والے گاؤں میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں میں اس دن کا کھانا لے کے جایا کرتے تھے ۔یہ ہی معمول موت والے گھر پر ہوتا تھا کہ وہاں رشتہ دار اور دوست احباب کھانا لایا کرتے تھے۔دیر سے موت اور کسی عزیز کی آمد کی وجہ سے بعض اوقات میت کو رات بھر رکھا جاتا ہے اور موت سے اگلے دن تدفین ہوتی ہے اس صورت میں اہل محلہ رات کے مختلف اوقات میں باری باری چائے لاتے تھے۔(چائے والی رسم اب کسی نہ کسی حد تک باقی ہے لیکن اس میں وہ سابقہ گرم جوشی نہ رہی ہے) دوسرے گاؤں سے کھانا لانے والی رسم تو میرے بچپن سے ہی ختم ہو گئی جس کا راقم کو دکھ ہے کیونکہ یہ رسم بھی مثبت اثرات رکھتی تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ رسم عین اسلامی تھی۔موت کے بعد کی بھی چند ایک رسومات ہوتی تھیں جن میں سے کافی ساری ختم ہوچکی ہیں ۔ ان میں سے ایک رسم جو ختم ہوئی راقم اس کے ختم ہونے کے حق میں ہے۔ وہ ہے تعزیت کا دورانیہ کم کرنے کا ہے۔اس سے قبل تعزیت کا دورانیہ ڈیڑھ سے دو ماہ کے لگ بھگ ہوتا تھا جو اب کم کردیا گیا جو کہ ایک احسن کام ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ مابعد موت کی رسومات جو ختم ہوئی ہیں ان کے خاتمہ کیوجہ پیسہ کی زیادتی ہے۔ ان میں ایک تو وہ رسم ہے کہ جس میں تعزیت کے آخری با ضابطہ دورہ پر پہلے پہل ’’آٹا‘‘ لے جایا جاتا تھا اور اب اس کی جگہ پیسے دیئے جاتے لیکن یہ رسم بھی تقریبا دم توڑ رہی ہے۔ اس رسم سے زمانہ غربت میں ایک دوسرے کی مشکل وقت میں مدد کا جذبہ کا عمل دخل تھاجو کہ ایک مستحسن عمل تھا۔ شادی کی طرح موت کے موقعہ پر چہلم کی پر کھانے کے بعد دوست رشتہ داری کچھ نقدی مرحوم کے گھر والوں کو دیتے تھے جو کہ اب مکمل طور پر ختم ہو چکی یہ عمل جہاں موت والے گھر کی مشکل میں آسانی کا باعث تھا وہاں اس کے تعلقات پر بھی مثبت اثرات تھے۔اﷲ سے دعا ہے کہ ہم دولت کی ریل پیل اور لوگوں کی دیکھا دیکھی جو مثبت رسومات ترک کر رہے ہیں ہم ان کو زندہ کرنے اور جن لغو رسوم کو اپنی ثقافت کا حصہ بنا رہے ہیں ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اﷲ غریق رحمت کرے محمد بشیر مرحوم ساکن چوکپنڈوڑی جو اپنی حیات میں پیپلز پارٹی پی پی پانچ کے صدر تھے وہ ان روایات کے خاتمہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا کرتے تھے اور انہوں نے اپنے بیٹوں کو وصیت میں یہ بھی کہا تھا کہ ان کے چہلم پر ’’پہانجی‘‘ (وہ رقم جو شادی بیاہ یا چہلم پر نقدی دی جاتی ہے) وصول کی جائے۔ اور سلام ہو اس اولاد پر جس نے اپنے عظیم مرحوم باپ کی وصیت پر لفظ بہ لفظ عمل کیا۔
 
Raja Ghulam Qanmbar
About the Author: Raja Ghulam Qanmbar Read More Articles by Raja Ghulam Qanmbar: 23 Articles with 18542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.