پاکستان کو تعلیمی انقلاب کی ضرورت ہے

پاکستان میں تعلیم کی صورتحال بڑی خراب ہوتی جارہی ہے اسکی کئی وجوہات ہیں جن میں چیدہ چیدہ کا تذکرہ ازحد لازم ہے کہیں اداروں کی چھت نہیں ،تو کہیں چاردیواری سے محروم،کہیں نظام و نصاب تعلیم پر عالم کفر کا شب خون ، کہیں تعلیمی ادروں میں جنسی تعلیم کی گھناؤنی سازشیں،مخلوط نظام تعلیم کی لعنت پاکستان جیسے اسلام پسند معاشرے کی کمر پر چھورا گھونپ رہی ہیں ،کہیں ادارے بنیادی تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ تعلیم کے لئے درس گاہ، متعلم، معلم کا ہونا لازم وملزوم ہے اسوقت ملک بھر میں ان تینوں بنیادی عناصر کی شدید کمی محسوس کی جارہی ہے ایک رپورٹ کے مطابق اسوقت صوبہ پنجاب بھر کے انٹر میڈیٹ،گریجوایٹ،پوسٹ گریجویٹ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرام کی کمی کئی سالوں سے مسلسل چلی آرہی ہے تفصیلات کے مطابق صوبہ بھر کے سرکاری کالجز میں اساتذہ کی کمی کو پورا نہ کیا جاسکا سرکاری کالجز میں عرصہ دراز سے ناقص اور غیر تسلی بخش نتائج کی بڑی وجہ کالجزمیں اساتذہ کی ناکافی تعداد ہے ،ہر سال انٹر میڈیٹ اور گریجوایشن کے سالانہ امتحانات میں 30 فیصد سے کم نتائج دینے والے کالجز کے خلاف محکمہ کی جانب سے مخصوص وقت کے لئے کاروائی کی جاتی ہے جبکہ کالجز کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کئے جاتے۔اطلاعات کے مطابق پنجاب کے سرکاری کالجز میں لیکچرارز،اسسٹنٹ پروفیسرز،ایسو سی ایٹ پروفیسرز اور پروفیسرز کی 4906 آسامیاں خالی ہیں ،ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع کے مطابق اسوقت کالجز میں گریڈ 17 میں لیکچرارز مردانہ کی 917،لیکچرارز زنانہ کی 1428، گریڈ 18 میں اسسٹنٹ پروفیسرز مردانہ کی 697، اسسٹنٹ پروفیسرز کی زنانہ کی 821،گریڈ 19 میں ایسو سی ایٹ پروفیسرز مردانہ کی 355،گریڈ 20 میں پروفیسرز مردانہ کی 34 اور زنانہ کی 37 آسامیاں گذشتہ کئی سالوں سے خالی ہیں اس طرح کیڈر میں گریڈ 21 کی 2آسامیاں بھی گذشتہ 5سالوں سے خالی ہیں،نیز گریڈ 21کی مزید 10 نئی آسامیوں کی سمری بھی منظوری کیلے وزیراعلی پنجاب کو بھجوائی جا چکی ہے۔پنجاب بھر کے مرد و خواتین میں مختلف گریڈز کی منظور شدہ آسامیوں کی کل تعداد 19092 ہے جن جن میں 14187 آسامیوں پر ماہرین تعلیم خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ تاحال 4906 آسامیاں خالی ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ خالی ان آسامیوں کا معاملہ فنانس ڈیپارٹمنٹ میں چل رہا ہے معاملات طے ہونے کے بعد خالی آسامیوں پر تعیناتی کی سمری وزیراعلی پنجاب کی منظوری کے بعد پبلک سروس کمیشن کو بجھوائی جائے گی مندرجہ بالا رپورٹ کے بعد نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں سرکاری سکولز کے علاوہ کالجز میں اتنی تعداد میں آسامیاں خالی ہیں تو دوسرے صوبوں کی صورتحال اس سے بھی زیادہ کمپرسی پر مبنی ہوگی جب اساتذہ ہی نہیں ہونگے تو تعلیمی معیار اور مطلوبہ معیار کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے ؟ جبکہ دوسری طرف راقم سمیت لاکھوں لوگ ڈگریاں ہاتھ میں لئے تعلیمی میدان میں اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے پرعزم دکھائی دیتے ہیں مگر آسامیوں کو پر نہیں کیا جارہا آخر کیوں؟ ہمارے نظام تعلیم کا دوسرا بڑا مسلہ اغیار،اسلام دشمنوں سے تعلیمی امداد لینا ہے جسکی وجہ سے نسل نو مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے یہ عالمی طاقتیں فنڈز فراہم کر کے اپنی مرضی کا نصاب تعلیم ترتیب دلوا رہی ہیں اسلامی فکر کو نصاب سے ختم کرنے کا یہ عمل درجہ بدرجہ جاری و ساری ہے اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو ایک دو دہائی کے بعد پاکستان کا نصاب تعلیم اسلامی فکر سے تہی دامن ہو چکا ہوگااسلامی فکری حلقوں میں اس غٖلط پالیسی پر بہت تشویش پائی جارہی ہے یہ غلط ہی نہیں بلکہ خطرناک ترین فیصلہ ہے کیونکہ اس سے نسل نو اسلام سے دور ہوتی چلی جائے گی ان کا مستقبل قریب سیکولرازم کے سائے میں ہوگا کفر کی یہی سازش ہے کہ آج کا مسلمان نوجوان اسلام کی طرف راغب نہ ہونے پائے اسے اسلام مخالف یا مادیت پرست بنا دیا جائے اس قضیے کو حل کرنے کی اشد ،فوری ضرورت ہے اس سازش کے خاتمے کیلئے سب سے پہلے حکومتوں کو اغیار ،اسلام دشمنوں سے تعلیم کیلئے فنڈ لینے سے گریز کرنا ہوگا تعلیم کے فروغ کی خاطرخیرات اور بھیک مانگنے کے عمل کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑھ رہا ہے کہ سیرت البنی ﷺ،خلفائے راشدینؓ،صحابہ کرامؓ،اہلبیت عظام ؓ ،اولیا اﷲؒ کے تذکرے اور اسلام کا پیش کردہ نظریہ سائنس کتب سے غائب ہیں طلباء برادری میں ان اقدام کے بعد بے چینی دیکھنے میں نظر آرہی ہے دوسرا اقدام یہ ہونا چاہیے کہ صوبوں سے نصاب سازی کا اختیار واپس لے لیاجائے نصاب تعلیم تیار کرنا وفاق کی ذمہ داری ہو،یہ نصاب بیک وقت سارے ملک میں نافذ ہو،نصاب سازی کرتے وقت اپنی زبان اردو کو اہمیت دے کر نصاب قومی زبان میں تشکیل دیا جائے جو اسلامی اقدارو روایات کا امین ہواس طرح طبقاتی نظام کے خاتمے کی سبیل نکلے گی،دوسرے ممالک کی زبانوں کو سیکھانے کیلئے حکومتی یا پرائیویٹ سطح پر کوچنگ سنٹر کھلے جا سکتے ہیں درس گاہوں کو تمام ضروری ،بنیادی سہولیات بہم پہنچانے کیلئے حکمران طبقے کو اپنے شاہی اخراجات میں کمی کرنا ہوگی وزیروں مشیروں کی فوج میں کمی انکے اخراجات کو کنٹرول کرکے تعلیم پر خرچ کیا جائے برادر اسلامی ممالک یاملک میں موجود مخیر حضرات سے بھی فروغ تعلیم کیلئے معاونت لی جا سکتی ہے راقم کا یقین ہے کہ جس دن ہمارے حکمران تعلیم کو صحیح معنوں میں ترقی دینے پر رضا مند ہوگے تو تعلیمی میدان میں ہمارا ملک دنیا کی ترقی یافتہ قوموں سے آگئے نکل جائے گا ،اسلام کا امین تعلیمی انقلاب پاکستان کی ضرورت اولیں ہے جسے نظر انداز کرکے قوم کا مستقبل تاریک کیا جارہا ہے روشن مستقبل کیلئے خود،اہم،منظم،مربوط،فکری بنیادوں پر فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269923 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.