حسد کا جذبہ

ہمارے معاشرے میں ایک بات بہت تیزی سے عام ہوتی جارہی ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹہرارہا ہے مگر ان وجوہات پر غور نہیں کرتا جس کی وجہ سے حالات میں بہتری کے بجائے خرابی کے اثرات بڑھتے جارہے ہیں۔

لوگوں میں غیر محسوس طریقے سے ایک حسد اور جلن کا وہ جذبہ پیدا ہوتا جارہا ہے جس کا احساس بھی نہیں ہوتا مگر غور کریں تو یہی وہ جذبہ ہے جس نے لوگوں کی خوشیوں کو جلا کر خاکستر کردیا ہے۔ ایک ہی فیملی کے افراد ایک دوسرے سے متفر ہیں کیوں؟

اس لئے کہ ہم لوگ دوسرے شخص سے اس کی استطاعت سے زیادہ توقعات رکھتے ہیں اور جب ہم کو مایوسی ہوتی ہے تو ہمارے دل میں موجود یہی جذبہ ہمارے دل میں اس فرد کے لئے ایک فاصلہ پیدا کردیتا ہے۔ اور وقت کے ساتھہ ساتھہ یہی جذبہ نفرت اور پھر دشمنی میں بدل جاتا ہے ۔ اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا ۔ اور ہم رفتہ رفتہ ایک ایسے راستے کے مسافر بن جاتے ہیں جس کی نہ کوئی منزل ہوتی ہے نہ کوئی مقصد۔ اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہم اپنےلوگوں سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ تنہا رہ جاتے ہیں۔

اگر ہم اپنی توقعات کو محدود کرلیں اور یہ سوچ لیں کہ ہم کسی کی کتنی توقعات پر پورا اترتے ہیں۔ اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ سب کی توقعات پر پورا اترتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں تو پھر آپ اس خدا کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ اپنا فرض بخوبی ادا کررہے ہیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے فرائض کی ادائیگی ادا کرنے کی توفیق دے۔

اورجس شخص سے آپ کو شکوہ یا گلہ ہے کہ وہ آپ کےساتھہ اس خلوص و محبت کا مظاہرہ نہیں کررہا جس کی آپ توقع رکھے ہوئے ہیں ۔ تو ایک مرتبہ سکون و اطمینان سے محبت کےجذبہ کے ساتھ یہ سوچیں کہ ہوسکتا ہے کہ وہ شخص آپ کی توقعات کے مطابق عمل کرنے سے قاصر ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ سے مخلص نہیں ہے ۔ آپ یہ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنا دے کہ میں لوگوں کی توقعات پورا کرسکوں۔ اور جب کچھہ دینے کا جذبہ آپ کے دل میں بیدار ہوگا تو کسی بندہ سے لینے کی خواہش آپ کے دل میں باقی نہیں رہے گی۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خود نواز دیا ہوگا۔

کیونکہ یہ جذبہ کہ فلاں شخص پر ہمارا یہ حق ہے ہمیں ملتا چاہئے۔ اور اگر نہ ملے تو ہم ناراض ہوجائیں یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے کیونکہ اگر کسی چیز کے نہ ملنے کی محرومی کی وجہ سے آپ کسی رشتہ سے منہ موڑتے ہیں تو کبھی یہ سوچا ہے کہ نقصان پھر بھی آپ ہی کا ہوگا ۔ کیونکہ ایک تو آپ اس حق سے محروم ہوئے جو آپ کو نہیں ملا دوسری طرف اس خوبصورت رشتہ کو توڑ کر اپنی خوشیوں کو بھی محدود کرلیا ۔ کیونکہ رفتہ رفتہ آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا اور آپ ایک کے بعد دوسرے سے اسی طرح ناطہ توڑتے رہتے ہیں جس کے نتجہ میں آپ اور آپ کے بچے ان خوبصورت رشتوں سے ملنے والی محبتوں اور ان کے ساتھہ خوشیوں کو بانٹ کر اپنی زندگی کے دھنک رنگوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔

پلیز ان سب لوگوں سے میری التجا ہے کہ اپنے خوبصورت رشتوں سے دور ہوکر آپ خود اپنے بچوں کا جائز حق چھین رہے ہیں۔ ان کواپنے رشتوں کےپیارومحبت سے جدا کرکے انہیں ایک ان دیکھی آگ میں جلا رہے ہیں۔ پلیز اپنے دلوں کو وسیع کریں اور مادی چیزوں کی طلب میں اپنے جذبوں واحساسات کی قربانی نہ دیں۔ زندگی بہت خوبصورت ہے اور بہت تھوڑی ہے اسے پیار ومحبت کے ساتھ گزاریں۔ اور اپنے دل صاف کرلیں۔ اور ایک مسلمان ہونے کی حثیت سے یہ یقین رکھیں کہ جو کچھ آپ کی قسمت میں ہے وہ آپ کو ہر حال میں مل کر رہے گا کسی انسانی طاقت کی مجال نہیں کہ وہ آپ کے نصیب کا آپ سے چھین لے۔

پھر کیوں؟

Kausar Ashfaq
About the Author: Kausar Ashfaq Read More Articles by Kausar Ashfaq: 6 Articles with 15739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.