کرکٹ بورڈ کے بھونچال میں تیزی کیوں ؟

دبئی میں اکلوتے ٹی20اور پھر دو ایک روزہ انٹرنیشنل میچز میں لگاتار شکست کے باعث پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں کے چہروں سے مایوسی جھلکتی ہوئی صاف نظر آرہی ہے، تاہم بدقستی سے پورے بورڈ میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو فیصلہ سازی میں غلطیوں کا اعتراف کرے اور سنیئر کھلاڑیوں سے مشاورت پر آمادہ ہو۔ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان گال میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ کے بعد امپائرز نے سعید اجمل کے بولنگ ایکشن کو قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی باضابطہ رپورٹ دی تو یار لوگوں نے اسے گوروں کی سازش قرار دے دیا ۔ خود کرکٹ بورڈ میں بعض ذمہ دار بھی انہی خطوط پر سوچتے رہے کہ یہ دراصل تین بڑوں کی ہمارے خلاف باقاعدہ پلاننگ کا حصہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مغربی ممالک بالخصوص انگلینڈ اور آسٹریلیا میں ایشیائی ممالک اور خاص طور پر پاکستان سے امتیازی سلوک کی سوچ پائی جاتی ہے مگر ہمارے ذمہ داروں کو چاہئے کہ صرف اور صرف اچھی پرفارمنس کے ذریعے گوروں کی زبان بندی کے لئے منصوبہ سازی کریں۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ سعیداجمل پاکستان کا بہت قیمتی اثاثہ ہے جن کی غیر موجودگی سے ہماری ٹیم کے کھلاڑی دباﺅ کے شکار ہو گئے ہیں تو دوسری جانب مخالف ٹیموں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف دبئی میں ہونے والے ٹی20اور دو ایک روزہ انٹرنیشنل میجوں کے نتائج سے واضح طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں بشمول نئے شامل ہونے والے نوجوانوں نے بھی یہ میچز ذہنی دباﺅ کی حالت میں کھیلے ہیں۔ لٹل ماسٹر حنیف محمد بھی پاکستانی کھلاڑیوں کا کھیل دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہمارے ملک میں بیٹسمینوں کی کارکردگی اتنی پست ہو جائے گی اس کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر جائیں تو اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ اب ہماری کرکٹ تباہ ہو جائے گی۔ نہ صرف عام نوجوان بلکہ کرکٹ کھیلنے والے بھی یہ سوچ رکھتے ہیں کہ گوروں کی سازشوں کے تحت پہلے آصف پھر سلمان بٹ اور محمد عامراور اب سعید اجمل کو نشانہ بنائے جانے کے بعد محمد حفیظ کو بھی ٹارگٹ کرنے کے لئے وارننگ دے دی گئی ہے۔

تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں آئی سی سی ایمپائروں نے صرف پاکستانی کھلاڑیوںکے بالنگ ایکشن کو ہی مشکوک قرار نہیں دیا ہے بلکہ نیوزی لینڈ کے کین ولیم سن،سری لنکا کے سچتراسینا نائکے بھی اپنے مشکوک بالنگ ایکشن کی وجہ سے زیر عتاب آ چکے ہیں،ویسٹ انڈیز کے مارلن سموئیل اور شین شلنگ فورڈکو بھی مشکوک بالنگ ایکشن کی وجہ سے آئی سی سی ایمپائرز نے اپنا بالنگ ایکشن درست کر کے ٹیسٹ دینے کا حکم دیا ۔دونوں ویسٹ انڈین بالرز کلیئرنس ملنے سے قبل انٹرنیشل کرکٹ نہیں کھیل سکیں گے۔ہاں یہ حقیقت ہے کہ اس وقت انڈین کرکٹ اسکواڈ میں کوئی ایک بھی ایساکھلاڑی نہیں جس کے بالنگ ایکشن پر آئی سی سی کو اعتراض ہو۔ تاہم خطرات کو پہلے سے بھانپتے ہوئے سابق بھارتی کپتان سنیل گواسکر نے آئی سی سی سے اپیل کی ہے کہ ایمپائرز کو میچ ختم ہونے کے بعد بالر کے بارے میں رپورٹ کرنے کی بجائے گیم کے دوران کیپٹن کو اس بالر کے مشکوک ایکشن کے بارے میں آگاہ کرنا چاہئے۔گواسکر کا خیال ہے کہ اپنی ٹیم کو ایک روزہ انٹرنیشنل میچ جتوا کر دینے والے بالر کے ایکشن کومشکوک قرار دینامناسب نہیں ہے۔ ایمپائر کو چاہئے کہ وہ کیپٹن پر واضح کر دیں کہ مذکورہ کھلاڑی کو اگلے میچ میں کھلانے سے قبل اس کے بالنگ ایکشن پر اطمنان حاصل کر لیا جائے۔

ایسے کھلاڑیوںکی ایک طویل فہرست ہے جنہیں آئی سی سی کی جانب سے ان کے بالنگ ایکشن پر وارننگ دی گئی اور بعد ازاں پابندی عائد کر دی گئی ۔ سابق پاکستانی فاسٹ بالر شعیب اختر پر دسمبر1999میں پابندی عائد کی گئی تاہم فوری بعد یہ پابندی اٹھا لی گئی۔ دوسرے پاکستانی بالر شبیر احمد پر دسمبر2005میں 12ماہ تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد ہوئی۔انگلینڈ کے جیمس کرٹلے کواکتوبر2005میں انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے کھیلنے سے روک دیا۔جنوبی افریقہ کے جان بوتھافروری2006میں پابندی کے شکار ہوئے ۔تاہم انہوں نے نومبر2006 میں اپنا بالنگ ایکشن کلیئر کروا لیا۔پاکستان کے میڈیم فاسٹ بالر عبدالرزاق کو بھی2008میں پابندی کا ذائقہ چکھنا پڑامگرانہیں مارچ 2009میں کلیئرنس مل گئی۔ دنیائے کرکٹ میں ایسے چھ بالرز ہیں جن کی مشکوک بالنگ ایکشن پرآئی سی سی کو رپورٹ کی گئی۔ تاہم انہیں کبھی میچ میں طلب نہیں کیا گیا ۔ انہیں کسی پابندی کے بغیر مسلسل بالنگ کے لئے کلیئر کر دیا گیا۔ ان میں سری لنکا کے کمار دھرما سینا، پاکستان کے محمد حفیظ، ویسٹ انڈیز کے جرمائن لاسن، آسٹریلیا کے بریٹ لی، پاکستان کے شعیب ملک اور انڈیا کے ہر بھجن سنگھ شامل ہیں۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ سعید اجمل پر پابندی کے باعث اتنا شورو غل کیوں اور کرکٹ بورڈ میں آنے والے بھونچال میں تیزی کیوں آئی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ بورڈ حکام کو ہمیشہ سے ہی یہ یقین رہاہے کہ میچ صرف سعید اجمل ہی جتواسکتا ہے جس کا ثبوت دبئی میں آسٹریلیا کے خلاف دوسرے ایک روزہ انٹرنیشنل میچ کا نتیجہ ہے۔بلا شبہ سعید اجمل میچ وننگ بالر ہے۔ اس طرح تو اس میچ وننگ بالر پر پابندی کی اصل ذمہ داری بورڈ پر عائد ہوتی ہے۔ 14اکتوبر1977کو پیدا ہونے والے دائیں ہاتھ سے آف اسپن گیند کرانے والے سعید اجمل کو اصل مقبولیت ”دوسرا“ کی کامیاب ڈلیوریز پر ملی، انہی گیندوں پر گورے بالخصوص انگلینڈ کے کھلاڑی تلملا کر رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنا پہلا میچ بھارت کے خلاف کھیلااور یوسف پٹھان کی اہم وکٹ حاصل کی۔ اگلے میچ میں وہ بنگلہ دیش کے خلاف دو وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کے بعد اجمل نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ کرک انفو ڈاٹ کام کے مطابق اجمل نے اپنے 2251ایام پر مشتمل انٹرنیشنل کیریئر میںمجموعی طور پر 18,887 گیندیں کرائیں۔111ایک روزہ انٹرنیشنل میچز میں183 وکٹیں لینے والے بالر کی جانب سے کرکٹ بورڈ اتنا مطمئن تھا کہ کبھی مستقبل میں اس کے نعم البدل کے بارے میں غور نہیں کیا گیا۔سعید اجمل کی ٹیسٹ وکٹوں کی تعداد169جبکہ فرسٹ کلاس وکٹوں کی تعداد537 ہے۔

آج پاکستان کرکٹ جس مقام پر جمود کا شکار کھڑی ہے اس کی تمام تر ذمہ داری کرکٹ بورڈ پر عائد ہوتی ہے۔ برسبین کی بائیو مکینیکل لیبارٹری کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سعید اجمل کا بالنگ ایکشن پندرہ ڈگری کی مقرر کردہ حد سے بہت زیادہ ہے۔ وہ گیند کرانے کے دوران اپنے بازو کو40ڈگری تک خم دیتے ہیں۔کیا کرکٹ بورڈ کے ذمہ داروں کو اتنے عرصے تک اجمل کی اس خامی کا علم نہیں تھا ؟ اس سوال پر بحث کی بجائے یہ تسلیم کرنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کرکٹ بورڈ سے ماضی میں یہ غلطی سرزد ہوئی ہے کہ اس نے سعید اجمل کے متبادل کے طور پر کسی نوجوان بولر کو تیار نہیں کیا اور اب جب کہ سعید اجمل کو اپنے بالنگ ایکشن کی وجہ سے معطلی کا سامنا ہے پاکستان کرکٹ میں بہت بڑا خلا محسوس ہورہا ہے۔ کسی بھی سلیکٹر یا ٹیم آفیشل نے سعید اجمل کی موجودگی میں کوئی دوسرا باصلاحیت ا سپنر تیار کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔یہ احساس پہلے ہوناچاہیے تھا تاہم اب بھی وقت ہے کہ ہم اچھے سپنرز تلاش کرکے انہیں انٹرنیشنل کرکٹ اور ممکنہ طور پر ورلڈ کپ سے پہلے گروم کریں۔سعید اجمل کوئی عام بولر نہیں ہیں انھوں نے پانچ سال جس طرح پاکستان کرکٹ میںاپنی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اسے نہ تو آسانی سے نظرانداز نہیں جاسکتا اور نہ ہی ان کا متبادل جلد ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔گو کہ ثقلین مشتاق کا پاکستان آکر سعید اجمل کے بالنگ ایکشن پر کام کرنا اور پھر ان کی وڈیوز بائیومکینک ماہرین کو بھجوانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب کرکٹ بورڈ اس معاملے میں کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ توقع ہے کہ اس کا بہتر نتیجہ نکلے گا ۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ذمہ داران کو اب توقع ہے کہ سعید اجمل اپنا بولنگ ایکشن درست کر کے دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آ جائیں گے۔خود چیئرمین بورڈ شہریار خان نے بھی گزشتہ دنوں یہ توقع ظاہر کی ہے کہاجمل جلد قومی ٹیم کا حصہ بن جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اجمل کو جلد بالنگ ایکشن کے جائزے کے لئے کسی بیرونی بائیو مکینیکل لیباریٹری بھیجا جائے گا۔ لیباریٹری سے کلیئرنس ملنے کے بعدآئی سی سی سے اجمل کو کلیئر کرنے کے لئے ٹیسٹ لینے کی درخواست کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سعید اجمل نے اپنا بالنگ ایکشن بدلا ہے ۔ اجمل نے اپنے بالنگ ایکشن کو20ڈگری بہتر بنا لیا ہے ۔ثقلین مشتاق کو بھی توقع ہے کہ وہ مایہ ناز بالر کے بالنگ ایکشن میں مزید 10ڈگری کی بہتری لائیں گے۔ انہیں توقع ہے کہ اگلے دو ہفتوں میں اجمل اپنے بالنگ ایکشن کو مکمل طور پر آئی سی سی کی شرائط کے مطابق کر لے گا۔رپورٹس کے مطابق سعید اجمل سابق سپنر ثقلین مشتاق کی رہنمائی میں اپنے باﺅلنگ ایکشن کی درستگی کے لئے جان مار رہے ہیں۔ قریبی ذرائع کے مطابق انہوں نے فی الوقت وکٹیں لینے کے ٹارگٹ کی بجائے انٹرنیشنل کیریئر بچانے کے لئے اپنا بولنگ ایکشن تبدیل کر لیا ہے۔انہیں بتایا گیا ہے کہ اگر وہ ایک بار آئی سی سی کا ٹیسٹ کلیئر کرنے میں کامیاب ہو کر دوبارہ گراﺅنڈز میں آنے میں کامیاب ہو گئے تو مزید محنت سے وکٹیں بھی لے سکیں گے۔توقع ہے کہ ثقلین مشتاق جلد ہی سعید اجمل کے ایکشن سے متعلق اپنی رپورٹ کرکٹ بورڈ کو پیش کریں گے ۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے سابق کپتان اور موجودہ ٹی وی مبصر محمد وسیم نے سعید اجمل کو کرکٹ سے 6 ماہ کا وقفہ لینے کا مشورہ دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ان کا بولنگ ایکشن یکسر طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ بمشکل وکٹیں حاصل کر سکیں گے۔ان کو اس وقت زیادہ سے زیادہ آرام کی ضرورت ہے اور پھر جب وہ واپس آئیں تو انھیں اپنی توجہ صرف آف اسپن بولنگ پر ہی مرکوز رکھنا چاہیے، زیادہ ”دوسرا “بالز مت کریں اور نہ ہی زیادہ تیز گیند پھینکیں، اس وقت ان کی کوئی بھی ڈلیوری قانونی حد میں نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ طویل آرام کے بعد ان کی بولنگ کافی بہتر ہوجائے گی۔سابق کپتان کے مشورے اور خدشات کے برعکس ضرورت اس امر کی ہے کہ بورڈ سعید اجمل کو دوبارہ گراﺅنڈز میں لانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ نئے ٹیلنٹس کی تلاش پر توجہ مرکوز کرے۔بورڈ کو اپنے اوپر عائد اقربا پروری کے الزامات کو بھی دھونے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ مبصرین قومی ٹیم میں کراچی اور سندھ سے بااہل کھلاڑیوں کو شامل نہ کرنے پر بھی بورڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔قومی سیزن میں کراچی کے کئی نوجوان کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ تاہم سلیکشن کمیٹی کی جانب سے انہیں قومی ٹیم میں کھیلنے کے لئے نہ بلوانا ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ بورڈ کواب شفافیت پر زور دیتے ہوتے میرٹ پر سلیکشن کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا ورنہ موجودہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہے گی اور پاکستان کرکٹ کی بحالی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77839 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More