شبیر صاحب اپنی سیٹ پر نہیں تھے۔
میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ پورے بنک میں وہ کہیں بھی نظر نہیں آئے۔
سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے۔ بینک میں رش بہت زیادہ تھا۔ ہر طرف بوڑھے
لوگ کچھ کھڑے کچھ بیٹھے نظر آ رہے تھے۔ شبیر کی وجہ سے میں نے گزشتہ ایک
سال کسی VIP کی طرح گزارا تھا۔ مگر اب دوسرا مہینہ تھا کہ میں ایک عام شہری
کی طرح اس بینک میں موجود تھا۔ آخری کوشش کے طور پر میں نے شبیر کے ایک
ساتھی سے شبیر کا پوچھا۔ جواب ملا کہ وہ چھٹی پر ہیں۔ پچھلے ماہ بھی پہلی
تاریخ کو شبیر صاحب چھٹی پر تھے اور آج بھی۔ پتہ چلا کہ ان کا بیٹا کچھ ماہ
سے شدید بیمار ہے اسلئے نہیں آ رہے۔ ماں باپ اور بچوں کا رشتہ بھی عجیب ہے
بچے کی بیماری کا درد بچے کی نسبت ماں اور باپ کو بہت زیادہ ہوتا ہے۔ رب
العزت بچے کو شفا دیں۔
میں ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہوں اور ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو مجھے
نیشنل بینک ماڈل ٹاؤن سے اپنی پنشن وصول کرنا ہوتی ہے۔ میں نے دائیں بائیں
دیکھا، ایک صاحب جو شاید مینجر اپریشن تھے کچھ پنشن کی کتابیں لئے بیٹھے ان
پر پنشن دینے کی کاروائی کر رہے تھے۔ میں نے انہیں مدد کے لئے کہا اور
درخواست کی کہ مجھے VIP ٹریٹ کر لیں۔ مگر اس نے انکار کیا اور معذرت خواہ
لہجے میں کہا کہ آپ کام روٹین میں ہونے دیں۔ میں باری کے علاوہ کسی بات کو
نہیں مانتا فارغ تھا اس لئے اپنے پنشن افسر کی مدد کے لئے باری کے مطابق
کچھ کاپیوں پر کاروائی کر رہا ہوں۔ میں نے خوش دلی سے اس کی بات مانی اور
ہنس کر کہا کہ اگر ایسا ہے تو میرے لئے اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہیں
لیکن یہ یاد رکھیں کہ اگر میں نہیں تو کوئی بھی VIP نہیں ہونا چاہیے۔ اس نے
جواب دیا۔ ان شاء ا ﷲ مجھے اچھا لگا۔ کاش سبھی بینک منیجر ایسے ہو جائیں۔
اس کے انکار کے بعداب مجھے دو گھنٹے سے زیادہ اپنی باری کا انتظار کرنا
تھا۔ میں پنشن والے افسر کے قریب کھڑا ہو کر ارد گرد کا جائزہ لینے لگا۔
کئی سال پہلے جب میں پہلی دفعہ پنشن وصول کرنے آیاتھا تو بہت ابتر صورتحال
تھی۔ ایک طرف میرے جیسے مسکین لوگ تھے کہ زندگی کے ہر شعبے میں قطار ان کا
مقدر ہوتی ہے اور دوسری طرف VIP حضرات تھے۔ VIP حضرات آتے، منیجر یا کسی
بھی آفیسر کے پاس جاتے، اپنی پنشن کی کاپی اسے پکڑاتے، لمحوں مین انہیں
اندراج کے بعد کاپی واپس مل جاتی اور بینک کا ایک چپڑاسی جو شاید اسی کام
پر معمور تھا، پیسے لا کر انہیں دے دیتا اور VIP حضرات مسکراتے ہوئے یہ جا
وہ جا۔ میری پنشن بُک چونکہ قطار میں تھی اس لئے میری دو گھنٹے بعد باری
آئی۔ ان دو گھنٹوں میں میں غصہ کھاتا اور غصہ پیتا، حالات کا جائزہ لیتا
رہا۔ گھر آ کر میں نے بحیثیت سیکرٹری سینئر سٹیزن فاؤنڈیشن ماڈل ٹاؤن بنک
کے سینئرحکام کو تمام صورتحال پر ایک خط لکھا جس میں ان سے استدعا کی کہ
بینک سے VIP کلچر ختم کیا جائے۔ بوڑھے لوگ گھنٹوں کھڑے رہتے یں کیونکہ بینک
میں چند کرسیاں ہیں وہ بھی بینک افسران کے پاس کہ شناسائی کے بغیر وہ کسی
کو ان پر بیٹھنے نہیں دیتے۔ لوگ مجبوری میں دو سے تین گھنٹے کھڑے رہتے ہیں
یا بینک سے باہر بینک کی سیڑھیوں پر بیٹھے رہتے ہیں جبکہ کچھ VIP حضرات
منٹوں میں بنک کے عملے کی مدد سے پنشن لے کرچلے جاتے ہیں جو باقی بزرگ
لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ لمبے انتظار کے دوران بیٹھنے کوان لوگوں کے لئے
معقول کرسیوں کا بندوبست کیا جائے اور اس لمبے انتظار کے دوران ضرورت کے
پیش نظر بیت الخلاء کے استعمال کی سہولت بھی مہیا کی جائے۔ خط کی کاپی بینک
کو بھی بھیج دی گئی۔
ایک ماہ بعد پہلی تاریخ کو میں پھر وہاں موجود تھا اور صورتحال میں بہتری
والی کوئی بات نہ تھی۔ میرا خط شاید ردی کی ٹوکری کی نذر ہو چکا تھا۔ میں
نے شناسا دو چار بوڑھوں کو ساتھ لیا اور ہم منیجر کے کمرے میں جا گھسے۔ میں
نے تعارف کرایا۔ اپنے خط کا حوالہ دیا اور درخواست کی کہ آپ کے کمرہ میں جو
بہت سے VIP حضرات تشریف رکھتے ہیں انہیں بھی قطار میں آنے کا کہیں کہ آپ کی
اس حرکت سے بہت سے ہم جیسے لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ منیجر صاحب غصے میں
آ گئے۔ جانتے ہیں یہ کون ہیں؟ یہ فلاں شعبے کے سب سے بڑے افسر تھے۔ یہ
پولیس کے بہت بڑے افسر تھے۔ یہ فلاں بڑے افسر کے والد ہیں۔ غرض وہاں بیٹھا
ہوا ہر شخص کوئی بہت بڑی توپ رہا تھا یا کسی موجودہ توپ کا قریبی عزیز تھا۔
منیجر صاحب ہم سے پوچھ رہے تھے کہ اتنے بڑے بڑے اور زبردست لوگوں کو میں
کیسے جواب دوں؟ میں نے عرض کیا کہ جواب دینے میں کیا امر مانع ہے؟ فرمانے
لگے یہ لوگ طاقتور لوگ ہیں۔ میرے انکار پر ناراض ہو سکتے ہیں اور مجھے
نوکری کرنی ہے۔ میں ناراضی مول نہیں لے سکتا۔ سو جواباً میں نے انہیں دھمکی
دی کہ اب آپ کسی بندے کو بغیر قطار ادائیگی کریں اور پھر دیکھیں۔ باہر آ کر
ہم نے دوسرے لوگوں کو بھی بتا دیا۔ لوگ ہشیار ہو گئے اور VIP حضرات منہ
لٹکا کر بیٹھے رہے۔ دو ڈھائی گھنٹے کے بعد ہم اپنی رقم وصول کر کے چلے گئے
بعد میں کیا ہوا کچھ پتہ نہیں لیکن چند ماہ میں تبدیلی یہ آئی کہ ہمیں دیکھ
کر VIP کلچر کچھ دیر کے لئے ٹھہر جاتا تھا۔ چند ماہ میں بینک میں کرسیاں
بھی آ گئیں اور بینک کے عملے کا رویہ بھی نسبتاً بہتر ہو گیا۔
پچھلے سال میں بینک میں داخل ہوا ہی تھا کہ یکدم شبیر آگے بڑھ کر میرے پاس
آیا۔ سر آپ کیسے؟ شبیر کالج میں میرا طالب علم تھا۔ بتایا بھائی! پنشن لینے
آیا ہوں۔۔۔۔ میری ٹرانسفر پندرہ دن پہلے اس برانچ میں ہوئی ہے۔ آئیں میرے
پاس بیٹھیں اور چائے پی کر جائیں۔ یہ آپ کی پنشن بک ہے۔ میں نے ہاں کہا۔ اس
نے پنشن بک پکڑی اور کہا میں بندے کو چائے کا کہہ دوں پھر گپ شپ ہو گی۔ چند
منٹ بعد شبیر واپس آیا۔ پنشن بک مجھے دی۔ بنک کے ملازم نے چائے سامنے رکھ
دی۔ میں سوچ رہا تھا کہ چائے پی کر پنشن بک قطار میں رکھوں گا کہ میری رقم
ایک دوسرے ملازم نے میرے سامنے رکھ دی۔ میں احتجاج بھی نہ کر سکا۔ سارے
اصول بھول گئے۔ اس دن احساس ہوا کہ بچے چاہے وہ اپنی اولاد ہو یا اپنے طالب
علم، اپنے رویوں سے بزرگوں کو VIP بناتے ہیں پس اس دن سے میں ایک VIP تھا۔
یہ اخلاقی رشوت اس دن مجھے رشوت بھی نہ لگی اور میں دوسرے لوگوں سے نظریں
چرا کر وا پس آ گیا۔
آج ایک عرصے کے بعد شبیر کی غیر حاضری کن وجہ سے میں ایک بار پھر ایک عام
آدمی تھااور بنک اور پنشنر کے حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔آج پھر VIP کلچر
مجھے تکلیف دہ محسوس ہو رہا تھا۔ مہینے کے پہلے دو دن پنشن کا حصول خاصہ
مشقت طلب کام ہوتا ہے اور عموماً اس کے لئے دو گھنٹے سے زیادہ وقت درکار
ہوتا ہے۔انتظار کے ان دو گھنٹوں میں بہت سے عجیب عجیب منظر نظر آتے ہیں۔
میں وہ منظر دیکھ کرمحظوظ ہو رہا تھا۔ ایک ستر سالہ بوڑھی عورت آئی۔ خوش
شکل اور خوش لباس ہونے کے سبب کسی اچھے اور کھاتے پیتے خاندان سے ا س کا
تعلق لگتا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ فوراً پنشن مل جائے۔اپنی کاپی قطار میں سب
سے آگے رکھنے کی کوشش کرتی مگر بینک آفیسر ہر دفعہ اس کی کوشش ناکام بنا
دیتا۔ اتنے میں ایک اور خاتون بینک کے باہر گاڑ ی سے اتری۔ اس بوڑھی عورت
کے پاس آئی اور پوچھا کہ اماں پنشن مل گئی؟ بوڑھی عورت نے کہا کہ نہیں۔
دونوں کچھ دیر سوچتی رہیں پھر بیٹی کو کچھ خیال آیا۔ آگے بڑھ کر بینک آفیسر
سے بولی ہمارے ایک عزیز فوت ہو گئے ہیں ہمیں وہاں جانا ہے پلیز ذرا جلدی سے
پنشن دے دیں۔ بینک آفیسر نے کہا کہ یہ جو بہت سے لوگ جن کی کتابیں قطار میں
موجود ہیں ان سے بات کر لو۔ اب بیٹی لوگوں کو واسطے دے رہی تھی کہ آپ
مسلمان ہیں ہمارا عزیز فوت ہو گیا ہے۔ مہربانی کر کے اجازت دے دیں۔ پلیز۔
مگر کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔ ایک شخص نے اسے اتنا ضرور کہا کہ پندرہ
بیس ہزار کی پنشن دو دن بعد لے لیتے اتنا قریبی عزیز ہے تو بینک میں دھکے
کھانے کی زحمت کیوں کی؟ کافی منت کرنے کے باوجود بھی ان کا کام نہ بنا
تومرنے والے کو بھول کر چپ چاپ اپنی باری کا انتظار کرنے لگیں۔نظر آ رہا
تھا کہ کوئی مرا نہیں تھا بس مرنے کا نام لے کر پنشن لینے کی ناکام کوشش کی
گئی تھی یہ ہمارا قومی کردار ہے کہ کام نکالنے کے لئے کسی بھی عزیز کو کسے
بھی وقت مار سکتے ہیں۔
ایک دو ٹانگوں سے معذور شخص بھی پنشن لینے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔
بیچارہ رینگتا ہوا آتا۔ میز کی اوٹ سے آواز دے کر اپنی باری کا پوچھتا۔
بینک آفیسر بجائے کچھ خیال کرنے کے اسے جھڑک کر باہر جانے کا کہتا اور وہ
ٹانگیں گھسیٹتا واپس دروازے سے باہر سیڑھیوں پر جا بیٹھتا۔وہ معذو ربزرگ
شخص واقعی ہمدردی کا مستحق تھامگر وہاں موجود ہر بزرگ آدمی ذہنی طور پر
معذور لگتا تھااور بنک ملازم تو پتھر کی تخلیق نظر آتے تھے اسلئے کسی نے اس
کی طرف نظر بھر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ ایک عورت نے اپنی کاپی قطار میں
رکھی۔ تھوڑی دیر بنک کا چکر لگایا واپس آئی دائیں بائیں دیکھا۔ تیزی سے
قطار سے اپنی کاپی نکالی اور اعلان کیا کہ کچھ غلطی رہ گئی ہے ابھی دیکھ کر
کاپی واپس رکھ دیتی ہوں اور پھر چند منٹ بعد کاپی قطار میں سب سے آگے رکھ
کر چل دی۔ لوگ غصے کرنے کے باوجود کچھ نہ کہہ سکے۔ خاتون اپنی فنکاری سے
البتہ اپنا ایک گھنٹہ بچانے میں کامیاب رہی
گو بنک میں اب VIP کلچر بھی بہت قدرے کم ہے۔ مگر اس کا مکمل خاتمہ بہت
ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بینک والوں کو ہر مہینے کی پہلی تاریخوں میں پنشن
دینے کے لئے اپنے سٹاف کے سکچھ نہ کچھ لوگ زیادہ بٹھانا چاہئیں۔ صرف ایک
آدمی اتنے بہت سے پنشنرز کو آسانی سے ڈیل نہیں کر سکتا۔ کام کی زیادتی اس
شخص کے اعصاب پر بھی اثر کرتی ہے وہ چڑچڑا ہو جاتا اور لوگوں سے خواہمخواہ
لڑتا ہے۔ چنانچہ یہی ہو رہا تھا۔بہت سے لوگوں سے بنک کے افسر کا رویہ
نامناسب ہو تا رہا۔چندلوگ بھی کچھ زیادتی کرتے ہیں مگر ننانوے فیصد لوگ چپ
چاپ اپنے حال میں مست انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔گو صورتحال سے بیزار ہیں
مگربے بس اور لاچار ہیں۔ بنک کے ذمہ داروں کوان بزرگوں کی جائز ضروریات کا
خیا ل رکھنااور اپنے خوش اخلاق عملے کو بزرگوں کی خدمت پر تعینات کرنا
چائیے۔ |