کچھ ہماری بھی سن لیں
ابوصالح
۲۶ ذی الحج ۱۴۳۵
مروجہ دینیات کانصاب اور ہماری ذمہ داریاں
اس دور ِپر فتن میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے پچوں کے مستقبل کی
بہتری کے لیے فکرمند دکھائی دیتی ہے۔بچے کی پیدائش سےہی اسے اچھے اسکول میں
داخل کروانے کی خواہش بھی پیداہوجاتی ہے۔ پری پرائمری سے لیکر اعلی تعلیم
کے حصول تک لاکھوں روپےخرچ کیے جاتے ہیں۔اپنی استطاعت کے مطابق بہترسے بہتر
تعلیمی ادارہ منتخب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔والدین کا اپنی اولاد کی تعلیم
اور عملی زندگی میں آنے والی مشکلات کے حوالےسے فکرمندہونا ایک فطری
امرہے۔یقیناً یہ والدین کی ذمہ داری بھی ہے کہ اپنی اولاد کو زندگی میں پیش
آنے والے معاملات کے لیے اچھے اندازسے تیارکریں۔اگرہم تعلیمی اور معاشی
کیفیت کے لحاظ سےمعاشرے میں موجود افراد کی درجہ بندی کریں تو مندرجہ ذیل
طبقات ہمارے سامنے آتے ہیں:
أ. مضبو ط معاشی حیثیت کے حامل اعلی تعلیم یافتہ والدین
ب. مضبوط معاشی حیثیت کے حامل کم یاغیرتعلیم یافتہ والدین
ت. مڈل کلاس اعلی تعلیم یافتہ والدین
ث. مڈل کلاس کم یاغیرتعلیم یافتہ والدین
ج. غریب اعلی تعلیم یافتہ والدین
ح. غریب کم یاغیرتعلیم یافتہ والدین
(یاد رہے جہاں جہاں تعلیم یافتہ لکھا گیاہے اس سے مراد مروجہ دنیاوی تعلیم
ہے۔)
ہر طبقہ اپنی سوچ اور فکر کے مطابق اپنی اولاد کا مستقبل اپنے زعم میں
اچھاہی بنانے کے لیے اپنے آپ کو مصروف عمل سمجھتاہے۔کچھ والدین ایسے بھی
ہیں جنکی توقع یہ ہے کہ بہترتعلیم بہتر روزگار کے مواقع فراہم کرے گی اور
ہمارابڑھاپا سکون سے گزرے گا۔پھرانسان جس ماحول میں خود پروان
چڑھاہوتاہےاور اسے اسکے اپنے زندگی کے تجربات جو سکھاتے ہیں عموماً وہ سب
اپنی اولاد میں منتقل کرنے کی کوشش کرتاہے۔اپنی سوچ ،فکراور نظریات کے
مطابق اپنی اولاد کو شعوری اور لاشعوری طورپر ڈھالنے کی جستجو اسکے معمولات
کا حصہ بن جاتی ہے۔معاشی طور پر مستحکم اور اولاد کی دنیاوی ترقی کے لیے
حُساس والدین اپنے بچوں کے لیے اسکول کے انتخاب میں بہت سےعوامل کو مدنظر
رکھتے ہیں۔ مثلاً:
1. اسکول کی لوکیشن )اسکول کس علاقے میں ہے؟اسکے قریبی عمارتیں کیسی
ہیں؟پسماندہ علاقہ تو نہیں؟)
2. اسکی پڑھائی کامعیار
3. اسکی کتابیں
4. اساتذہ کی تعلیمی کیفیت اور تجربہ
5. تعلیمی بورڈ (جس سے اسکول رجسٹرڈ ہے)
6. اسکول کا ماحول وغیرہ
اس کے علاوہ اور بھی عوامل ہو سکتے ہیں۔اب ہم اگرمختلف طبقات کی بات کریں
تو ہر ایک اپنی کیفیت کے لحاظ سے اسکول کے انتخاب کے بعد اپنے بچوں کے
تعلیمی معاملات کی دیکھ بھال کرتاہے۔مضبوط معاشی حیثیت کے حامل اعلی تعلیم
یافتہ والدین اپنے بچوں کی روز مرہ کی مصروفیات بالخصوص پڑھائی کے اوقات کے
حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔ اسکول میں ہونے والی سرگرمیوں سے بھی
آگاہی حاصل کرتے ہیں عمر کے ساتھ ہونے والی تعلیمی ترقی پر بھی نظر رکھتے
ہیں ۔اپنے بچے کے امتحانات کی معلومات اس کی تیاری کروانا اور گھر میں
ٹیوٹر رکھنا یہ معمول کی بات ہے۔ اگروالدہ پڑھی لکھی ہو تو وہ باپ کے
مقابلے میں بچے کے روز مرہ کے معاملات میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کرتی اور
وقت دیتی ہے۔والدین کو ایک فکر سی رہتی ہے کہ ہمارا نونہال دنیاوی تعلیم کے
میدان میں کسی سے پیچھے نہ رہ جائے۔اسی طر ح کم تعلیم یافتہ والدین عموماً
ٹیوٹر لگادینے کو کافی سمجھتے ہیں او ر انہیں روز مرہ کے معمولات کے مقابلے
میں ششماہی اور سالانہ امتحانات کے نتائج میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ بعض کم
تعلیم یافتہ والدین بھی زیادہ توجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔اکثر والدین اپنے
بچوں کی تعلیم کے لیے پیسہ خرچ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے۔اسی
طرح ہم مڈل کلاس کی بات کریں تو عموماً والد کا اکثر وقت روزگار کمانے اور
پوراکرنے کی جستجو میں صرف ہوجاتاہے۔ اس میں بھی اپنی حیثیت کے مطابق بہتر
اسکول کاانتخاب اولین ترجیح ہوتاہے۔عموماً تعلیمی معاملات کی دیکھ بھال
والدہ کی ذمہ داری میں آتی ہے۔ غریب والدین پرائیوٹ اسکولز کی فیس برداشت
نہیں کرپاتے اور سرکاری یا مختلف سماجی تنظیموں کے تحت چلنے والے اسکولز
میں اپنے بچوں کو داخل کروادیتے ہیں۔ ان میں بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں پر
نظر رکھنے والے اور انہیں مکمل طور پر اسکول کے حوالے کرنے والے دونوں طرح
کے والدین مل جائیں گے۔
ہوسکتاہےکہ آپ کے ذہن میں یہ خیال آرہاہو کہ ان میں سے اکثر باتیں ہمیں
پتہ ہیں اور اس میں برائی ہی کیاہے۔ کیااپنی اولاد کے بہترمستقبل کے لیے
فکرمند ہونابری بات ہے؟کیا اولاد کی تعلیم پر توجہ دینا بری بات ہے؟ ہرگز
نہیں۔ اگر آپ غور کریں اور معاشرے کی کیفیت کاجائزہ لیں تو یہ بات سامنے
آئے گی کہ تعلیم کے لیے تو بہت سے لوگ پریشان ہیں لیکن دینی تربیت کہاں
ہے؟ کیا جتنی تعلیم کے لیے کوشش کی جاتی ہے اتنی کوشش بچے کی دینی تربیت کے
لیے بھی کی جاتی ہے؟ یہاں یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ تربیت کے لیے بھی کوششیں
ہوتی ہیں۔ لیکن کتنے والدین ایسے ہیں جو تربیت اور ماحول کے حوالے سے
حُساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ پھر تربیت بھی کیسی کہ اسے آداب آجائیں ۔
کونسے آداب ؟ وہ آداب جو نام نہاد اعلی سوسائٹی میں اچھی ساکھ کی پہچان
ہوتےہیں۔ہماری اولاد کو غیرتعلیم یافتہ نہ کہاجائے۔انہیں موجودہ دورکے
مطابق بچپن ہی سے ڈریسنگ کرنے کا ڈھنگ ہوناچاہیے،مہذب زبان استعما ل کرنا
آناچاہیےوغیرہ۔تعلیمی مہارتوں میں اضافے کے ساتھ ہوسکتاہے کہ کچھ اخلاقی
صفات پیداکرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہو لیکن اس کا تناسب کیاہے اور اسے
کتناوقت دیا جاتاہے؟ اگرہم اپنے معمولات پر غورکریں تو اور سوچیں کہ ہمارے
دن بھر کا کتناوقت اولاد کی تربیت کے لیے وقف ہے؟ ایک تعداد ہے جواپنی
اولاد کو دوسروں کے حوالے کرکےخود دیگر مصروفیات میں مگن ہے۔
اللہعزوجل کا کروڑہاکروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا۔اب ہم اپنی
تعلیم کے بارے میں غور کریں کہ ہمیں عمر کے کس حصے میں کیا سکھایاگیا؟ کیا
ہم نے وہ سب کچھ سیکھنے کی کوشش کی جس کا سیکھنا ہمارے لیے ضروری تھا؟
ہماری سوچ اور فکر اپنی ذاتی تعلیم و تربیت کے حوالے سےکیا ہے؟ زندگی میں
انسان دوسروں کے تجربات سے بھی سیکھتاہے اور بعض اوقات حالات و واقعات اسے
بہت کچھ سکھادیتے ہیں۔ کیا کبھی آپ کو یہ محسوس ہوا کہ کاش یہ بات مجھے
پہلے پتہ چل جاتی توکتنااچھاہوتا!دنیاوی ترقی کے زینے طے کرنے کی کوشش میں
آپ نے جو مشکلات جھیلی ہیں آپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میری اولاد ان
مشکلات میں نہ پڑجائے اور وہ مناسب وقت پر ضروری صلاحیتیں حاصل کرلے۔یقین
کیجئے کہ دینی معاملات میں عمر اور ذمہ داریوں کے اضافہ کے ساتھ بہت کچھ
سیکھنا آ پ کے لیے ضروری ہوچکا ، لیکن افسوس ہماری اس طرف نہ توجہ ہے نہ
معلومات۔لاعلمی کے باعث کیے جانے والے غلط کام ہماری دنیو ی و اخروی زندگی
پر بہت سے برے اثرات مرتب کررہے ہیں اور بعض اوقات ہمیں اسکااحساس بھی
ہوجاتا ہے۔ کیا آ پ یہ چاہتے ہیں کہ یہ سب آپ کی اولاد کے ساتھ بھی
ہو؟کیا آپ اپنی اولاد کو ضروری دینی تعلیم و تربیت سے ناآشنا رکھناچاہیں
گے؟ کیاآپ انہیں صرف دنیاوی ترقی کے لیے معاون مہارتوں کو حاصل کرنے کے
مواقع فراہم کریں گے اور انہیں کی حوصلہ افزائی کریں گے؟
بطور مسلمان کیا یہ ہماری خواہش نہیں ہونی چاہیے کہ ہماری اولاد اپنی عمرکے
اعتبار سے ضروری دینی علوم سے آشنا ہوجائے؟بہترین تربیت حاصل کرلے۔ گناہوں
سے پاک اچھی زندگی بسرکرے۔ ہمارے جنت میں جانے کا سبب بن جائے۔ تقوی
،پرہیزگاری، حسن اخلاق ،سخاوت ،نرمی ، صبر اور اس طرح کی نجات دلانے والی
صفات کی حامل بن جائے۔ غیبت ، چغلی ،وعدہ خلافی، جھوٹ،حسد ، تکبر اور اس
طرح کی ہلاکت میں ڈالنے والی عادات سے بچ جائے۔ جب ان امور کی طرف توجہ
دلائی جاتی ہےتو یہ خدشہ ذہن میں آنے لگتاہے کہ یہ تو انہیں مولوی بنانے
لگ گئے ۔ہم تو اپنی اولاد کو اچھی زندگی حاصل کرنے کے لیے ان میں ضروری
صلاحیتیں پیداکرنے کی کوشش میں ہیں ۔ اس طرف لگایاتو انکے روزگار کا کیا
ہوگا؟ کیا وہ دنیاسے نابلد جاہل رہ جائیں گے؟یہ اور بہت سے دوسرے خدشات بھی
ذہنوں میں آجاتےہوں گے۔
خداراان خدشات کو ذہن سے جھٹک دیجئے ۔ آپ کے نزدیک اچھی زندگی کی کیا
تعریف ہے؟ کیا صرف دنیاوی ترقی ہی اچھی زندگی کی علامت ہے؟کیا دین سے دور
صرف مالدارا اور پرآسائش زند گی گزارنا کامیابی کی علامت ہے؟میں یہ نہیں
کہتاکہ آپ اپنی اولاد کی دنیاوی ترقی کے لیے کچھ نہ سوچیں لیکن اپنی سوچ
اور فکر کو اس سے کہیں زیادہ انکی دینی تعلیم و تربیت کی طرف لگائیں۔اس بات
کو جاننے کی جستجو میں مصروف ہوجائیں کہ میری اولاد کو اسکی بڑھتی ہو ئی
عمرکے لحاظ سے کن دینی علوم کی ضرورت ہے؟اور بالغ ہو جانے پران کے لیے کیا
کیا سیکھنا فرض ہو جائے گا؟اس وقت اپنی عمر کے لحاظ سے دینی علوم کو سیکھنے
کے لیے اسے کن مہارتوں کی ضرورت ہوگی؟اس کے لیے ابتداء سے کیا کوشش کی جانی
چاہیے ؟ عمر کے کس حصے میں کونسی ضروری دینی معلومات اسے حاصل ہوجانی
چاہییں؟اور پھر سب سے بڑھ کر اسکی تربیت کس ماحول میں ہونی چاہیے اور یہ
تمام علوم اور صلاحیتیں پیداکرنے کے لیے کس قسم کے اساتذہ کی ضرورت ہے؟ اب
ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال آئےکہ یہ تو سوچنے کاکام ہے !غور و
غوض کاکام ہے۔ ہم نے اپنے بچے کو اسکول میں داخل کروایا ہو ا ہے وہاں اسے
اسلامیات پڑھائی جارہی ہے اور اساتذہ بھی اچھی باتیں بتاتےہوں گے۔
ذراٹہر جائیے اور اپنے آپ سے یہ سوال پوچھئے کہ کیا آپ نے کبھی سوچاہے کہ
جو اسلامیات کی کتا ب اسکول میں پڑھائی جارہی ہے کیا وہ کافی ہے؟ اور اس سے
پہلے کیا وہ درست بھی ہے؟اسکول کے بعد قاری صاحب کے پاس بھیج دینے سے ہم یہ
سمجھتے ہیں کہ ہما ری دینی علوم اور تربیت دینے کی ذمہ داری پوری ہو گئی۔
معذرت کے ساتھ ،ہرگز نہیں۔اب ذرا اس بات کا بھی جائز لے لیجئے کہ ہمارے
موجودہ نصاب کے مطابق پرائمری سے لیکر گریجویشن تک کی اسلامیات پڑھ لینے کے
بعد ایک طالبعلم میں کتنی دینی صلاحیتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ کیا وہ اپنی عمر
کے لحاظ سےضروری دینی علوم حاصل کرلیتاہے؟ پھر اسےاسلامیا ت کون پڑھارہاہے؟
کیا عام اسکول و کالجز اس بات کا لحا ظ رکھتے ہیں کہ اسلامیات پڑھانے کی
اہلیت کے حامل اساتذہ سے ہی تدریس ِاسلامیات کاکام لیا جائے۔عموماً
اسلامیات کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ہفتہ میں دو یا تین اور وہ بھی صبح کے
تازہ دم اوقات میں نہیں بلکہ آخری پیرئیڈ ز میں اسلامیات کو رکھا
جاتاہے۔عموماً جب طلبہ اور اساتذ ہ ذہنی اور جسمانی طورپرتھک چکے
ہوتےہیں۔پھر امتحانات میں بھی دیگرمضامین پر خصوصی توجہ ہوتی ہے۔کیا دینی
مضمون کے ساتھ یہ طرز عمل درست ہے؟ہم کس سمت میں جارہے ہیں؟اگر پروفیشنل
ڈگری کی بات کی جائے تو اس میں اسلامیات نامی کو ئی مضمون ہی نہیں ہے۔طلبہ
کی ایک بڑی تعدادانٹرمیڈیٹ کےبعد روایتی گریجویشن کے بجائے پروفیشنل ڈگری
کے حصول کے لیے کوشاں نظرآتی ہے۔اس طر ف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامیات کے نصاب کو ازسر نو ترتیب دیاجائے اور اس
کے عملی نفاذ کے لیے بھی ضروری اقدامات کیے جائیں۔یقیناً یہ ایک بڑاکام ہے
اوراہل علم بالخصوص مفتیان کرام کی سربراہی میں ماہرین تعلیم کے ساتھ مل کر
اس کام کا آغاز کیا جائے۔ یہ کام کسی ایک خاص خطے یا ملک کے تناظر میں
نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کے لیے ہوناچاہیے ۔عمرکےلحا ظ سے
ضروری دینی علوم کا تعین کیا جائے ۔ ابتدائی طورپر پری پرائمری سے لیکر کم
از کم کالج سطح تک کے نصاب کی تدوین نو کا آغاز کیا جائے۔
تمت بالخیر |