ہماری قو م تعلیمی سطح پر پسماندہ ہے،قوم کا بہت بڑا طبقہ
اعلیٰ تعلیم سے دو رہے،قوم تعلیم کا صرف اور صرف روزگار کا ذریعہ سمجھ رہی
ہے،اس کی کیا وجوہات ہیں ہم جانتے ہوئے بھی انجان ہیں۔اگر ہمیں ترقی کے دور
میں دنیا کا ساتھ دینا ہے تو بڑے پیما نے پر تعلیمی نظام قائم کرنا ہوگامگر
اس سلسلے میں ہمارے مزاج کئی تنگی آڑے آتی ہے کیونکہ ہمارا کوئی بھائی
اسکول یا کالج شروع کرتا ہے تو اس کی تائید کرنے کے بجائے ہم اسے بدنام
کرتے ہیں،ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے شروعات میں ہمت توڑ دیتے ہیں۔اس
سلسلے میں ہمیں سر سیداحمد خان کی سوچ کو اپنانا ہوگا،کہ اگر کسی میں ایک
بھی اچھائی ہوتو اس کی قد ر کرنی چاہیے۔سر سید احمد خان کی یوم پیدائش اسی
مہینے میں ہوئی تھی اور ملک کے مختلف مقامات پر اور انہیں اور ان کے
کارناموں کو یاد کیا گیا۔جس وقت سرسید احمد خان نے اعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی
کی بنیادرکھی اس وقت یہ یونیورسٹی ایک اسکول کی شکل میں قائم کی گئی تھی
اور یہ اسکول اس قدر ترقی کرتی گئی کہ آگے چل کر دنیا کی عظیم یونیورسٹیوں
کی فہرست میں اس کا شمار ہونے لگا۔سر سیداحمد خان کو شروعات کو کئی طرح کی
بدنامیاں جھیلنی پڑی۔حالانکہ سر سید احمد خان نے اس قوم کو اس کے حقیقی فرض
کی جانب لے جانے کیلئے یہ اقدامات اٹھائے تھے۔ مسلمانوں میں بیداری علم کی
تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔سر سید نے مسلمانوں کی اصلاح و
ترقی کا بیڑہ ا سوقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریزی
سامراج مسلمانوں کے خون کا پیاسا تھا۔سرسید دیکھ رہے تھے کہ اگر اصلاح
واحوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمانوں کے ہاتھ سے علم کی میراث
نکل جائیگی اور وہ گھاس کھودنے کے سواء کچھ نہ رہیں گے۔انہوں نے یہ بات بھی
محسوس کرلی تھی اونچے و درمیانی طبقے کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے
کارناموں پر شیخی بگھار تے رہینگے اور انگریزی زبان و مغربی علوم سے نفرت
کرتے رہینگے اس وقت بدستور ذلیل وخوار ہوتے رہینگے۔سر سید کو یقین تھا کہ
مسلمانوں کی اس ذہنی و سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی
علوم کی تعلیم ہے،اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے وہ تمام عمر جدوجہد کرتے
رہے۔جب انہوں نے بیرونی ممالک کا دورہ کیا تو اکثر یہ سوچتے رہے کہ غیروں
کے تعلیمی ادارے ایسے جدید کیوں ہیں ان کے عمدہ مکانات اور ان کی تہذیب
اتنی بہتر کیوں ہے۔جب بھی وہ یہ منظر دیکھا کرتے تو ان کے دل میں خیال آتا
کہ ہماری قوم میں بھی ایسا علم آجائے اور ہماری قوم کے تعلیمی ادارے اسی
معیار کے ہوں۔آج حالات ایسے نہیں ہیں،پھر سے قوم کو ایک نہیں کئی سرسید
احمد خان کی ضرورت ہے۔آج ہمارے پاس تعلیمی ادارے ہیں لیکن ان کا نظامِ
تعلیم وہی پرانا ہے،ہماری عمارتیں بنانے کیلئے ہم طلباء سے ہزاروں روپیوں
کا چندہ لیتے ہیں لیکن کئی کئی سال گذرنے کے بعد بھی یہ عمارتیں مکمل نہیں
ہوتیں،ایم ایل اے فنڈ،ایم پی فنڈ،سینٹرل فنڈ،اسٹیٹ فنڈ یعنی جتنے بھی فنڈ
کے ذرائع ہیں ان سے فنڈ لئے جاتے ہیں لیکن ان اداروں میں ظاہری اور باطنی
ترقی نہ کے برابر ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ تعلیمی ادارے شروع
کررہے ہیں ان کے پاس اخلاص وتقویٰ کی کمی ہے ۔ہم اپنے تعلیمی اداروں کے
ذریعے بڑے لوگ بننا چاہتے ہیں لیکن ہمارا بڑکپن اپنے گھروں کی تعمیر پر
منحصر ہے نہ کے تعلیمی اداروں کی ترقی سے وابستہ ہے۔حالانکہ ہماری اپنی
ترقی بھی ضروری ہے لیکن یہ ترقی اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب ہم اپنے آپ کو
قوم کیلئے وقف کردیں۔ہمارے پاس باتوں کی کمی نہیں ہے ،ہم باتیں ہی باتیں
کررہے ہیں جب کہ دوسری قومیں کام کررہی ہے ۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم
کے نوجوان اور مخیر حضرات اپنے آپ کو سر سید احمد خان کی طرح بنائیں تاکہ
قوم اس سے استفادہ کرسکے۔سرسید احمد خان کی تحریک ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔بہت
بڑا فرق ہے کہنے او رکرنے میں اور جب لوگ کچھ بھلا کرنے کیلئے نکلتے ہیں تو
مصیبتیں ضرور آتی ہے لیکن یہ مصیبتیں اس وقت ٹھنڈے بستے میں جا گرتی ہیں جب
ہم ہمارے خون کو گرم کرلیں اور قوم کی ترقی کیلئے اپنے آپ کو وقف و قرباں
کرنے کا عزم کرلیں۔ |