بسم اﷲ الرحمن الرحیم
شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے یاور اور کاشف حیدرآباد جارہے تھے ،کار پوری
رفتار کے ساتھ سپر ہائی وے پر رواں دواں تھی کہ اچانک گڑگڑ، گڑگڑ کی آوازیں
آنا شروع ہو گئیں ، کاشف کے منہ سے بے اختیار نکلا یااﷲ خیر یہ کیا ہو رہا
ہے؟ یاور نے کہا لگتا ہے ٹائر پنکچر ہو گیا، گاڑی ایک طرف کی نیچے اترے
دیکھا تو یاور کا خیال درست ثابت ہوا پنکچر شدہ ٹائر دونوں کا منہ چڑا رہا
تھا ، سارے سفر کا مزا کرکرا ہو گیا۔ اسپئر ویل نکالنے کے لئے یاور نے ڈگی
کھولی تو دنیا جہاں کا کچرا پڑا ہوا تھا ۔ احتیاط سے آستین اوپر کی اور جیک
تلاش کرنے لگے ، بڑی مشکل سے دریافت ہوا ، اب نکالیں تو نکلے نہیں ، جھٹکے
سے جو نکالا تو کپڑوں کو مس کر گیااور جیک تلاش کرنے کا اسٹار مل گیا،اسپئر
ویل نکال کر کاشف کو دیا ، کاشف نے ویل تبدیل کیا تو سارے ہاتھ گندے ہو گئے
بے خیالی میں اسی گندے ہاتھوں سے اپنے منہ پر آیا ہوا پسینہ صاف کر ڈالا ،
یاور کوشیش کے باوجوداپنی ہنسی روک نہ سکا لیکن حوصلہ افزائی کے لئے بولا
آج تو تم ایک ماہر مستری لگ رہے ہو،اب دونوں کا حلیہ اور شادی کی تقریب ایک
پیج پر نہیں تھے اس لئے یاور نے موجودہ سیاستدانوں کے طرح Uٹرن لیا اور گھر
کی راہ لی ۔
یار کاشف ذرا دیکھتے جانا راستے میں کوئی پیٹرول پمپ نظر آجائے تو وہاں
پنکچر لگوالیں کیونکہ اب اگر کسی اور ٹائر نے آنکھیں پھیر لیں تو گھر جانا
بھی مشکل ہو جائے گا، تھوڑی دیر میں پٹرول پمپ آگیا ، عصر کا وقت ہو گیا
تھا پیٹرول پمپ کے ساتھ ہی مصلے پر جماعت کھڑی ہونے والی تھی ، انھوں نے
ٹائر پنکچر والے کو پکڑایا اور دونوں نماز کے لئے چلے گئے نماز کے بعد ایک
شخص فضائل اعمال سے تعلیم کر رہا تھا ، دونوں فارغ تو تھے ہی تعلیم میں
بیٹھ گئے ۔ فضائل قرآن سے اس حدیث کی تعلیم ہوئی جس کا مفہوم ہے کہ حافظ
قرآن کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی
زیادہ ہو گی ، مختصر سی تعلیم ہوئی ۔یاور اور کاشف کے علاوہ دو افراد اور
تھے تعلیم کے بعد مصافحہ کر کے سب چلے گئے ، پنکچر لگنے کے بعد یاور اور
کاشف بھی اپنی گھرکی طرف روآنہ ہو گئے ۔ رات کو جب اپنے گھر لوٹے تو کھانے
پر یاور نے اپنی بیوی سائرہ سے اس تعلیم کا تذکرہ کیا سائرہ نے سنا تو
سائرہ نے کہا کہ کیوں نا ہم بھی اپنے بیٹے کو حافظ قرآن بنالیں ، یاور نے
خوش ہو کر اثبات میں سر ہلا دیااور کہا کہ اس نیک کام میں دیر نہیں ہونی
چاہئے میں صبح ہی کوئی اچھا مدرسہ دیکھ لیتا ہوں ، بیٹے کو مدرسے میں داخل
کروایا اور دونوں میاں بیوی ،بیٹے کے حفظ کرانے میں بڑی قربانی دی ، دو سال
میں بیٹے نے حفظ مکمل کر لیا ، اس وقت ماں باپ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ
تھی ، مدرسے لینے چھوڑنے کی ذمہ داری یاور کی تھی اسے مدرسے کو قریب سے
دیکھنے کا موقعہ ملا ، حسن انتظام کو دیکھ کر یاور بڑا متاثر ہوا جس سے اس
کے دل میں مدرسہ قائم کرنے کا داعیہ پیدا ہوا ، مدرسے کی انتظامیہ سے مشورہ
کیا اور مضافات میں اپنے خرچ پر ایک مدرسہ قائم کر دیا ۔ اب یاور نہ صرف
ایک حافظ بچے کا باپ ہے بلکہ ایک مدرسہ بھی چلا رہا تھا جس میں ۳۰۰ بچے
قرآن کریم حفظ کر رہے تھے -
ایک عرصے کے بعد اسی ہائی وے والے راستے سے یاور جارہا تھا یہی عصر کا وقت
تھا یاور کو خیال آیا کہ اسی راستے کے پیٹرول پمپ پر میں نے حافظ کی فضلیت
والی حدیث سنی تھی ، اس نے گاڑی پیٹرول پمپ پر روکی تاکہ عصر کی نماز کے
بعد تعلیم کرنے والے شخص کا شکریہ ادا کر سکے۔ نماز کے بعد نہ وہ شخص نظر
آیا نہ ہی تعلیم ہوئی ، اس نے پیٹرول پمپ والے سے اس شخص کے بارے میں
دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اب یہاں نہیں آتا ، یاور نے اس کا نام ،پتہ
معلوم کیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کا نام اﷲ دتہ ہے اور وہ قریب ہی دیہات
میں رہتا ہے ، یاور نے ایک شخص سے منت کی کہ وہ مجھے وہاں لے جائے ، وہ شخص
اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا اور اﷲ دتہ کے گھر پہنچا دیا ، اﷲ دتہ گھر سے
باہر آیا تو گھبرایا کہ یہ اجنبی کون آگئے ، یاور نے اس کو یاد دلایا اور
کہا کہ آپ سے ملنے پیٹرول پمپ پر گیا تو معلوم ہوا کہ اب آپ یہاں نہیں آتے
۔خیریت تو ہے، اﷲ دتہ نے کہا تعلیم کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا نہ
کوئی بیٹھتا تھا اس لئے سوچا کہ خوامخوہ کیا مشقت اٹھانی ؟ یاور نے جب اسے
بتایا کہ میں توآپ کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا آپکی تعلیم کی وجہ سے میں نہ
صرف یہ کہ ایک حافظ بچے کا باپ ہوں بلکہ ایک مدرسہ بھی قائم کر دیا جس میں
۳۰۰ بچے حفظ کر رہے ہیں ، اﷲ دتہ یہ سن کر حیران رہ گیا اور اس کانوں میں
اپنے امیر کی یہ بات گونجنے لگی کہ دعوت الی اﷲ یہاں دو گے اور اﷲ تعالٰی
اسکے اثرات کہاں کہاں ڈالیں گے داعی جب روز قیامت اپنا نامہ اعمال دیکھے گا
تو حیران رہ جائے گا کہ اتنی نیکیاں تو ہم نے کی نہیں یہ کہاں سے آگئیں تو
کہا جائے گا کہ تمھاری دعوت پر جس نے بھی عمل کیا ان کی تمام نیکیاں تمھیں
بھی ملی ہیں۔۔۔بس اخلاص شرط ہے- |