محرم اور لاؤڈاسپیکر
(Muhammad Shafiq Malik, Hyderabad)
کیا آج ہم ایسی قوم نہیں
بن چکے جو اس سطحی سطح پہ پہنچ چکی ہے کہ جسے نہ خوشی منانے کا پتہ ہے نہ
غم،نہ احتجاج کا سلیقہ نہ اپنی بات منوانے کا طریقہ،ہر کوئی جھوٹی انا میں
لت پت،سارے اسلام کے نام لیوا سارے دین کے داعی،مذہب کے نام پر کٹ مرنے
والے ،اپنے اسلاف کی ناموس پر مر مٹنے والے نجانے کیوں مذہب اور انہی اسلاف
کی ایک بھی ماننے کو تیار نہیں،مذہب کی تعلیمات کیا ہیں اس سے کسی کو بھی
واسطہ ہے نہ تعلق،ہر کوئی اپنے آپ کو مومن اور اعلیٰ درجے کا مسلمان سمجھتا
ہے مگر دوسرے کو کوئی بھی حیثیت واہمیت دینے کو تیار نہیں،محرم ہر سال آتا
ہے ،دو مہینوں کا مسلمان خاص اہتمام کرتے ہیں ایک رمضان اور ایک محرم،رمضان
کا جو حشر ہم کرتے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،رمضان کی آمد سے چند
دن پہلے تاجر طبقہ برکت کی خاطر ہر چیز کا ریٹ دگنا کر دیتا ہے،کھجور سے
روزہ کھولنا سنت ہے تو وہی کھجور جو عام دنوں میں پچاس روپے کلو مل جاتی ہے
رمضان میں دو سو پچاس پہ بھی مشکل سے ملتی ہے،اسی طرح پھل سبزیاں دالیں اور
دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو آگ لگ جاتی ہے،اور پھر یہی لوگ بڑے ہی
اہتمام سے مسجدوں میں جا کر گھنٹوں تلاوت بھی کرتے ہیں،نماز تراویح بھی ادا
کرتے ہیں اور اعتکاف کی برکات بھی سمیٹتے ہیں،گویا رمضان دینی دنیاوی دونوں
طرح سے ان کو مالا مال کر دیتا ہے،اب آئیے محرم کی طرف محرم کی آمد سے
مہینوں قبل ایک عجیب طرح کی سنسناہٹ اور ایمرجنسی نافذ کر دی جاتی ہے،ہر
ادارہ اپنی اپنی تیاری میں لگ جاتا ہے کہ محرم آ رہا ہے،سب سے زیادہ شامت
سیکورٹی اداروں اور اہلکاروں کی آتی ہے،اور کمال حیرت ہے کہ ہر کوئی اپنے
طریقے سے شہیدان کربلا کی یاد بھی مناتا ہے انہیں حق پہ اور یزید کو باطل
بھی سمجھتا ہے،مگر نجانے کیوں ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں ،مگر صرف
محرم میں ،محرم کے فوری بعد تعلقات بھی بحال ہو جاتے ہیں دوستیاں بھی اپنے
پورے جوبن پہ واپس آجاتی ہیں،تمام کے تمام یوں شیروشکر ہوجاتے ہیں کہ ان کے
درمیان کبھی کوئی رنجش کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں،تو اسے کیا کہا جائے کیا یہ
کھلی منافقت نہیں،ہے اور سامنے موجودحقیقت ہے،تو کیا ہم اپنے آپ کو صحابہ
کرام ؓ یا اہل بیت ؓکا محب کہہ سکتے ہیں،کیا ان سے محبت اور وفاداری کا
تقاضا یہ ہے ،ایک دوسرے کی گردنیں مارنے والے ،ایک دوسرے پر فتوے لگانے
والے ،ایک دوسرے کے راستے بند کرنے والے کیوں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے،اورجس کے نہ
ہاتھ سے کوئی محفوظ ہو اور نہ اس کی زبان سے تو کیا وہ مومن اور مسلمان رہے
گا ہر کوئی اس ایک بات سے اپنا اپنا موازنہ کر لے،یہاں مذہب اور عبادت سے
زیادہ ضد اور ہٹ دھرمی زیادہ کارفرما نظر آتی ہے ،اسلام نے نہ جلوس نکالنے
کا حکم دیا ہے نہ جلوس روکنے کا،مگر یہاں جہاں روکا جائے وہاں ہم نے لازمی
جانا اور جہاں کوئی جانا چاہے جلوس لیکر تو ادھر ہم نے نہیں جانے دینا مر
جائیں گے لیکن نہیں جانے دیں گے ،مگر اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کون ہے ،کبھی
آج تک اس کا تعین کیوں نہیں کیا گیا،سب سے پہلے تو حکومت کہ جس نے ہر شعبہ
ہر معاملہ اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے لیکن مذہب کو پراؤیٹائز کر رکھا
ہے،اس پہ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں،حکومت بہت بڑا
کام کرتی ہے تو مہینے ڈیڑھ بعد لاؤڈ اسپیکر پر پابندی ہوگی بیان دیکر فارغ
اور بس ،ہر مسجد میں محلے کے چند لوگ مل کر کسی کوبھی اپنا پیش امام بنا
لیتے ہیں نہ اس کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت سمجھی جاتی ہے نہ کسی سند کی،بس
محلے میں کسی سے اونچ نیچ نہیں ہوئی اس کی ،بال بچے دار ہے،حافظ قرآن ہو تو
سونے پہ سہاگہ ورنہ عموماً ویسے بھی کام چل جاتا ہے،یہ لوگ خواہ کسی بھی
مسلک کے ہوں جن کے پاس نہ دینی تعلیم ہوتی ہے نہ دنیاوی جسے یہ ویسے ہی
گناہ سمجھتے ہیں،جب مائیک ان کے سامنے آتا ہے تو اپنے آپ کو مسجد کی بجائے
پانی پت کے میدان میں محسوس کرتے ہیں اور یوں رٹی رٹائی اور سنی سنائی
کہانیوں ،قصوں اور زبان و بیان سے کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں، ان کی ان
درفطنیوں کے نتیجے میں دوسری طرف آگ لگ جاتی ہے کیوں کہ ام الخبائث لاؤڈ
اسپیکر آن ہوتا ہے ،نجانے یہ بے ہودہ ایجاد کس بے ہودہ انسان کی ہے کہ جس
نے کم از کم اپنے ہاں ہسپتال سے لیکر اسکول تک اور طالب علم سے لیکر مریض
تک ہر چیز کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے،کوئی نہیں جو ان کو روکے جو حکومت
لاؤڈ اسپیکر پہ پابندی نہیں لگا سکتی وہ کسی شرارتی قسم کے مولوی کے خلاف
کیا ایکشن لے گی،حکومت اگر خود نہیں کچھ کر سکتی تو بہت سے سمجھدار اور اہل
علم مولانا حضرات سے رابطہ کر کے اس مسئلے کا پائیدار حل نکال سکتی ہے،اگر
امن چاہیے تو لاؤڈ اپیکر کو بند کرنا ہوگا بلکہ ان کو مکمل طور پر بلڈوز کر
دیا جائے،جب یہ نہیں تھے تب بھی لوگ مسجدوں میں جاتے تھے اذان بھی ہوتی تھی
اور وعظ بھی ،اور جب تک یہ برائی نہیں تھی تب تک نہ کوئی فرقہ واریت تھی نہ
کوئی دیگر اس طرح کے مسائل،حکومت وقت اس مسئلے کو خالی بیان بازی سے آگے
بڑھ کر سنجیدگی سے لے اور اسے غیر ضروری استعمال کرنے پر ایک کاروائی نما
پرچہ دینے کی بجائے اس کی سزا اور جرمانے میں اضافہ کرے،اس کے علاوہ بھی ہر
جگہ پر ایمپلی فائر ایکٹ کی پابندی کروائی جائے ٹریکٹروں اور اب رکشوں کو
بھی کسی اصول ضابطے کا پابند بنایا جائے،مذہب کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں
لے مسجد و مدرسوں میں گورنمنٹ کے تنخواہ دار اور پڑھے لکھے حضرات کو
باقاعدہ ملازم رکھا جائے کب تک ہم اس ذلالت کا شکا ر رہیں گے ،دنیا چاند سے
ہو کر مریخ پر پہنچ گئی ہم سے ابھی تک اپنی سمت ہی سیدھی نہیں سکی،لاؤڈ
اپیکر بین کر دیں اور سختی سے بین کر دیں آدھے سیکورٹی کے مسائل خود بخود
حل ہو جائیں گے ،،،،اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو - |
|