صفائی نصف ایمان ہے۔ اس سے مراد
ظاہری لباس یا چہرہ کی صفائی نہیں ہے بلکہ اس بات کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ
ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کو بھی صاف رکھو جو بظاہر نظر نہیں آتیں۔
مثلاً اپنے خیالات کو ہر طرح کی آلائشوں سے پاک رکھا جائے۔ کیونکہ اگر ہمارے دل
اور ہمارے خیالات پاکیزہ نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ برائی نے ہماری مکمل
شخصیت کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اور یہ بہت خطرناک صورت حال ہے کیونکہ ان
خرابیوں کا تعلق صرف انسان کی ذات تک محدود نہیں رہ جاتا، کیونکہ یہ برائیاں
یعنی بدگمانیاں، جھوٹ، دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہنا، کسی کے لئے بغض و عداوت دل
میں رکھنا رفتہ رفتہ ہمارے معاشرہ کا ایک حصہ بن جاتی ہیں اور ایسے حالات پیدا
کردیتی ہیں کہ ان کی موجودگی میں خوشگوار ماحول قائم رکھنا محال ہوجاتاہے۔
کیوں کہ زبان سے کی گئی کسی بری بات کی تردید کی جاسکتی ہے مگر دلوں میں جو
بدگمانیاں بیٹھ جاتی ہیں ان کو دور کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کیوں کہ بعض اوقات کسی
کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا کہ کوئی ہم سے بدگمان ہے۔ اور اس کی کوئی عام یا
معمولی بات کے کیا معنی لئے جارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے درحقیقت کچھ بھی اختلاف نہ
ہو مگر دلوںمیں موجود بدگمانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیاں نہ صرف معاشرہ
کو گرد آلود کرتی ہیں بلکہ کبھی کبھی کئی زندگیوں کو بھی تباہ وبرباد کردیتی ہے۔
بدگمانی ایک چھوٹے جھوٹ سے شروع ہوتی ہے اور پھیلتے پھیلتے ایک تناور درخت کی
مانند اپنی جڑوں کو اتنا پھیلا لیتی ہے کہ ایک کینسر کی طرح لاعلاج مرض کی صورت
اختیار کرلیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا اندازہ بھی نہیں
لگایا جاسکتا۔ احادیث مبارک ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ! تم دوسروں کے متعلق بدگمانی
سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، تم کسی کی کمزوری کی ٹوہ میں نہ
رہا کرو اور جاسوسوں کی طرح رازدارانہ طریقے سے کسی کے عیب معلوم کرنے کی کوشش
بھی نہ کیا کرو، اور نہ ایک دوسرے پر بڑھنے کی بے جا ہوس کرو، نہ آپس میں حسد
کر، نہ بغض وکینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، بلکہ اے اللہ کے بندوں!
اللہ کے حکم کے مطابق بھائی بھائی بن کر رہو۔
اس لئے ہمیں ان برائیوں سے محفوظ رہنے کے لئے ہمیشہ حسن زن سے کام لینا چاہئیے۔
اور بلا وجہ اور بغیر کسی ثبوت کے کسی کے بارے میں کوئی بری رائے قائم نہیں
کرنا چاہئے اور ان تمام عادتوں اور عیبوں سے جن کی وجہ سے آپس میں بغض وعداوت
کی فضاء پروان چڑھے ۔ بچے رہنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
یعنی لوگوں کی طرف سے اپنے دل ہمیشہ صاف رکھیں، ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے
کی کوشش میں کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں، کسی کے اچھے حالات پر حسد
نہ کریں، اورپیارومحبت ،اخوت و یگانگت، خلوص وہمدردی جیسے مقدس جذبوں کو نفرت
کی آگ میں جلا کر خا ک نہ کریں ۔ بلکہ اللہ کے پسندیدہ بندے بنواور ایسے رہو
جیسا کہ اللہ پسند کرتا ہے۔ بدخواہ بننے کے بجائے ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور
ایک دوسرے کے مددگار بنو۔ اگر تم صحیح معنوں میں اللہ کے فرمانبردار بننا چاہتے
ہو، تو اپنے اندر محبت و خلوص پیدا کریں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ بیدار
کریں۔ اور ذاتی نفع ونقصان کی پرواہ کئے بغیر نیکیوں کے عمل کو جاری وساری
رکھیں تو وہ اخلاقی برائیاں ہرگز پیدا نہیں ہونگی جن سے بچنے کی تاکید احادیث
مبارک میں کی جاتی رہی ہیں۔ اور جونہ صرف نقصان ہی پہنچاتی ہیں بلکہ آپ کی
نیکیوں کو بھی تباہ وبرباد کردیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو ان برائیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین ثمہ آمین |