کسی بھی معاشرے کی بنیاد اس کے
نظریات اور افکار پر ہوتی ہے۔ نظریے سے مراد کسی تہذیبی، سیاسی یا معاشرتی
لائحہ عمل سے ہے جو کسی بھی قوم کا مشترکہ نصب العین ہو، لہٰذا ہم کہہ سکتے
ہیں کہ نظریہ ہی وہ بنیاد اور ستون ہے جسے وسعت دے کر قومیں پروان چڑھتی
ہیں اور قومی زندگی کا نظام وجود میں آتا ہے۔ اگر عقیدے اور نظریے کی اہمیت
نہ ہو تو کوئی بھی قوم اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہوسکتی۔ قانون بھی اسی کے
زیر سایہ پروان چڑھتے ہیں اور سیاسی سرگرمیاں بھی اسی سے ہم رشتہ ہوکر رہتی
ہیں۔ ہمارے دین اسلام نے جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ہماری زندگی کے ہر
ہر پہلو کے متعلق رہنمائی کی ہے۔ جب نظریات و افکار کی جڑیں کمزور ہونے
لگیں تو مغربی افکار و تہذیب ان کی جگہ لینے لگتے ہیں، اور عام مشاہدہ ہے
کہ اس صورت حال میں نوجوان نسل تقلید میں سب سے آگے رہتی ہے۔ آج ہمارے سماج
میں مغربی افکار کے اثرات تیزی سے نمایاں ہورہے ہیں۔ پہلے جن افعال کو
اسلامی تعلیمات کی رو سے معیوب سمجھا جاتا تھا اب وہ برائی، برائی محسوس
نہیں ہوتی، اور انہیں وہ تمام خیالات پرانے اور دقیانوسی معلوم ہوتے ہیں جو
کبھی مسلم تہذیب کا خاصا تھے۔ انہیں جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر اس
دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے جس میں گرنے کے بعد انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
ہماری نوجوان نسل کو مقصدِ زندگی سے ہٹاکر ’’کھا لے، پی لے، جی لے‘‘ کے
راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔۔۔نوجوانی ہر انسان کی زندگی کی ایک درخشاں حقیقت
اور بے بدل اور عدیم المثال باب ہے۔ ۔ یہ نوجوانی، یہ ضوفشاں دور وہ دور ہے
کہ جو اپنی کم طوالت کے باوجود انسان کی پوری زندگی پر طویل المیعاد اور
دائمی اثرات مرتب کرتا ہے۔جس طرح نوجوانوں کے جسم توانائی اور شادابی کی
آماجگاہ ہوتے ہیں ان کی روح بھی اسی طرح شاداب ہوتی ہے۔ اس متنفس کو اس کی
فکری توانائی، اس کی عقلی صلاحیت، اس کی جسمانی طاقت، اس کی اعصابی قوت اور
اس کے ناشناختہ پہلوؤں کے ساتھ اﷲ تعالی نے خلق فرمایا ہے تاکہ وہ ان قدرتی
نعمتوں اور اس مادی دنیا کو وسیلے کے طور پر استعمال کرے اور خود کو قرب
الہٰی کے بلند مقامات پر پہنچائے۔ اگر ہم اپنے طرز فکر و رجحان کو نظریہ
اسلام سے ہم آہنگ کردیں تو اس کے ذریعے مغربی تقلید کے اثرات کافی حد تک کم
ہوسکتے ہیں۔ کاش کہ ہماری نوجوان نسل میں اس امر کا شعور پیدا ہوکہ مغربی
تقلید ان کے معاشرے میں بھی انہی برائیوں کا باعث بن رہی ہے جس میں آج
مغربی معاشرہ خود مبتلا ہے۔ نسل نَو میں بے عملی اور اخلاقی تباہی دشمنانِ
اسلام کی سوچی سمجھی سازش ہے۔نوجوان طبقہ بلا شبہ امت کا ایک قیمتی سرمایہ
ہوتا ہے، اور جب اسے خیر و بھلائی کے کاموں، عزت و عظمت کے تحفظ اور تعمیر
و ترقی کے امور میں صرف کیا جائے تو پھر یہ طبقہ ایک نعمت اور خیر و برکت
بن جاتا ہے اور اگر اسے شرو فساد اپنے رنگ میں رنگ لے تو یہی طبقہ خطرناک
اور انتہائی نقصاندہ بن کر سامنے آتا ہے۔شباب و جوانی میں اخلاق و کردار کا
تنزل انتہائی خطرناک اور خوفناک ہوتا ہے لہٰذا جس قدر نوجوان طبقے کی تربیت
اور ان کے مسائل میں دلچسپی لی جائے گی اسی قدر امت اور معاشرے کا انجام
بہتر ہوگا۔آج کل کا اہم ترین مسئلہ نوجوان نسل کا نظریاتی اور اخلاقی
انحراف ہی ہے۔ اور وہ امور جو والدین اور تعلیم و تربیت سے متعلقہ لوگوں کے
لئے پریشانی کا سبب ہیں ان میں سے یہ ایک اہم ترین موضوع ہے۔ لیکن اس
معاملے میں اکثر ہم پر جذبات غالب آجاتے ہیں۔ کسی مسئلہ کو اسی طرح نرمی سے
دیکھے چلے جاتے ہیں اور بالآخر وہ زخم بہت بڑا ہو کر پھٹ جاتا ہے جس کے بہت
خطرناک نتائج سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔چنانچہ اس بات کی شدید ضرورت ہے
کہ گہری فکر و نظر سے کام لیا جائے اور اس مسئلے کا تجزیہ کرتے ہوئے، اس کے
اسباب و مستقبل پر غور کیا جائے اور دین و شریعت کی بنیادوں پر پورے منظم
انداز سے اس مسئلہ کی روک تھام اور بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ کیونکہ
نوجوان نسل ہی تو امت کی امید، مستقبل کا سہارا، معاشرے کا سرمایہ اور
امتوں کی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔یہ امت مسلمہ جسے اﷲ تعالیٰ نے تمام
امتوں سے بہترین امت قرار دیا ہے یہ ہرگز نہیں چاہتی کہ اس کا نوجوان طبقہ
محض عام سے لوگوں پر مشتمل ہو بلکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ اس کی نوجوان نسل
زمین کے سردار اور اخلاقی میدان کے قائدین ہوں۔ اسلام کا نور پھیلنے سے
لیکر آج تک ہماری امت کی تاریخ میں اس امت کی نوجوان نسل نے بڑے بڑے
کارنامے اور اعلیٰ نمونے رقم کیے ہیں لیکن وہ نسل جو صحیح طور پر ایمان
لائی، عمدہ و اعلیٰ اعمال صالحہ سرانجام دئے اور انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی
نازل کردہ شریعت کو اپنایا۔ ان نوجوانوں نے اپنی قوم کو اپنے اقوال و افعال
سے سعادت بخشی اور اپنے عمدہ اخلاق و اعلیٰ کردار و عمل سے معاشرے کی خیر و
بھلائی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ہمارے موجودہ دور میں شکوک و شہبات کے
راستے بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور خواہشات نفس کی تسکین کا سامان بہت عام
ہوگیا ہے اور ہماری نوجوان نسل ان زہریلے تیروں کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ جبکہ
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ان گندگیوں سے کوسوں دور تھے۔ کیونکہ نبی صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے ان کے تحفظ کا مکمل اہتمام و انتظام فرمایا۔ آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم قدم قدم پر، موقع بہ موقع صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی
اصلاح کی فکر فرماتے، ان کی کوتاہیوں پر متنبہ فرماتے اور قابلِ تعریف امور
پر حوصلہ افزائی فرماتے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے بھی بیدار مغزی سے کام
لیا اور تمام خوفناک فتنوں کے راستے بند کر دئے اور اس راستے میں آنے والی
رکاوٹوں کا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
نوجوان نسل کی تربیت و تیاری اور اس کی شخصیت کو تعمیر کرنے کا پہلا اور
بنیادی مرحلہ اس کا خاندان ہوتا ہے اور اسی سے بچے کی بھلائی و برائی اور
اصلاح و بگاڑ کی راہ متعین ہوتی ہے۔ اگر والدین خصوصاً باپ اپنے خاندانوں
یا گھرانوں کی تربیت سے اپنی توجہ ہٹا لے اور صرف اسے ہی اپنا فرض خیال کرے
کہ اُسے اپنی اولاد کیلئے مال و دولت کا ذخیرہ مہیا کرنا ہے۔ جوان اولاد کو
اُن کے حال پر چھوڑ دیا جائے، ان کی تربیت میں کوتاہی برتی جائے اور ان کی
راہنمائی و ہدایت کیلئے کوئی وقت ہی نہ دیا جائے تو ایسے خاندان کو اپنی
ذمہ داریوں سے غافل تصور کیا جائے گا۔آج اگر دیکھا جائے تو بکثرت باپ ایسے
ہیں کہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنا تعلق اور ذمہ داری صرف مالی حساب کتاب سے
زیادہ نہیں سمجھتے کہ بچوں کے کھانے پینے، پہننے اور سیروتقریح کیلئے وافر
اخراجات مہیا کر دینا ہی ان کا فریضہ ہے۔ جہاں تک ان کی اخلاقی تربیت
،کردار و مذہبی اصلاح اور ان کی شخصیت کی تعمیر کا معاملہ ہے تو یہ امور ان
کی ذمہ داریوں میں برائے نام ہی آتے ہیں۔چنانچہ دیکھا جائے تو حقیقت میں
نوجوان نسل میں اگر دینی انحطاط اور اخلاقی گراوٹ آجائے تو اس کے زیادہ تر
ذمہ دار ان کے والدین ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ ارشاد نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم ہے۔ ’’ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسے اس کے ماں باپ
یہودی، نصرانی عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘ ( صحیح بخاری )جب خاندان اور
گھر کا ماحول تربیت کے لئے سازگار نہ رہے تو کیا اب یہ ممکن نہیں کہ انہیں
برا ماحول اور برے ساتھیوں کی رفاقت مل جائے جو اُسے آسانی کے ساتھ اُن
راستوں پر لے جائے جن پر چل کر وہ مجرم بن جائے۔ کیوں نہیں؟ اگر اس کے ماں
باپ نے اس کی صحیح نگرانی، خیرخواہی، اور راہنمائی نہیں کی اور اسے ہدایت و
نور کا راستہ بتانے والا ہی کوئی نہیں تو پھر اس کا راہ حق سے منحرف ہو
جانا اور مجرم بن جانا کوئی انہونی بات تو نہیں ہے۔گھر کے بعد مدرسہ وہ
ادارہ ہے جس کا کردار نوجوان نسل کی تربیت میں بہت ہی مؤثر و گہرا ہے۔ اس
سے کوئی صاحب عقل و دانش انکار نہیں کر سکتا کہ نوجوان نسل کی عمر کا یہ
مرحلہ اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ انہیں بھرپور شرعی نصاب سے مزین کیا
جائے خصوصاً جبکہ آجکل دنیا کے اطراف سمٹ کر اسے ایک چھوٹے سے گاؤں کی شکل
میں لے آئے ہیں اور اس گلوبلائزیشن کے ساتھ ساتھ ہی گمراہ کن افکار بھی بہت
پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر طرف شہوت پرستی کا ننگا ناچ ہے اور اخلاق کو تباہ کرنے
والے اسباب کی بھرمار ہے۔ ایسے میں بھر پور شرعی نصاب سے نوجوان نسل کے
دلوں کا تحفط کیا جانا ضروری ہے اور ان کے افکار کو گمراہ کن عقائد اور
تباہ کن فسق و فجور سے بچایا جائے۔دین اسلام کی تعلیمات نوجوان نسل کو بے
راہ روی سے بچانے کی سب سے بڑی ضمانت ہیں اور تاریخ خود بیشمار واقعات اور
عبرتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ یہ
قرآن وہ راستہ دکھلاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے ‘‘۔ ( بنی اسرائیل۔۹ )۔ جب
دینی تعلیمات کا فقدان ہو جائے گا تو نوجوان نسل انحراف و بے راہ روی کا
شکار ہو جاتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نوجوان نسل کے افراد جرائم پیشہ،
مغرب کے رسیا اور دشمنان دین کی گود میں سکون محسوس کرنے والے بن جائیں یا
گمراہ کن افکار و نظریات کا شکار بن جائیں۔ وہ اپنا بھی مستقبل برباد کریں
اور امت کا بھی، اپنے آپ کو بھی برباد کر لیں اور امت کو بھی لے
ڈوبیں۔اخلاق و کردار کی اصلاح میں نیک ماحول اور اچھے دوستوں کی صحبت کا
بھی بڑا دخل ہے۔ برے ساتھیوں کی صحبت آدمی کو تباہی و بربادی کی طرف گھسیٹ
لے جاتی ہے اور اسے ہلاکتوں سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ اور نیک صحبت عمدہ اخلاق
اور کردار کی اصلاح و تعمیر کاایک ذریعہ ہے۔
آج کل صحبت کی ایک جدید اور خطرناک ترین صورت میڈیا کی شکل میں بھی موجود
ہے۔ آج کا دور شہوتوں کو بھڑکانے والا، عریانی و فحاشی کو پھیلانے والا دور
ہے جو نسل نو کے جذبات کو غلط رخ دینے کے لئے طرح طرح کے حربے آزماتا رہتا
ہے۔ اور اس سلسلے کا ایک سب سے بڑا جال یہ سیٹلائٹ چینلز،اور انٹر نیٹ ہیں
جن میں سے اکثر کا کام ہی یہ ہوگیا ہے کہ وہ بدکرداری و بے راہ روی کو
نہایت بنا سنوار کر پیش کر رہے ہیں اور لوگوں کو بدراہ کرنے پر تلے ہوئے
ہیں۔ یہ چینلز اپنی تمام تر قوتوں اور وسائل کے ذریعے عقلوں کو بگاڑنے،
دلوں میں فساد پیدا کرنے، آنکھوں سے حیا کا پردہ ہٹانے اور دینی اقدار کو
ختم کرنے کیلئے تمام تر کوششیں کر رہے ہیں اور شر کے دروازے کھولے بیٹھے
ہیں۔ یہ ذرائع ابلاغ بھی مسلمانوں کے خلاف کفار کی ایک منظم سازش ہے۔ وہ ان
ممالک کا اخلاق و کلچر نقل کرتے چلے آرہے ہیں جن کا دین اسلام سے دور کا
بھی کوئی واسطہ نہیں ہے اور ان ذرائع نے لوگوں کو فسق و فجور کا ارتکاب
کرنے پر دلیر کر دیا ہے۔
اگر ہم اپنی نسلوں کی حفاظت چاہتے ہیں اور اپنے مستقبل کو روشن دیکھنا
چاہتے ہیں تو ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ استطاعت میں
نوجوان نسل کی تربیت میں اپنا کردار ادا کرے۔ والدین ہوں یا رشتہ دار،
اساتذہ ہوں یا دوست احباب، مدرسین ہوں یا مبلغین، اہل فکر ہوں یا اہل قلم
ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کے سلسلے میں اپنی ذمہ د اری کا حق ادا کرے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی |