تواضع اور انکساری کا بہترین نمونہ

اسلامی تعلیم اور اقدار کا ایک اہم حصہ مسلمانوں کو تواضع و انکساری کی دعوت دیتا ہے لیکن یہ ایک تعلیم ہے جس سے ہم بیگانہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی انکساری کرے تو اسے سچ سمجھتے ہوئے انسان کو اسی نگاہ دیکھتے ہیں مثلا اگر کوئی خود کو انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاہل قرار دے تو ہم بھی اس کی علمی منزلت سے آنکھیں بند کرکے اسے ایک جاہل انسان فرض کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ اخلاقی گراوٹ یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں نے تواضع و انکساری کو تقریبا خیرباد ہی کہہ دیا ہے اور اب تو ہم اتنی طبقاتی تقسیمات میں تقسیم ہوچکے ہیں کہ گویا ہمارے ساتھ زندگی بسر کرنے والے دیگر افراد کسی دوسرے سیارے کی مخلوق اور اچھوت ہیں۔لیکن بزرگان دین نے ہمیشہ اس رویے کی مخالفت کرکے مسلمانوں کے لیے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جن پر قدم رکھنے کی صورت میں ہم نہ کبھی انسانی اقدار سے دور ہونگے نہ کبھی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہونگے۔
حضرت امام حسین جب کربلا کے دلسوز سفر پر روانہ ہوئے تو کچھ عرصہ مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا اس دوران ایک دن حضرت عبداللہ بن زیبر حضرت امام حسین سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ دیکھا کہ مکہ کے فقراء و مساکین نے حضرت امام حسین کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے اور آپ کے ساتھ باتوں میں مصروف ہیں اور حضرت امام حسین ان کی باتیں بہت توجہ سے سن رہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کی خواہش تھی کہ یہ لوگ جلدی سے اٹھ جائیں اور وہ امام حسین کے ساتھ بات چیت کریں لیکن حضرت امام حسین ان سے برابر دلجوئی کرتے اور تسلی کی باتیں کرتے رہے۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے کہا اے فرزند رسول، آپ نے ان لوگوں کو بہت دیر اپنی خدمت میں حاضر رہنےکا موقعہ دیا۔ جو کچھ ان کو دینا تھا دے دلاکر رخصت کردیتے۔

حضرت امام حسین نے فرمایا اے ابن زبیر، زمانہ کی گردش نے ان کو دل شکستہ بنادیا ہے، امراء ان کی طرف توجہ نہیں کرتے، میں نے چاہا کہ ان بے کسوں کی پوری داستان غم توجہ سے سنوں تاکہ ان کے دل کا غبار نکل جائے۔ اے ابن زبیر میں اس نانا کا نواسہ ہوں جو ہر روز نماز صبح کے بعد اصحاب صفہ کے پاس جاکر بیٹھا کرتے تھے اور چاشت کے وقت تک ان کی احوال پرسی کرے تھے۔

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ ایک روز میں حضرت امام حسین سے ملاقات کے لیے جارہا تھا کہ ایک فقیر و مسکین شخص نے اپنی حالت زار بتاتے ہوئے کہا کہ بہت مفلوک الحال ہوںمیرا لباس پارہ پارہ اور پاؤں میں نعلین تک نہیں ہے۔ حضرت جابر اسے اپنے ہمراہ لیے حضرت امام حسین کی خدمت میں آئے، امام حسین نے اس کی حالت دیکھی تو آپ کے چہرے پر بے چینی کے آثار نمودار ہوئے اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ غریب ہی غریب کے پاس بیٹھا کرتا ہے۔ اس کے بعد حضرت امام حسین نے اسے لباس اورسو درہم عنایت فرمائے۔

فقراء و مساکین کے ساتھ منکسرانہ و متواضعانہ برتاؤ ہماری ثقافت و تہذیب کا حصہ اور اعلی اسلامی و انسانی اقدار کا آئینہ ہے جسے ہمارے بزرگان دین نے بطور وراثت ہمارے سپرد کیا ہے۔

عطا الرحمن
About the Author: عطا الرحمن Read More Articles by عطا الرحمن: 25 Articles with 18353 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.