میڈیکل کالجز اور ٹیچنگ ہاسپٹلز

حضر ت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنے تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں آدمی علم کے اعلیٰ درجے پر اس وقت ہوگا جب اپنے سے اوپر والے سے حسد نہ کرے اوراپنے سے نیچے والے کو حقیر نہ سمجھے اور علم کے بدلہ میں کوئی قیمت نہ چاہے۔

حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں خود علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ اور علم کے لیے وقار اور سکون و اطمینان سیکھواور جس سے علم سیکھو اس کے سامنے بھی تواضع اختیار کرو اور جسے علم سکھاؤ اس کے سامنے بھی تواضع اختیار کرو اور متکبر عالم نہ بنو اس طرح تمہارا جہل تمہارے علم کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا بلکہ ختم ہو جائے گا ۔

حضرت سعید بن مسیب ؒ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ حضرت عمر بن خطاب ؓ اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کا آپس میں کسی مسئلہ میں اتنا جھگڑا ہو جاتا تھا کہ دیکھنے والا یو سمجھتا تھا کہ اب شاید یہ دونوں کبھی آپس میں اکٹھے نہیں ہونگے لیکن وہ دونوں جب اس مجلس سے اٹھتے تو ایسے لگتا کہ کوئی بات ہوئی ہی نہیں تھی بالکل ٹھیک ٹھاک ہوتے ۔

قارئین جیسا کہ گزشتہ کالم میں ہم نے انتہائی اہم گزارشات آزادکشمیرمیں طبی تعلیم ،میڈیکل کالجز اور مختلف ٹیچنگ ہاسپٹلز کے حوالے سے آپ کی خدمت میں پیش کی تھیں اور آپ سے وعدہ کیا تھا کہ آنے والے چند کالمز میں چند انتہائی خوفناک قسم کے حقائق کی روشنی میں آپ سے گفتگو کریں گے آج اسی سلسلہ کی پہلی کڑی اور قسط کے طو رپر یہ کالم ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں ہمارے علم میں آج سے چند ماہ قبل جب یہ بات آئی کہ اچانک محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو بغیر کسی وجہ کے کوئی بھی شو کاز نوٹس ایشو کیے بغیر اس انداز میں برطرف کر دیا گیا کہ کسی چپڑاسی کو بھی کوئی فارغ نہیں کرتا ہمارے علم میں یہ بات بھی آئی کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز کو میڈیکل فیکلٹی اور تدریسی ہسپتالوں کی صورتحال بہتر کرنے کے متعدد نوٹسز جاری کیے اور جب ان کی سفارشات پر کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو میرپور اور مظفرآباد کے میڈیکل کالجز میں داخلوں پر پابندی عائد کر دی جب پروفیسر میاں عبدالرشید میاں کو اس انداز میں برطرف کیا گیا تو ہم تک یہ با ت بھی پہنچی کہ پی ایم ڈی سی نے ایک کالج کے پرنسپل کو اس انداز میں برطرف کرنے پر بھی شدید رد عمل کا اظہار کیا اور اسے غیر قانونی عمل قرار دیا ۔ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ اگر پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کی برطرفی کے معاملے کو درست انداز میں نہ لیا گیا تو پی ایم ڈی سی نے جو کارروائی کرنی سو کرنی ہے لیکن پورے پاکستان کے ماہر ترین پروفیسر لیول کے ڈاکٹرز آزادکشمیر میں آ کر اس ہتک آمیز ماحول میں کام کرنے کے لیے کبھی بھی تیار نہیں ہونگے اور میڈیکل کالجز میں کام کرنے والی موجودہ فیکلٹی بھی داغ مفارقت دے جائے گی ۔اس پر ہم نے ایک جنون کے ساتھ کام شروع کیا اور پاکستان کے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے معروف نام ڈاکٹر معید پیر زادہ ،پی ایف یو جے کے موجودہ صدر افضل بٹ ،آزادکشمیر نیوز پیپر ز سوسائٹی کے موجودہ صدر عامر محبوب ،ایڈیٹرز ایسوسی ایشن کے سینئر رہنما شہزاد راٹھور سمیت متعدد دوستوں سے رابطہ قائم کرتے ہوئے انہیں اس حساس ترین معاملہ کے متعلق بریفنگ دی اور حالات بہتر بنانے کے لیے ان سے مدد کی اپیل کی اس پر ان تمام سینئر دوستوں نے مہربانی اور شفقت کرتے ہوئے رابطے کرنا شروع کیے اور فرنٹ ڈور اور بیک ڈور چینلز کے ذریعے ہم سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری ،محترمہ فریال تالپور ،ڈاکٹر عاصم کمال ،موجودہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ،موجودہ وزیر امور کشمیر برجیس طاہر ،موجودہ سیکرٹری کشمیر افیئر ز و گلگت بلتستان شاہد اﷲ بیگ سمیت ہر اس جگہ تک پہنچے جہاں تک پہنچنے کا کوئی بھی دیوانہ سوچ سکتا ہے ۔قصہ مختصر پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید عزت کے ساتھ بحیثیت پرنسپل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور بحال ہو گئے اور انہوں نے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا یہاں آکر یہ امید پیدا ہوئی کہ اب صورتحال بدل جائے گی اور وہ تمام غلطیاں سدھار لی جائیں گی جن کی وجہ سے پی ایم ڈی سی نے ان میڈیکل کالجز کو داخلوں کے لیے غیر موزوں قرار دیا تھا ۔اس حوالہ سے ہم نے مسرت بھرے اس قافلے میں بھی شرکت کی جو پرنسپل میڈیکل کالج میرپور پروفیسر میاں عبدالرشید کے استقبال کیلئے اکٹھا ہوا ااور ہم نے سٹیشن ڈائریکٹر ایف ایم 93ریڈیو آزاد کشمیر ، ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان چوہدری محمد شکیل کی موجودگی میں میڈیکل کالج کے دروازے پر کھڑے ہو کر رات کے وقت سینکڑوں ڈاکٹرز، لیڈی ڈاکٹرزاور میڈیکل سٹوڈنٹس کی موجودگی میں پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کا انٹرویو کیا اور ان سے ’’کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی ‘‘ کیلئے کیے جانے والے اس انٹرویو میں ان سے انتہائی تلخ قسم کے سوالات کیے جن کا فوکس اس بات پر تھا کہ بحالی کے بعد اب وہ پرنسپل کی حیثیت سے میرپور میڈیکل کالج کو درپیش چیلنجز سے کیسے نمٹیں گے اور پی ایم ڈی سی کی سفارشات کی روشنی میں میڈیکل کالج کی فیکلٹی کو کس طرح پورا کریں گے اور کس طریقے سے ٹیچنگ ہسپتال کو اس معیار تک اپ گریڈ کروانے کیلئے ٹیم ورک کا مظاہرہ کریں گے کہ جس سے یہ ہسپتال میڈیکل سٹوڈنٹس کو طبی تعلیم دینے کیلئے ایک بہتر ادارہ بن سکے اور اس کے ساتھ ساتھ علاقے کے غریب عوام کو صحت کی جدید ترین سہولیات مفت یا ارزاں نرخوں پر مل سکیں اور دکھی انسانیت کے درد کا کچھ تو مداوا ہو ۔ ڈاکٹر میاں عبدالرشید نے اس انٹرویو میں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ میڈیکل کالج کے داخلوں پر لگائی جانے والی پابندی وہ بہت جلد ہٹوا دیں گے اور دیگر تمام لوازمات بھی پوری کرنے کیلئے وہ اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ۔ قصہ مختصر کچھ ایسا ہی ہوا اور پی ایم ڈی سی نے آج سے کچھ عرصہ قبل میرپور اور مظفرآباد کے میڈیکل کالجز کا دورہ کیا اور داخلوں پر عائد پابندی ہٹا دی اور وفاقی وزیر احسن اقبال کے ٹیبل پر رکی ہوئی پی سی ون برائے میڈیکل کالجز کی فائل بھی حرکت میں آگئی اورمیرپور میڈیکل کالج کیلئے پی سی ون میں دو ارب ستر کروڑ روپے سے زائد کی رقم کی منظوری دے دی گئی یہ سب تو ہو گیا لیکن چند انتہائی سنگین قسم کے سوالات آج بھی سوالیہ نشان بنے ان میڈیکل کالجز کے مستقبل کے ارد گرد رقص میں مصروف ہیں۔ میرپور میڈیکل کالج کیساتھ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور کو تدریسی ہسپتال کے طورپر منسلک کیا گیا لیکن آج تقریباً چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور ابھی تک میڈیکل کالج میں کام کرنے والی میڈیکل فیکلٹی کے پروفیسرز ، اسسٹنٹ پروفیسرز ، ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور دیگر ماہر عملے نے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور میں ذمہ داریاں یا تو سنبھالی نہیں ہیں اور یا پھر انہیں یہ ذمہ داریاں سونپی نہیں جا رہیں اس حوالہ سے مختلف نوعیت کے موقف ہمارے سامنے آئے ہیں ایک مکتبہ فکر کا یہ کہنا ہے کہ میڈیکل کالج کے پروفیسرز سمیت دیگر لوگوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال میرپور میں کام کرنے کیلئے جو سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر پورے پاکستان کے پبلک سیکٹر کے میڈیکل کالجز اور تدریسی ہسپتالوں میں اپنا جاتا ہے میڈیکل کالج کے لوگ اس پر کام کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں اور دوسرے مکتبہ فکر کا یہ کہنا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ میڈیکل کالج کے پروفیسرز اور اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ دماغوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال کی انتظامی مشینری کے ہتک آمیز رویے کے حوالے کر دیا جائے ایک مکتبہ فکر کہتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ میڈیکل کالج کے پروفیسرز اور دیگر عملے کو ڈی ایچ کیو ہسپتال میں بغیر دفاتر اور دیگر سہولیات فراہم کیے بغیر کام پر لگا دیا جائے دوسرا مکتبہ فکر اس کا جواب دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ موجودہ صورتحال اس نوعیت کی ہے کہ چار لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لینے والا ایک معزز پروفیسر اپنی وہ ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہا جو اس کے فرائض میں شامل ہے ان کی نسبت ایف سی پی ایس اور دیگر اعلیٰ ڈگریوں کے حامل مقامی کشمیری ڈاکٹرز جو محکمہ صحت کے ملازم ہیں وہ ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیکر ہفتے کے ساتھ دن ہسپتال میں او پی ڈی میں بیٹھ کر مریض بھی دیکھتے ہیں ، آپریشن بھی کرتے ہیں ، وارڈز میں راؤنڈ بھی کرتے ہیں ، میڈیکل سٹوڈنٹس کو پڑھاتے بھی ہیں اور انتہائی مشکل قسم کی آن کال ڈیوٹی بھی نبھا رہے ہیں اس تمام اختلاف کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ میڈیکل کالج کی فیکلٹی کے لوگ اس وقت ’’ایک ڈسپنسری مارکہ ‘‘ ٹیچنگ ہسپتال جسے نیو میرپور سٹی ہسپتال کہا جاتا ہے وہاں بیٹھ کر صبح نو سے دو بجے تک او پی ڈی چلاتے ہیں اور اس کے بعد ہسپتال کو تالے لگا کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں کیونکہ ان ڈور سیٹ اپ چلانے کیلئے پیرا میڈیکل سٹاف بھی پورا نہیں ہے اور دیگر سہولیات کا بھی فقدان ہے اور سب کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان دو طبقات کو ہو رہا ہے ایک تو وہ لاکھوں غریب لوگ جن کی خاطر پورا نظام صحت کھڑ ا کیا گیا ہے جس کا بجٹ تین ارب روپے سے زائد ہے ان کو علاج کی اعلیٰ ترین سہولتیں نہیں مل رہی ہیں اور دوسری جانب وہ سینکڑوں میڈیکل طلباء و طالبات کہ جن کیلئے اس ہسپتال کو تدریسی ہسپتال قرار دیا گیا تھا انہیں یہ پروفیسرز وہ تربیت نہیں دے پا رہے جو ان کا حق ہے ۔
بقول چچا غالب ہم کہتے چلیں ۔
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلا ہوتا ہے ‘‘
پرہوں میں شکوے سے یوں ،راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑ یئے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
گو سمجھتا نہیں پر حسن تلافی دیکھو
شکوہ جو رسے سرگرم ِ جفا ہوتا ہے
عشق کی راہ میں ہے خرچِ مکو کب کی وہ چال
سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے
کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک ِ بیداد کہ ہم
آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے
خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں اور بُرا ہوتا ہے
نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب
لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے

خامہ میرا کہ وہ ہے بار بد بزمِ سخن
شاہ کی مد ح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے
اے شہنشاہ ِ کو اکب سپہ و مہر علم
تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے
سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے
تو وہ لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے
ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال
آستانہ پہ ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے
میں جو گستاخ ہوں آئین غزل خوانی میں
یہ بھی تیراہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے
رکھو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے

قارئین! یہاں پر آج ایک مرتبہ پھر ہم اس کالم کو نامکمل انداز میں چھوڑے جا رہے ہیں یہاں چند سوالات آپ کی دلچسپی اور حالات کی اصلاح کیلئے ہم آپ کے سامنے پیش کرتے چلیں اگر میڈیکل کالج کی فیکلٹی مروجہ ایس او پی کے مطابق کام کرنے کیلئے تیار نہیں ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے ؟اگر ڈی ایچ کیو ہسپتال کی انتظامیہ میڈیکل کالج کے پروفیسرز اور دیگر عملے کو کام کرنے کیلئے جگہ ، آپریشن تھیڑزاور دیگر سہولیات جان بوجھ کر فراہم نہیں کر رہی تو اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ وہ پروفیسرز کہ جو ماہانہ چار لاکھ روپے تنخواہ وصول کرتے ہیں ان کی آج تک کی پرفارمنس کیا ہے اور غریب لوگوں کے علاج اور میڈیکل کالج کے طلباء و طالبات کو کلینکل تربیت فراہم کرنے کیلئے ان کی کارکردگی کیسی رہی ہے ؟ اگر یہ تمام صورتحال دو بڑوں کی انا کی جنگ یا خیالات کے تصادم کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے تو اس ڈیڈ لاک کو کون توڑے گا ۔ ہم اگلے کالم میں چند مزید حقائق اس حوالے سے آپ کی خدمت میں پیش کریں گے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک صاحب دفتر میں بیٹھ کر ایک سادہ رقعے کو چوم رہے تھے ۔ کسی نے سوال کیا
’’جناب یہ خط کس کا ہے ‘‘
صاحب نے جواب دیا ۔
’’میری بیوی کا ہے ‘‘
پوچھنے والے نے حیران ہو کر پوچھا ۔
’’لیکن یہ تو سادہ ہے اس پر کچھ نہیں لکھا ہوا‘‘
صاحب نے نم آنکھوں کے ساتھ جواب دیا۔
’’ہماری آپس میں محبت تو بہت ہے لیکن آج کل بول چال بند ہے ‘‘

قارئین ! ہمیں یوں لگتا ہے کہ میڈیکل کالج اور ٹیچنگ ہسپتال کے بڑے صاحبان بھی آپس میں محبت تو بہت کرتے ہیں لیکن آج کل شائد ان کی بول چال بند ہے ۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور نئے تعینات ہونے والے چیف سیکرٹری آزاد کشمیر عابد علی سے ہم گزارش کرتے ہیں کہ ان دونوں مکاتب فکر کی گفتگو میں آنے والے ڈیڈ لاک کو ختم کروائیں تاکہ غریب عوام کو صحت کی بہتر سہولیات بھی مل سکیں اور سینکڑوں میڈیکل سٹوڈنٹس کا مستقبل بھی محفوظ ہو سکے ۔ رہے نام اﷲ کا۔۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374061 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More