اسرائیل ایک ایسا جارح ملک ہے جس
کی اسلام و مسلمان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس کی آئے دن کی جارحیت
سے بچوں،بوڑھوں اور خواتین سمیت کوئی فلسطینی محفوظ نہیں ہے۔ دو ماہ قبل اس
نے جس طرح فاسفورس بموں کا استعمال کر کے معصوم بچوں کا قتل عام کیا،
سکولوں، گھروں اور مساجدومدارس کو نشانہ بنایا گیااس پر آج بھی ہر مسلمان
کا دل زخموں سے چور ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلم ممالک کی جانب سے
اسرائیل کا ہاتھ روکنے کیلئے عملی طور پر مضبوط کوششیں نہیں کی گئیں کہ وہ
انبیاء کی سرزمین فلسطین پر آگ اور خون کی ہولی کیوں کھیل رہا ہے؟برسہا برس
سے سب خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ اگر کسی مسلم حکومت نے
کوئی ایک آدھ مذمتی بیان دیا بھی تو وہ اسی پر اکتفا کر بیٹھتے ہیں اور
سمجھتے ہیں کہ ریاست کا حق ادا ہو گیا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے۔
سوشل میڈیا پر معصوم بچوں کے قتل و خون کی ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں
کہ جنہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ امریکہ و یورپ کا میڈیا تو صیہونی
مظالم پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے اور اصل حقائق دنیا تک پہنچنے نہیں دیے
جارہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم میڈیا کی طرف سے بھی اس طرح کا
بھرپور کردار دیکھنے میں نہیں آیا جو انہیں ادا کرنا چاہیے ۔اسرائیلی
بمباری سے اب تک ہزاروں بچے، بوڑھے اور جوان شہید ہو چکے ہیں مگر اس کی
بربریت رکنے میں نہیں آرہی۔ تمامتر عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیلی
فوج جب چاہتی ہے غزہ میں گھس کر زمینی کاروائی کا آغاز کر دیتی ہے کوئی اسے
پوچھنے والا نہیں ہے۔فلسطین کی طرح اسرائیل پاکستان کا بھی بدترین دشمن ہے
اوردشمنان اسلام کے ساتھ مل کر اس نے ہمیشہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے
گئے ملک کو نقصانات سے دوچار کرنے کی کوشش کی ہے اور تخریب کاری و دہشت
گردی پروان چڑھانے میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو اسرائیل کی مکمل پشت
پناہی حاصل رہی ہے۔اس نے بہت کوششیں کی ہیں کہ کسی طرح پاکستان اسرائیل کو
تسلیم کرلے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ذریعہ پاکستانی
حکومتوں پر دباؤ بھی ڈالا جاتا رہا لیکن غاصب اسرائیل کے خلاف نفرت چونکہ
ہر پاکستانی کے دل میں نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ اس نفرت کو اپنے ایمان کا
حصہ سمجھتا ہے اس لئے وہ ان سازشوں میں آج تک کامیاب نہیں ہو سکا۔ اپنے
مذموم منصوبوں میں ناکامی پر اب وہ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر وار کرنے
کی کوششیں کر رہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں
مختلف ممالک کی طالبات کی جانب سے اسرائیلی مصنوعات کا سٹال لگانے کا جو
واقعہ پیش آیا ہے وہ انہی سازشوں کا حصہ ہے۔فلسطینی اور پاکستانی طلباء کا
اس موقع پر احتجاج فطری امر تھاتاہم اس موقع پر یونیورسٹی حکام کی طرف سے
فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے اس پروگرام کو بند کروادینا اور واقعہ میں ملوث
ذمہ داران کو معطل کرنے کا فیصلہ خوش آئند اور بروقت اقدام ہے۔ اس واقعہ کی
ہر کسی نے مذمت کی ہے ۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ
طالبات نے یہ سٹال یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر لگایا تھا اور اس
پروگرام کے شروع میں غاصب اسرائیل کے خلاف کئی قراردادیں منظور کی گئی تھیں
جن میں غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی کھلے الفاظ میں مذمت کی گئی
تھی۔اسلامک یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس امر کی بھی وضاحت کی کہ یونیورسٹی
کے صدر ڈاکٹر احمد یوسف الدرویش نے اسرائیلی مصنوعات کے حوالہ سے لگائے گئے
سٹال کا دورہ نہیں کیا۔ اسی طرح یونیورسٹی حکام کی جانب سے ڈیپارٹمنٹ کے
ڈین، سٹوڈنٹ ایڈوائزر اور ایک خاتون لیکچرر کو بھی معطل کر کے اعلیٰ سطحی
تحقیقاتی کمیٹی بناد ی گئی ہے جس میں ایک جج اور ایچ ای سی کے ڈائریکٹر
شامل ہیں جو دو ہفتے میں سفارشات پیش کریں گے جس کی روشنی میں مزید کاروائی
کی جائے گی۔ بعض لوگ اس افسوسناک واقعہ کی بنیاد پر ذاتی مفادات پر مبنی
سیاست کر رہے ہیں۔ اس بات سے تو کوئی پاکستانی انکار نہیں کر سکتا کہ جو
افرادطالبات سے اسرائیلی مصنوعات کا سٹال لگوانے میں ملوث ہیں ان کے خلاف
کاروائی ہونی چاہیے مگر یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر احمد یوسف الدرویش جیسے
ایماندار اور ذہین شخص کے خلاف ایسی باتیں جو حقائق کے خلاف ہیں ‘کرنا درست
نہیں ہے۔ ان کے دور میں یونیورسٹی کا نظام پہلے سے بہت بہتر طریقہ سے چل
رہا ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا دراصل
اسلامی یونیورسٹی کے خلاف پروپیگنڈا ہے جسے ہر صورت ناکام بنانا ضروری ہے۔
اگر اس پورے واقعہ کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ریکٹر اسلامی یونیورسٹی
معصوم یاسین کی مقامی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں کی گئی یہ باتیں درست
محسوس ہوتی ہیں کہ’’یو ، این ڈیبیٹ کانٹسٹ ’’کے عنوان سے پاکستان کی تمام
یونیورسٹیوں میں ایسے پروگراموں کا انعقادکیاجاتا ہے ۔ اکیڈمک ڈسکشن میں
طلباء کا ہر گروپ اپنی اسائنمنٹ کے مطابق جس ملک کے متعلق اسے کہا جاتا ہے
وہ تیاری کر کے گفتگو کرتا ہے۔ ایسے ہی چند طلباء کو مذکورہ پروگرام کے
سلسلہ میں اسرائیل گروپ ملا جس کی غلطی یہ تھی کہ اس نے بغیر اجازت
اسرائیلی مصنوعات کا ماڈل سٹال بھی ساتھ لگا دیا کہ شاید اس طرح انہیں
زیادہ نمبر مل جائیں گے۔اگر یہ بات واقعی اسی طرح ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ
جب یہ سٹال لگایا جارہا تھا تو وہاں موجود یونیورسٹی ذمہ داران کی طرف سے
انہیں سمجھایا جانا چاہیے تھا کہ آپ نے صرف ڈسکشن کرنی ہے‘ اس حوالہ سے
سٹال لگانا درست نہیں اور نہ ہی اسرائیل جیسے غاصب ملک کی مصنوعات کے حوالہ
سے پاکستان کی کسی یونیورسٹی یا ادارے میں اس عمل کو برداشت کیا جاسکتا ہے‘
مگر افسوس کہ وہاں موجود عہدیداران نے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں
کی جس کی وجہ سے یہ سارا معاملہ کھڑا ہوا۔ ریکٹر اسلامی یونیورسٹی معصوم
یٰسین کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ اسلامی یونیورسٹی ایک ذمہ دار ادارہ ہے
اوروہ کسی صور ت اس بات کا تصور نہیں کرسکتا کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسے
کسی عمل کا حصہ بنے جس سے اس ملک کے لوگوں کی دل آزاری ہو یا کسی اسلامی
ملک کے احساسات و جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ لڑکیوں نے جو غلطی کی ہے اس کی او
آئی سی چارٹر، ملک اور یونیورسٹی کی پالیسی اجازت نہیں دیتی۔تحقیقاتی رپورٹ
آئے گی تو پتہ چلے گا کہ کیا یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت تو نہیں کیا گیا ؟اور
پھرجب رپورٹ آئے گی تو اس کی روشنی میں ذمہ داران کو سزا دی جائے گی تاکہ
مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔بہرحال اسلامی یونیورسٹی میں
پیش آنے والا واقعہ معمولی نہیں ہے۔ ڈاکٹر احمد یوسف درویش صاحب کو خود اس
سارے تحقیقاتی عمل کی نگرانی کرنی چاہیے اور اسرائیلی مصنوعات کا سٹال
لگانے میں ملوث افراد کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے ۔ بین الاقوامی
اسلامی یونیورسٹی پاکستان کا ایک اہم تعلیمی ادارہ ہے اس کی ساکھ مجروح
کرنے کی کوششیں کرنے والوں کو سخت سزا ملنا انتہائی ضروری ہے۔ |