انسان اپنی زندگی کو تو آرام سے
ختم کر سکتا ہے لیکن غربت کا خاتمہ اتنی آسانی سے نہیں۔غربت ایک ہیبت ناک
اور روح کو تڑپا دینے والی کیفیت کا نام ہے ۔ یہ انسان کے سسک سسک کر ذندگی
گزارنے کا نام ہے ایسی حالت جس میں انسان ہر روز جیتا بھی ہے اور ہر روز
مرتا بھی۔یہ ایک بے بسی بھی تو ہے جس میں بعض دفعہ انسان اپنی چھوٹی چھوٹی
خواہشات کو بھی پورا نہیں کر پاتابلکہ یہ تو مسکراہٹوں اور خوشیوں کو
چھیننے والی بلاہے۔اگر انسان کے بس میں ہو یا اسے یہ اختیار دیا جائے تو وہ
اپنی ہر ایک خواہش کو ضرور پورا کر کے رہے گا۔ دراصل غربت جس بھی گھر میں
ڈیرے ڈالتی ہے وہاں اپنے ساتھ بھوک،بیماری اور بہت سی پریشانیوں کو لے کر
آتی ہے۔اس کے ہاتھوں روذانہ ہی لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں ۔ انتہائی افسوس
کی بات یہ ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ بعض اوقات اپنی پوری زندگی میں بھی
اس غربت کے قفس سے آزاد نہیں ہو پاتے یعنی وہ اپنی ساری زندگی میں کبھی
صحیح معنوں میں خوشحالی دیکھ ہی نہیں پاتے۔اب کیا غربت کو ایک خدائی آزمائش
کہاجائے یا کہ انسان کی خود ساختہ حالت؟کیا غریب انسان اپنی اس حالت کا خود
قصور وار ہوتا ہے یا کہ گورنمنٹ یا معاشرہ؟ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ تینوں
ہی اس کے قصوار ہیں یعنی انسان خود بھی ، حکومت بھی اور پھر معاشرہ بھی۔
لیکن اس میں سب سے ذیادہ ذمہ داری حکومت ہی کی بنتی اورحکومت کا یہ فرض ہے
کہ وہ اپنے شہریوں کے لئے سہولتیں پیدا کرے ان کو بہتر روزگار کے مواقع
فراہم کرے ۔اور صلاحیتوں کو آزمانے کا موقعہ دے چنانچہ اگر کوئی انسان پھر
بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو پھر وہ خود ذمہ دار ہے بلکہ قصوروار ہے
کیوں کہ یہ اب اس کی ذاتی فیصلہ سازی یا ناکام پالیسی ہوتی ہے۔ اوراب
معاشرے کے وہ افراد آتے ہیں کہ جو دولت مند ہیں تو ان کی بھی ذمہ داری ہے
کہ وہ غریبوں کی ایسی مدد کریں کہ انہیں خود روزی کمانے کے قابل کر دیا
جائے ۔ہمارے معاشرے میں ذیادہ تر لوگ اپنی کامیابی و ناکامی کو قسمت سے ہی
منسوب کرنے لگتے ہیں۔کچھ تو محنت کے لئے قدم بھی نہیں اٹھاتے اور بس اس
انتظار میں رہتے ہیں کہ قسمت کی دیوی کب ان پر مہربان ہو گی۔انسان کو کبھی
بھی اپنی ذندگی قسمت کے ہاتھوں میں ایک کھلونے کے طور پر پیش نہیں کرنی
چاہیے اگر انسان کی نیت صاف ہو ،اردے مظبوط ہوں تو اس جذبہ سے بندہ بری
قسمت کو بھی مات دے سکتا ہے اور خوب محنت سے انسان کوئی بھی مقام حاصل کر
سکتا ہے۔
ٖ
غربت کے خاتمہ کا عالمی دن ہر سال 17 اکتوبر کو پاکستان سمیت دیگر ممالک
میں منا یا جاتا ہے۔ تمام دنیا میں ہی غریب اور حتیٰ کہ امیر ممالک میں بھی
غربت موجود ہوتی ہے جیسا کہ امریکہ میں بھی چودہ فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں
اور تمام دنیا میں اس وقت ایک بلین بچے غربت میں ذندگی بسر کر رہے
ہیں۔پاکستان جو کہ ایک کم آمدنی والا یعنی ایک غریب ملک ہے اور اس کی آبادی
کابھی نصف حصہ غربت سے متاثر ہے۔غربت کی جو بڑی وجوہات دیکھنے میں آتی ہیں
ان میں بے روزگاری،مہنگائی،کم تنحواہیں،آبادی،تعلیم کی کمی، کرپشن، حکومت
کی ناکام ترین پالیسیاں ،اور قدرتی آفات وغیرہ شامل ہیں۔بے روز گاری کی بات
کی جائے تو اس وقت ملک میں بے روزگاری بہت بڑھ چکی ہے ہزاروں اچھے خاصے
تعلیم یافتہ اور قابل لوگ اس کی وجہ سے بیکار پڑے ہیں۔ان کی صلاحتیں زنگ
آلود ہوتی جارہی ہیں اور اس کے علاوہ جو کم پڑھے لکھے ہیں ان کی تنخواہیں
بھی بہت کم ہے ۔تنخواہیں کم ہونا کوئی مسئلہ نہ رہے اگر مہنگائی عروج پر نہ
ہو صرف اس پر ہی کنٹرول پا لیا جائے تو کم آمدنی میں بھی بہتر گزارا ہو
سکتا ہے۔یہ صرف اور صرف حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک سے غربت کا
خاتمہ کرے۔ بے روزگاروں کو ان کی صلاحیت کے مطابق روزگار کے مواقع فراہم
کرے۔ہر سال جس تعداد سے بچے تعلیم یافتہ ہوکر کالج یا یونیورسٹیوں سے نکلتے
ہیں اس حساب سے آگے نوکریاں فراہم نہیں کی جاتیں۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ
نوکریاں یا روزگار کے مواقع اس سے بھی ذیادہ تعداد میں ہوں اور بغیر کسی
عارضے کے بے روزگار رہنے والے کو جرمانہ کیا جائے۔ غربت کی وجہ سے لوگ اپنے
بچوں کو بہتر تعلیم دلوانے سے محروم رہتے ہیں اور یوں تعلیم کی کمی کی وجہ
سے ایک تو اچھی نوکری نہیں کر پاتے اور اگر اپنا دھندہ ہی کریں تو وہ کمائی
کے جدید زریعوں سے زیادہ آگاہ نہیں ہو تے اور کاروبار بڑھانے کے لئے نئی
ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتے ہیں اور یوں ان کا کاروبار صرف
چند علاقوں تک محدود رہ جاتا ہے۔دولت کی ناہموار تقسیم بھی غربت کو آکسیجن
فراہم کرتی ہے۔کیونکہ دولت صرف چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ہر شخص
جائزو ناجائز طریقے سے دولت کمانے میں لگا ہو ا ہے اور اسی آڑ میں وہ غریب
کا حق بھی ہڑپ کر جاتا ہے۔
ہمارے ہاں مالی و اخلاقی کرپشن بھی اس کی بڑی وجہ بن رہی ہے ۔ملازمین
تنخواؤں پر اکتفا کرنے کی بجائے رشوت خوری یا اوپر کی کمائی پر ذیادہ سوچتے
ہیں۔اور جو افسران رشوت نہیں بھی لیتے لیکن وہ صرف دفتر اپنا ٹائم پاس کرتے
ہیں بجائے اس کے کہ وہ ادارے کی مزید ترقی کے لئے کوئی موثر پالیسیاں تشکیل
دیں۔کہ جن پر عمل کر کے اسے آنے والی نسلوں کے لئے فائدہ مند بنایا جائے ۔یہی
وجہ ہے کہ آج بجلی ،ریلوے کے محکمے کاحال ایسے ہی افسران کی بد دیانتی اور
نااہلی کا نتیجہ ہے ۔ورنہ اگر آج صرف بجلی کا ہی مسئلہ حل ہو تا تو یقینا
آدھی سے ذیادہ غربت کا باآسانی خاتمہ ہو جانا تھا۔ٖاگر حکومت اپنے اداروں
سے کرپشن کا خاتمہ کرے اور یہاں ایک اعتماد کی فضاء پیدا کی جائے تو یقینا
دوسرے ممالک کے لوگ بھی یہاں سرمایہ کاری کریں گے ۔اور یہاں ذیادہ سے زیادہ
صنعتیں لگائی جائیں تو جتنی ذیادہ صنعتیں لگیں گی اتنا ہی روزگار کے مواقع
پیدا ہوں گے اور جب لوگوں کو روزگار ملے گا تو رفتہ رفتہ غربت ناپید ہوتی
جائیگی۔ کیونکہ غریب لوگ سُست یا بے وقوف نہیں ہوتے یقینا وہ ایک امیر کی
نسبت ذیادہ محنت کرتے ہیں لیکن ان کی ایسی حالت دیر پا اس لئے رہتی ہے کہ
انہیں معاشرے اور حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں مل پاتا اگر ایسا ہو
جائے تو وہ بھی اپنی مالی حالت ضرور بہتر ہو جائے گی۔ہمارے معاشرے کا ایک
المیہ یہ بھی ہے کہ غریبوں کو کسی بھی معاملے میں اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ
انہیں حقارت کی نظر سے دیکھاجاتا ہے۔ لوگ پروفیشنل ہوتے جا رہے ہیں اور یوں
غریب اور امیر میں فاصلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔یہاں امیر انسان جتنا غلط
یا غیر قانونی کام کرتا ہے اسے اتنا ہی اہم اور معزز جانا جاتا ہے ۔حضرت
شیخ سعدی ؒفرماتے ہیں کہ ـ’ رزق کی کمی اور ذیادتی دونوں ہی برائی کی طرف
لے جاتے ہیں‘۔حقیت یہ ہے کہ ایک دوسرے سے پیار محبت کرنے والے اور ایک
دوسرے کا احساس کرنے والے لوگ ذیادہ تر غریب ہی ہوتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے
کہ غربت کا خاتمہ ایک ہی رات میں ممکن نہیں لیکن اگر ابھی سے ہی حکمت عملی
تیا ر کر کے اس پر قدم اٹھایا جائے تو امید ہے کہ ہم خو د کو بھی اور آنے
والی نسلوں کو بھی اس لعنت سے دور رکھ سکتے ہیں۔ آخر میں صرف اتنا ہی کہ۔
ؔ غریبِ شہر ترستا ہے اک نوالے کو۔
امیرِ شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔ |