تھر پارکر اور تذلیل انسانیت

ایک دوست کی شادی میں ایک دیہات میں جانے کا اتفاق ہو ا ۔کھانا شروع ہوا۔ پہلی شفٹ مکمل ہوئی اور بچاکھچا کھانا نہ واپس لے جایا گیا ۔حسب معمول مانگنے والوں اور فقرا کی لائن لگ گئی ۔ انہوں نے ہاتھوں میں برتن اور شاپر اٹھا رکھے تھے ان کی خواہش تھی کہ جس طرح بن پڑے بچا ہوا کھانا سمیٹ لیا جائے تاکہ اپنے بچوں اوراپنے پیٹ کا ایندھن پورا کیا جاسکے۔ اب وہ لوگ صدائیں دینے لگے’’ اﷲ کے نام پر دے بابا۔ کئی دنوں سے بھوکے ہیں ‘‘۔آخر صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور ان سے ایک عورت آگے بڑھی اور جہان پرجھوئی پلیٹس اورڈشز رکھی تھی وہاں سے کھانا سمٹینا چاہا اور ابھی اس نے پہلی پلیٹ ہی اٹھائی تھی کہ اس کی کمر پر ایک زوردار لات پڑی اور وہ جوان عورت اوندھے منہ جاگری اس کے بعد یکے بعدد یگرے اس کے جسم کے مختلف حصوں کو بھی لاتیں کھانا پڑی۔ گالیاں علاوہ ازیں تھیں ۔وہ بیچاری بمشکل وہاں سے اٹھی اور بھاگ کھڑی ہوئی۔ مارنے والا اس علاقے کا زمیندار اور ڈیرہ تھا اس سے برداشت نہ ہوا کہ کوئی جھوٹا اور بچ جانے والا کھانا بھی اٹھالے۔ یہ واقعہ جنوبی پنجاب کے علاقے کا ہے جہاں پر شعورو آگہی، تعلیم و تدریس کسی حد تک عوام میں سرایت کی چکی ہیں۔ جہاں پر سکول اور کالج بھی ہیں جہاں پر جہالت کے اندھیرے دور کرنے کی مقدور بھر کوششیں بھی جاری ہیں اور جاگیردارانہ اور سرمایا دارانہ نظام کے خلاف آواز بھی اٹھ جاتی ہے وہا ں انسانیت کی تذلیل اس طرح ہوتی ہے تو پھر سندھ اور اس کے گردونواح میں کیا ہوتا ہوگا اس کا اندازہ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی سوچ عمل اور رویے سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ تھر پا ر کر کے بھوک اور پیاس سے بلکتے اور کپڑوں سے بے نیاز اپنے ووٹرز(رعایا) کے علاقے کا دورہ کرتے ہیں تو انہیں پہلے تو وہاں نیند کی دیوی آجکڑتی ہے اور وہ خواب خرگوش کے مزے لوٹتے ہیں ۔ اس کے بعدحاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے متاثرین میں ایک ایک ہزار روپیہ سکہ رائج الوقت بڑے فاخرانہ انداز میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ۔ وزیر اعلیٰ کیلئے انواع و اقسام کی ضیافت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جن میں دال ،چاول ،مرغ کڑاہی اور دیگر ڈشز شامل ہوتی ہیں جنھیں 200کلو میٹر دورمٹھی کے علاقے سے لایا جاتا ہے۔متاثرین خوش تھے کہ انہیں پر تکلف ضیافت میں بھی شامل کیا جائیگا لیکن یہ کیا ہوا کہ متاثرین تھر کے لب اور پیٹ تو تھر کی خشک سالی کی ماند خشک ہی رہے لیکن پیپلز پارٹی کے جیالوں نے کھانے کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ لیکن متاثرین میں سے کسی کو جرات نہ ہوئی کہ وہ ان کے ساتھ کھڑا ہوکر ایک لقمہ میں پیٹ میں ڈال لے ۔

نکتہ یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کی جو عرصہ دارز سے کسی مسیحا اور امداد کے منتظر تھے، مدد کی شکل میں ایک ایک ہزار روپے بھیک کی شکل میں تھما دیتے ہو ۔ اور اپنی ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہو۔اگر اس بے فیض اورلا حاصل ضیافت پر اٹھنے والے لاکھوں روپے کے اخراجات کو ان غریبوں میں تقسیم کر دیا جاتا تو کسی کا کیا جاتا ۔ مگر غریبوں کی چاندی ہو جاتی ۔لیکن اگر ہم ایسا نہ کریں تو پھر ہمیں حکمران کو ن کہے گا ۔ اور قائم علی شاہ توویسے بھی ــ"ان" ہونے کیلئے اس قسم کی حرکات کرنے میں مشہور ہیں ۔ ان کاتازہ فرمان ہے کہ تھر میں اموات غذائی قلت سے نہیں ہوئی ۔ واقعی بجا فرمایا۔تھر میں تو خوراک وافر مقدار میں موجود ہے اور پانی کے فلٹریشن پلانٹ لگے ہوئے ہیں ۔ لوگ ویسے ہی جھوٹ بولتے ہیں اور ڈرامہ کرتے ہیں۔ قائم علی شاہ! خدا کا خوف کر و۔ ویسے بھی آپ عمر کے اس حصے میں ہوجب انسان تمام لغویات چھوڑ کر اﷲ اﷲ کرنے کی فکر کرتا ہے۔ لہذا آپ بھی یہ تمام دھندے چھوڑ دیں اور کچھ آخرت کی فکر کریں۔ کیونکہ آپ کی زبان دماغ کا ساتھ نہیں دیتی ۔آپ کے دماغ میں کچھ ہوتا ہے اور زبان سے ادائیگی کچھ اور ہی ہورہی ہوتی ہے۔ تقاضائے عمر یہ حالات سب کے ساتھ پیش آتے ہیں اور بہت سی چیزیں اس عمر آؤٹ آف کنٹرول ہو جاتی ہیں ۔

رہا تھر اور سندھ کا معاملہ تو وہاں انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا ہے انڈیا کی طرح وہاں کے لوگوں کو شودر اور اچھوت سمجھا جاتا ہے ان کی یا د اور اہمیت صرف ا لیکشن کی دنوں میں آتی اور محسوس ہوتی ہے ۔علاوہ ازیں یہ لوگ اور علاقے ان وڈیروں اور جاگیرداروں کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ ان کی یہ اچھوت رعایا ہیں ۔بلکہ غلام ہیں ۔زمانہ جاہلیت میں شاید غلاموں سے بھی ایسا سلوک روانہ رکھا جاتا ہو جو کہ سندھیوں کے ساتھ ان کے اپنے علاقوں میں برتا جاتا ہے ۔لاڑ کانہ ، اوباڑو، مٹھی، سکھر، ٹنڈو اﷲ یار، نواب شاہ ،گھوٹکی وغیرہ وغیرہ یہ وہ علاقے ہیں جن کو پیپلز پارٹی اپنا قلعہ گردانتی ہے وہاں پر عوام کو تعلیم، صحت اور خوراک کی بنیا دی سہولتیں میسر نہیں۔ کالج ،سکول،ہسپتال بنیادی مرکز صحت کہیں دکھائی اور سنائی نہیں دیتے۔ لوگوں کو یہ سہولیات لینے کیلئے سینکڑوں میل مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔دوسری طرف بلاول ہاؤس بنائے جارہے ہیں۔ ان کی تزئین و آرائش کی جارہی ہے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانے والوں کو صرف اپنے لئے یہ سہولیات درکار ہیں اور عوام ہے کہ پانی کی بوند اور روٹی کے نوالے کو ترسی ہوئی ہے ۔ہاں شراب وہاں وافر مقدار میں دستیاب ہے کیونکہ وہاں پر شراب خانہ کھولنے کی 90 لائسنس پی پی کی گورنمنٹ نے جاری کئے ہیں۔ المختصربلاول کو اگر لیڈر بننا ہے تو پھر عوام کیلئے کچھ کرنا پڑے گا۔خالی تقریروں اور کھوکھلے نعروں سے کچھ نہیں ہونے والا۔یہ روایتی مشیر اور وزیر کبھی آپ کو پنپنے نہیں دے گے غیر واضح انداز میں لیگ پلنگ کا عمل جاری رہے گا۔سو عوام کو اپنے ہی علاقوں میں بنیادی سہولیات ہی فراہم کردی جائیں تاکہ یہ سسکتے بلکتے اور جنم جنم کے پیاسے اور بھوکے اپنی جسمانی و روحانی بھوک مٹاسکیں۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 212010 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More