سفرِ حج( ہشتم)
(Mir Afsar Aman, Karachi)
قیام مکہ مکرمہ
مزدلفہ میں سڑک کے ایک کنارے بیٹھنے کے بعد ہمارے گروپ نے ایک ایڈوانس
پارٹی آگے بھیجی گئی تاکہ مزدلفہ کی پراپر جگہ معلوم کریں۔واپسی پرایڈوانس
پارٹی نے بتایا کہ یہاں تمام جگہ مزدلفہ ہے با لکل فکر نہ کریں۔ گروپ نے
جمرات کو مارنے کے لیے کنکریاں جمع کرنی شروع کیں۔ہمارے بیٹے نے بھی تین دن
کے لیے ۴۹ کے حساب دو بندوں، یعنی اپنی اور ہماری۹۸ کنکریاں جمع کیں اور
کچھ اضافی بھی جمع کر لیں۔ گروپ کے کچھ لوگوں نے بھی کنکریاں جمع کر لیں
اور کچھ نے فجر کی نماز کے بعد جمع کیں۔رات ۱۰ بجے پہنچنے پر گروپ نے مغرب
اور عشاء کی نمازین ملا کر ادا کیں اوردعائیں مانگیں اور چٹایاں بچھا کر
کھلے آسمان کے نیچے سو گئے۔موسم خوشگوار تھا زیادہ سردی نہیں تھی۔ ہم فجر
کی نماز کے بعد منیٰ کو روانہ ہو گئے۔ہم ریلوے اسٹیشن کے قریب تھے۔ اچھا
ہوتا کہ واپس ریلوے کے ذریعے واپس منیٰ جاتے جو با لکل قریب بھی تھا مگر
ایک ساتھی کے اسرار پر پیدل ہی چل پڑے۔یہ سفرِ حج زندگی بھر یاد رہے گا۔رش
کی وجہ سے ہمارا قافلہ رینگ رینگ کر واپس منیٰ کی جانب چل رہا تھا۔کچھ
قافلے ہماری مخالف سمت میں جمرات کو کنکریاں مارنے چل رہے تھے۔ہم نے
پاکستان میں کافی مدت پہلے حاجی حضرات سے سن رکھا تھاکہ افریقی ممالک کے
حاجی حضرات جو تندرست اور تواناہوتے ہیں اور آگے نکلنے میں جلدی کرتے ہیں
اور ساتھ ہی ساتھ طاقت بھی استعمال کرتے ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرنا ورنہ
کچل دیے جاؤگے۔ وہی ہوا تقریباًآٹھ سے دس افریقی حاجی حضرات کا جتھا جو ایک
کے ساتھ ایک جوڑا ہوا تھاہمارے سامنے مقابل میں آیااور آگے بڑھنے لگا۔
انہوں نے طاقت سے ہمیں ایک سائیڈ پر دکھیل دیا۔ ہماری ویل چیئر ایک سائیڈ
پر دب گئی اس کے ویل چیئر کے پہییے کا ربر باہر نکل گیا۔ کچھ دیر بعداﷲ اﷲ
کر کے ہم اس رش سے باہر نکلے۔سڑک عبور کرنے لگے تو اس پر بسوں کی ایک کے
پیچھے ایک لین لگی ہوئی ہے۔ بسیں رینگ رینگ کر چل رہی تھیں۔گرمی کی شدت اور
بسوں کے دھوئیں نے سانس میں گھٹن پیدا کر دی۔ایک ہو کا عالم تھا پتہ نہیں
چل رہا تھا کہ کس سمت جانا۔ایک جگہ ایک خاتون بے ہوش پڑی تھی۔ایسے ہی تین
اور حاجی بھی دیکھے جو بے حوش پڑے تھے۔گروپ کے لوگ جو ایک گائیڈ جو چھتری
اوپر کئے ہوئے آگے آگے چل رہا تھا کے پیچھے چل رہے تھے ۔گروپ کے تمام لوگ
ایک ایک، دو دو،اور تین تین ٹولیوں میں بٹ کر آگے پڑھنے لگے۔ہمارے بیٹے نے
ہمیں ایک طرف بیٹھا دیا اور ویل چیئر کے پہیے پر ربڑ چڑھانے لگا ۔بڑی مشکل
سے الٹی سیدھی ربڑ چڑھی۔ ہمارابیٹاہمیں وہیں چھوڑ کر آگے راستہ تلاش کرنے
گیا۔ ہم ایک چٹائی پر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہمارا بیٹا واپس ایک دوست کے
ساتھ آیا۔ معلوم ہوا کہ ایک اور سخت مرحلہ عبور کرنا ہے جنگلے میں ایک تنگ
راستہ ہے جس میں لوگ مخالف سمت سے بھی گزر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہمارے بیٹے
نے جو اپنے کیمپ سے ہو کر آئے اپنے دوست کو بھی ساتھ لائے کیونکہ تنگ راستے
سے ہمیں پارنکالنا ہے۔یہاں بھی وہی ہواہمارے دونوں طرف یہ دوست تھے اور تنگ
راستے سے نکل رہے تھے ایک دفعہ پھر ہم بھیڑ میں پھنس گئے۔ ہماری ویل چیئر
کو پھر ایک طرف دکھیل دیا گیا۔ویل چیئر کے پہیہ سے دوبارہ ربڑ نکل گئی جسے
بعد میں کیمپ کے اندر بیٹھ کر درست کیا گیا۔یہ بھی بعد میں پتہ چلا کہ اصل
میں جو جنگلے کے پاس ہم بیٹھے تھے وہ جگہ ہمار ے کیمپ نمبر ۷۵ کے قریب ہی
تھی مگر گھبراہٹ اور پریشانی میں ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اﷲ اﷲ کر کے
ہم اپنے کیمپ میں پہنچے اور فوراً بستر پر لیٹ گئے۔ یہ ساری دشواری عازمین
کی وجہ سے تھی کیونکہ وہ جو راستے انتظامیہ نے بنائے تھے ان کو فالو نہیں
کیا گیا اور شارٹ کٹ کے ذریعے منزل پر پہنچنے کی کوشش کی گئی۔۱۰ ؍ذی الحجہ
کو بعد نماز ظہرہمارا بیٹا اوردوسرے ساتھی جمرات کو کنکریاں مارنے گئے۔
معذوری کی وجہ سے ہم نے اپنے بیٹے کو کنکریاں مارنے کے لیے اپنا خلیفہ مقرر
کیا تھا جس کی معزور افراد کے لیے علماء نے گنجائش نکالی ہوئی ہے۔ اپنی
کنکریاں مارنے کے بعد اسے ہماری کنکریاں مارنی ہیں۔جو اس نے ہماری طرف سے
جمرات کو ماریں۔ہر کنکری مارنے پر لوگ تکبیر بلند کرتے ہیں۔ہمارے بیٹے نے
اپنی ہر کنکری پر تکبیر بلند کی۔ اور یہی عمل ہماری ہر کنکری پر بھی
دوہرایا ۔یہ عمل ایک دن صرف بڑے جمرات کو کنکریاں مارناتھا۔پھر دوسرے دن
تینوں جمرات، پہلے چھوٹے،پھر درمیانی اور آخر میں بڑے جمرات کو کنکریاں
مارنا اور تیسرے دن اسی طرح پہلے چھوٹے جمرات کو، پھر درمیانے جمرات کو اور
آخر میں بڑے جمرات کو کنکریاں مارنے پر مکمل ہوا۔یہی عمل ہمارے خلیفہ ہمارے
بیٹے نے ہمارے لیے بھی کیا جس سے ہمارے بیٹے کے ساتھ ساتھ ہماراعمل بھی
مکمل ہو گیا۔ گورنمنٹ اسکیم کے تحت گروپ کے ساتھ ہم نے قربانی کے پیسے مسلم
کمرشل بنک میں جمع کروائے تھے۔ہمیں معلم کی طرف سے قربانی کی سلپ بھی مل
گئی تھی اس لیے ہماری قربانی کرنا گورنمنٹ کے ذمہ تھا جو گورنمنٹ نے پوری
کردی یعنی ہماری طرف سے قربانی کر دی۔اس کے بعد ہم نے حلق کروایا یعنی سر
کے بال استرے سے صاف کروائے۔ہمارے کیمپ نمبر ۷۵ کے باہر میں سڑک پرچند
افریقی ممالک کے حجام لوگوں کے حلق کر رہے تھے ہم نے بھی ۱۰ ریال دے کر اسی
ایک افریقی ملک کے حجام سے حلق کروایا۔ ہمارے بیٹے نے بھی پہلے اپناحلق
حجام سے کروایا اور بعد میں اپنے ایک دوست کا حلق کیا۔ مجھے بھی ہمارا بیٹا
حلق کروانے کا کہہ رہا تھا مگر ڈر سے کہ کہیں استر غلط نہ چل جائے ہم نے
اپنا حلق حجام سے کروایا۔اب ہم احرام کی پابندیوں سے آذاد ہو گئے اس کے بعد
ہم نے احرام اتار دیا اور نہا کر عام کپڑے پہن لیے۔یہی عمل ہمارے بیٹے نے
بھی کیا۔کچھ گروپ کے ساتھیوں نے بھی یہی عمل کیا۔ جبکہ کچھ ساتھیوں نے
چوتھے دن بھی کنکریاں مارے کا پروگرام ترتیب دے رکھا تھا اس لیے انہوں نے
نہ حلق کیا نہ احرام اتارا۔ وہ یہ عمل چوتھے دن کنکریاں مارنے کے بعد کریں
گے۔ ۱۰؍ ذی ا لحجہ طواف افاضہ؍زیارت کے لیے ہم کیمپ نمبر ۷۵ سے باہر نکل
آئے کیمپ کے سامنے والی شاہراہ عبور کی۔ ویل چیئر کے ساتھ لفٹ میں سوار ہو
گئے لفٹ سے نکل کر سامنے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ ٹرین کے پلیٹ فارم پر
پہنچتے ہی جلد ٹرین آ گئی ہم ٹریں پر سوار ہو کرجمرات تک گئے۔ جمرات سے
شاہراہ عبدالعزیز کے ذریعے پیدل خانہ کعبہ گئے۔شاہراہ عبدالعزیز کے آخر میں
سرنگ ہے جس میں سے گذر کر بیت اﷲ کے قریب پہنچے تھے۔ پاکستان سے آنے والے
حجاج کا حج تمتع تھا اس لیے پہلے طواف افاضہ کیا ۔ طواف شروع کرنے کی دعا
’’ شروع کرتا ہوں اﷲ کے نام سے، اﷲ سب سے بڑا ہے کوئی معبود نہیں سوائے اﷲ
کے اورتمام تعریف اﷲ ہی کے لیے ہے‘‘ پھر طواف کی دعا کی’’پاک ہے اﷲ اور
تمام تعریف اﷲ کے لیے ہے اور کوئی معبود نہیں اﷲ کے اور اﷲ سب سے بڑا ہے
اور نہیں طاقت نیکی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی سوائے بہت شان والے اﷲ کی
مدد کی‘‘اس کے علاوہ جو بھی دعائیں یاد تھیں با ربار مانگیں۔ اس کے بعد
صفاو مروہ کی سعی کی۔ صفا پر پہنچ کر دعا کی۔’’اے اﷲ میں آپ کی رضا کے لیے
صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا ارادہ کرتا ہوں آپ اس کو میرے لیے آسان فرما
دیجئے اور قبول فرما لیجئے‘‘خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے دعا کی۔’’بے شک
صفااور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘ ۔صفا سے مروہ کی طرف چلتے ہوئے ہرے
ستوں کے درمیان دوڑ کر چلے۔اور دعا کی ’’رب اغفر وار حم و انک انت الا عز
الاکرم‘‘مروہ پہنچ کر قبلہ رخ ہو کر دعا کی اس طرح سات پھیرے پورے کیے۔سعی
پوری ہونے پر قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔ اور نفل ادا کیے۔حلق ہم نے پہلے ہی
کروا لیا تھا۔اس کے بعد ہمارا حج مکمل ہو گیا۔شاہراہ عبدالعزیز والی سرنگ
پیدل کراس کر کے ایک کمرشل علاقے میں پہنچ گئے۔ وہاں سڑک کے درمیان ہم نے
پڑاؤ ڈالا۔ہمارا بیٹا اور ایک دوسرا ساتھ کھانا لینے گئے۔ کافی دیر بعد
انہیں کھانا ملا۔ پہلے طے ہوا کہ کیمپ جا کر کھانا کھائیں گے ہم شوگر کے
مریض ہیں ہمیں بھوک لگی تھی لہٰذا ہم نے در خواست کی کہ کھانا یہیں پر کھا
لینا چاہیے ۔مگر ہمارے بیٹے اور دوسرے ساتھی نے کہ آپ پانچ حضرات کھانا لیں
ہم دو کیمپ جا کر ہی کھانا کھایں گے۔ بہر حال ہم نے روڈ کے درمیان کیاری
میں بیٹھ کر کھانا کھایا اور اس کے بعد جانے کے لیے پر تولے۔ یہ دونوں جوان
ٹیکسی یا بس کی تلاش میں نکلے۔ کافی دیر تک نہ بس ملی نہ ہی کوئی ٹیکسی
والا منیٰ کے لیے تیار ہوا۔ ہم روڈ کے کنارے ہر آنے والی گاڑی کو ہاتھ کے
اشارے سے در خواست کرتے رہے کہ رکو اور ہمیں منزل تک پہنچاؤ مگر کوئی نہ
تیار ہوا کوئی ٹیکسی والا رکتا توشرتے اسے بھگادیتے کیونکہ یہاں ہم کھڑے
تھے وہ نوپارگنگ ایریا تھا۔ ہمارا بیٹاکافی دیر کی جد وجہد کے بعد ایک
پرائیوٹ کار والے کو لے کر آیا۔ جو ۲۵۰ ریال میں منیٰ تک پہچانے پر راضی
ہوا۔ہم خوش ہوئے کہ مشکل آسان ہو گئی ۔ ٹیکسی پر دو ویل چیئرز اور پانچ
آدمی سوار ہو گئے قافلہ کے تین مرد اور دو عورتوں اور دو ویل چیئر منیٰ کی
طرف چل دیے۔ اور دو مرد پیچھے رہ گئے۔
قارئین !سفرِ حج کے دوران یہ سب پریشانی لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہو تی
ہے۔مثلاً اگر ہمارا گروپ واپس ٹرین اسٹیشن پر جا کر سفر کرتا تو سفر آسان
ہوتا اور وقت پر کیمپ بھی پہنچ جاتے۔مخالف سمت میں آنے والا لوگ شارٹ کٹ کے
بجائے متعین پیدل چلنے والے راستوں پر چلتے تو پریشانی نہ ہوتی۔انتظامیہ نے
تو پیدل چلنے والوں کے لیے بڑی بڑی شاہرائیں بنائی ہوئیں ہیں مگر لوگ جلد
بازی میں غلط راستے پر چل پڑتے ہیں اور دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے
ہیں۔یہاں انتظامیہ کی طرف سے بھی کمی محسوس ہوئی کہ آمنے سامنے لوگوں کو
آنے جانے کے لیے چھوڑ دیا گیا چائے غلطی سے ہوا ہو جس سے یہ پریشانی
ہوئی۔ایک تو انتظامیہ کے لوگوں کو عربی کے سوا کچھ بھی نہیں پتہ تھا۔حالا
نکہ کہ یہ علاقہ جنوب مشرقی ایشیا کے لیے مختص کیا گیا تھا۔کاش کہ اس علاقہ
میں اردو سمجھنے والا عملہ لگایا جاتا جو لوگوں کی صحیح سمت جانے کی
راہنمائی کرتا۔(باقی آیندہ) |
|