WWOP اور آزاد کشمیر کے معذور بچے

حضرت شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ سفر میں تھے اور ان کے ساتھ ایک درویش بزرگ بھی تھے سفر چونکہ پیدل تھا خشکی کاسارا راستہ اکھٹے طے ہوا جب دریا پر پہنچے تو کشتی والے کو کرایہ دینے کیلئے رقم نہ تھی میرے پاس بمشکل چند سکے تھے جن سے میرا کرایہ اداہوا مجھ کو بڑا غم ہوا چونکہ بزرگ کنارے پر کھڑے تھے اورمیں کشتی میں تھا میری آنکھیں نمناک ہوگئیں یہ دیکھ کر بزرگ بولے کہ تم فکر نہ کرو میں پہنچ جاؤ ں گا یہ کہہ کر انہوں نے اپنا مصلہ پانی پر یوں بھی بچھا دیا جیسے خشکی پر میں دیکھ کر لرز اُٹھا جب میں صبح کنارے پر پہنچا تو بزرگ کو وہاں موجود پاکر حیران رہ گیا بزرگ درویش میری کیفیت جان گئے اور بولے تو کشتی سے آیا اور مجھے رب نے پار لگایا جس طرح ماں بچے کی حفاظت آگ سے کرتی ہے اس طرح رب اپنے محبوب بندوں کی خفاظت خود فرماتے ہیں ان کیلئے آگ بھی ٹھنڈی ہوجاتی ہے ۔

قارئین پاکستان اور آزادکشمیر میں اگرچہ ہم زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے اسلام اسلام کی باتیں بھی بہت کرتے ہیں اور انسانی حقوق پر گفتگو کرتے ہوئے بھی ہم سے بڑا چمپئن کہیں اور دکھائی بھی نہیں دیتا اور اسی طریقہ سے جب ہم یورپ پر تنقید کی توپیں چلانا شروع کرتے ہیں تو ایسی ایسی بات اُن کے متعلق ہم اپنے حافظوں کی ٹوکریوں سے برآمد کرتے ہیں کہ ہمیں بلامبالغہ ’’جادو گر یا بازی گر ‘‘ کاخطاب دیاجاسکتاہے حالانکہ یہ یورپ اور دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک ہی ہیں کہ جہاں پر احترام آدمیت کیاجاتاہے اور جانوروں تک کے حقوق متعین ہیں آج بھی بی بی سی ،سی این این ،سکائی نیوز ،الجزیرہ سے لے کر تمام بین الاقوامی میڈیا جانور وں اور درختوں کے متعلق ایسی ایسی رپورٹس پیش کرتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے یہ ایسے ممالک ہیں کہ جہاں انسان نے تجربے کی بھٹی سے گزر کر یہ سیکھا اور سمجھا کہ کیا کیا چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق مناسب قانون ساز ی بھی ضروری ہے اور سوسائٹی کو بھی شعور اور آگاہی فراہم کرنا اہم ہے یہی وجہ ہے کہ ان معاشروں میں اگر نارمل انسانوں کو ریاست نارمل حقوق دیتی ہے تو وہیں پر سپیشل انسانوں یا معذور انسانوں کیلئے انتہائی سپیشل قسم کی مراعات بھی متعارف کروائی گئی ہیں جن کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ان ممالک میں قدرت کی طرف سے آزمائش اور امتحان کے طور پر آنے والی معذوری کسی بھی قسم کی محتاجی کاسبب نہیں بنتی اور ایک معذور انسان بھی نارمل انسانوں کے ساتھ معمول کے مطابق زندگی بسر کرتاہے شاید یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ بھی ان معاشروں پر ہم سے زیادہ مہربان ہے کیونکہ تمام مخلوق کو اﷲ کاکنبہ کہا جاتاہے اور جو بھی ریاست اﷲ کے کنبے کی نگہداشت بہتر انداز میں کرتی ہے اﷲ بھی ان پر مہربانی فرماتاہے ۔

قارئین یہاں ہم چند ایک آنکھیں کھول دینے والے حقائق آپ کے سامنے رکھے دیتے ہیں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور آزادکشمیر میں 14لاکھ سے زائد معذور بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں پاکستان اور آزادکشمیر بھر میں صرف 4فیصد معذور بچوں کو سکول تک رسائی حاصل ہے جس کی سب سے بڑی وجہ نقل وحرکت کی سہولیات کی عدم فراہمی ہے ہمارے آج کے موضوع میں موجود ڈبلیو ڈبلیو او پی یعنی وومن ویلفیئر آرگنائزیشن آف پونچھ اور علم آئیڈیاز کی رپورٹ کی مطابق ریسرچ کرنے کے بعد یہ سامنے آیا ہے کہ آزادکشمیر میں تمام سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں صرف 9.7فیصد سکولوں میں معذور بچوں کی نقل وحرکت کاانتظام موجود ہے ان معذور بچوں کی آمدورفت کیلئے کسی بھی ٹرانسپورٹ سروس میں سہولیات موجود نہیں ہیں ان 9.7فیصد سکولوں میں حالات مزید بگڑ کر سامنے آتے ہیں اور پتہ چلتاہے کہ ان سکولوں میں بھی صرف 31.61فیصد کلاس رومز میں جسمانی معذور بچوں کیلئے سپیشل کرسیوں کاانتظام موجود ہے اسی طرح صرف 6.52فیصد ایسے کشادہ بیت الخلاء موجود ہیں جنہیں یہ معذور بچے استعمال کرسکتے ہیں مجموعی طور پر تمام سکولوں میں صرف 16.22فیصد سڑک کے ساتھ منسلک ہیں معذور بچوں کے52فیصد والدین کے مطابق ان سپیشل بچوں کو سکول نہ بھیجنے کی سب سے بڑی وجہ اساتذہ اور ہمارے ’’اسلامی معاشرے ‘‘ کامنفی رویہ اور سہولیات کی عدم فراہمی ہے ۔

قارئین یہاں ہم بتاتے چلیں کہ انہی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو اوپی یعنی وومن ویلفیئر آرگنائزیشن آف پونچھ نے ایک خصوصی پراجیکٹ شروع کیا جس کے تحت آزادکشمیر کے تمام دس اضلاع میں وومن ویلفیئر آرگنائزیشن آف پونچھ کی تنظیمات قائم کی گئیں اور ڈسٹرکٹ فورمز میں شعبہ تعلیم ،صحت ،مقننہ ،سول سوسائٹی سمیت ہر شعبے کے لوگوں کو شامل کرکے انہیں اس حوالے سے گفتگو کرنے کاپلیٹ فارم مہیا کیاگیا اس تمام محنت اور کاوش کے بعد جب تمام سوسائٹی میں شعور بڑھا تو ایک ڈیمانڈ ڈرافٹ سامنے آیا جس کو حکومتی سطح پر آئین اور قانون کاحصہ بنانے کیلئے قانون ساز اسمبلی میں بیٹھنے والے حکومت واپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین کو ورکشاپ کاحصہ بنایاگیا اور مشاورتی اجلاس منعقد کیے گئے میرپور ،مظفرآباد اورپونچھ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں یہ تمام اجلاس منعقد ہو بھی چکے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں عوام نے آگاہی حاصل کرنے کے بعد Suggestion Lettersلکھے اور ممبران قانون ساز اسمبلی کو باور کرایا کہ یہ بات انتہائی اہم اور ضروری ہے کہ آزادکشمیر بھر میں آئندہ جتنے بھی تعلیمی ادارے بنائے جائیں وہاں ان سپیشل بچوں کو نارمل بچوں کے ساتھ تعلیم دلوانے کیلئے قانون سازی بھی کی جائے اوران اداروں میں بین الاقوامی معیار اورہدایات کے مطابق سہولیات بھی فراہم کی جائیں 2008-9کی تعلیمی پالیسی سے لے کر ماضی کی تمام تعلیمی پالیسیاں خوشی قسمتی سے بن تو جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل نہیں ہوتا یوکے ایڈ اور علم آئیڈیا اس پراجیکٹ کے بین القوامی ڈونر ہیں اور دسمبر 2013سے شروع ہونے والا یہ پراجیکٹ دسمبر 2014میں مکمل ہوجائیگا وومن ویلفیئر آرگنائزیشن آف پونچھ کی چیئرپرسن محترمہ نجمہ شکور گولڈ میڈلسٹ و صدارتی ایوارڈیافتہ سوشل ورکر ہیں اور ان کے ہمراہ اس ٹیم میں محترمہ انیقہ گردیزی ،مریم گردیزی ،عدنان اکرم اور دیگر دوست شامل ہیں ۔
قارئین یہاں بقول چچا غالب ہم یہ کہتے چلیں
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یارب!اسے قسمت میں عُدو کی
اچھّا ہے سرانگشت حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اِک بُوند لہو کی
کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے؟
یاں تو کوئی سُنتا نہیں فریاد کسو کی
دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی
صد حیف وہ ناکام کہ اک عُمر سے غالب
حسرت میں رہے اک بُتِ عربدہ جُو کی؂

قارئین یہاں ہم یہ گزارش کرتے چلیں کہ وومن ویلفیئر آرگنائزیشن آف پونچھ کی یہ کاوش آزادکشمیر میں ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طور سامنے آئی ہے سوچنے سے تعلق اس بات کا ہے کہ آخر کیوں بین الاقوامی این جی اوز ہی انسانی حقوق کے حوالے سے ایسے پراجیکٹ فنڈ کرتے ہیں جن کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے ہم مسلمان تھکتے نہیں ہیں۔ کیا یہ معذور بچے میرے اور آپ کے بچے نہیں ہیں۔ اور کیا اگر میرے اور آپ کے بچے نارمل ہیں تو کیا ان بچوں کی جگہ سپیشل بچے ایک آزمائش کے طور پر ہمیں عنایت نہیں ہو سکتے تھے۔ وومن ویلفیئر آرگنائزیشن آف پونچھ کی یہ کاوش قابل ستائش اور قابل تعریف ہے ہمیں امید ہے کہ آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی جلد از جلد اس حوالے سے یکساں تعلیم کو قانون کا حصہ بنائے گی اور آئندہ سو فیصد معذور کشمیری بچے نارمل بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کریں گے۔

قارئین محترمہ نجمہ شکور ،انیقہ گردیزی ،مریم گردیزی ،احسن خان اور ڈبلیو ڈبلیو او پی کی پوری ٹیم کو ہم اس لحاظ سے بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں یہ تمام کوشش کر رہے ہیں کہ نا صر ف معاشرے کے معذور بچوں کو ان کا جائز مقام دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک کی 53%آباد ی یعنی خواتین کو معاشی او ر تعلیمی لحاظ سے ترقی دینے کے لیے عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں یہاں ہم یہ ضرورعرض کریں گے کہ ہماری سیاسی قیادت اگر قوم کے حال پر تھوڑا سا رحم فرماتے ہوئے ان جیسی شخصیات اور تنظیموں کو مدد فراہم کرے تو بہت کم وقت میں بہت سے مقاصد کا حصول ممکن ہے یورپین ممالک اور امریکہ کو گالیاں دینے سے نہ تو کوئی ثواب ہوتا ہے اور نا ہی ان کی ترقی کی رفتار رک سکتی ہے اور ہماری تنزلی میں کوئی کمی آسکتی ہے علم و حکمت کی بات جہاں سے بھی ملے اسے تھام لینا چاہیے کیونکہ علم مومن کی گم شدہ میراث ٹھہرائی گئی ہے اگر علم حاصل کرنے کے لیے چین تک کے سفر کی صعوبت برداشت کرنے کو بھی باعث فضیلت قرار دیا گیا ہے اس معاشرے میں ہم نے غور کرنا ہے کہ ہمارا مجموعی رویہ منفی کیوں ہے اور آخر کیوں ہم مثبت پہلوؤں کی طر ف توجہ نہیں دیتے سوچ کا رخ تھوڑا سا تبدیل کرنے سے زندگی میں انقلابی تبدیلیاں آسکتی ہیں یہ اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان ہی ہے جہاں پر عورت کو ونی کر دیا جاتا ہے ،عورت کو جائیداد بچانے کے لیے نعوذ بااﷲ قرآن سے شادی کرنے جیسا جاہلانہ فعل کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور عزت کے نام پر ہر سال سینکڑوں بچیوں کا ہونے والا قتل آخر کس نوعیت کی غیرت کی عکاسی کر رہا ہے منافقت کی انتہا یہ ہے کہ بیٹا اگر معاشرے میں بد معاشی کرے تو اس پر وہ قدغن نہیں لگائی جاتی جو بیٹی پر کچھ بھی نہ کرنے پر بھی عائد کی جاتی ہیں ۔آزادکشمیر کا معاشرہ اس لحا ظ سے خوبصورت کلچر کی عکاسی کرتا ہے کہ یہاں کا سواد اعظم خواتین کو عزت دیتا ہے اور یہاں پر تعلیم کی شرح بعض علاقوں میں حیرت انگیز طورپر بچیوں میں سو فیصد ہے اس سے ہم امید کر سکتے ہیں کہ آزادکشمیر کے خطے کو ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طو ر پر منتخب کیا جا سکتا ہے جہاں پر یہ تمام علمی اور تحقیقی نوعیت کے تجربات کیے جاسکتے ہیں او ر بعد ازاں ان تجربات کی روشنی میں اخذ کیے جانے والے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے پورے پاکستان کی پلاننگ بھی کی جا سکتی ہے آزادکشمیر کے صدر حاجی سردار محمد یعقوب خان نے آج سے دو سال قبل خواتین پر تشدد کرنے اور ان کے ساتھ نا مناسب برتاؤ پر ایک خصوصی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے مطابق عورتوں پر تشدد پر چودہ سال قید با مشقت بھی دی جا سکتی ہے اسی طرح آزادکشمیر کے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں انتہائی قابل اور پڑھی لکھی خاتون وزیر محترمہ فرزانہ یعقوب موجود ہیں اور وہ بھی شب و روز کوشش کر رہی ہیں کہ مختلف این جی اوز اور سوسائٹی کے تعاون سے خواتین کو ترقی دی جائے ۔یہاں ہم ایک آنکھوں دیکھا واقعہ بھی آپ کو بتاتے چلیں آج سے تقریباً ایک ماہ قبل آزادکشمیر کے تمام دس اضلاع کی ضلعی کو آرڈینشن کونسل برائے این جی اوز کا ایک خصوصی اجلاس آزادکشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں منعقد ہوا اس اجلاس میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے دائریکٹر جنرل سردار لیاقت بھی موجود تھے جب سٹیٹ این جی اوز کوآرڈینیشن کونسل مرتب کرنے پر تجاویز طلب کی جا رہی تھیں تو ایک مرحلے پر ڈبلیو ڈبلیو او پی کی چیئرپرسن محترمہ نجمہ شکور نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور واک آؤٹ کر گئی ان کا اعتراز صرف اتنا تھا کہ ایک تو اس مرکزی ریاستی سطح کی تنظیم میں کسی بھی معذور کو نمائندگی نہیں دی جا رہی اور دوسرا ملک کی نصف سے زائد آبادی یعنی خواتین کو یکساں شرح پر اس کونسل میں شامل نہیں کیا جا رہا راقم نے محترمہ نجمہ شکور سے درخواست کر کے بائیکاٹ ختم کرنے کی استدعا کی جو انہوں نے قبول کر لی لیکن ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ ان کا یہ اعتراض سو فیصد درست تھا اور یقینا ہماری ریاست کے تمام ستونوں او ر سول سوسائٹی کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اگر ہم سماجی ،معاشی اور معاشرتی سطح پر ترقی کا سفر شروع کرنا چاہتے ہیں تو معاشرے کے تمام طبقات بشمول خواتین اور معذور افراد کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا اس کے بغیر ترقی کا خواب ،خواب ہی رہے گا ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
بچے نے اپنی ماں سے پوچھا
’’ امی جان کیا ہمارے ماموں چوہے ہیں ‘‘
ماں نے حیرانگی سے جواب دیا
’’ نہیں بیٹا مگر یہ تم نے کیوں پوچھا ‘‘
بچے نے معصومیت سے کہا
’’ میں جب بھی ان سے بات کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں چپ رہو میں بل بنا رہا ہوں ‘‘

قارئین ہماری حکومتوں میں تشریف رکھنے والے معزز اراکین اسمبلی بھی ہر وقت بل بناتے رہتے ہیں لیکن ان کی محنتوں کا فیض عوام تک نہیں پہنچتا ۔اﷲ کرے کہ یہ لوگ حقیقی سطح پر کچھ کام کرنا شروع کر دیں اور ڈبلیو ڈبلیو او پی اور محترمہ نجمہ شکور جیسے لوگوں اور تنظیموں کو اپنا عملی اور علمی کام کرنے میں معاونت فراہم کریں ۔آمین ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374618 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More