رمز قرآن از حسین آموختیم!
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
سبحان اﷲ مرد قلندر مھبط رموز
عشق رسول حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے خوب سمجھا۔
قرآن ضابطہ کائنات ہے۔ قرآن کریم ہی مومن کی ہتھیلی پر کائینات عیاں کرتا
ہے۔ افلاکیوں کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ جن رموز تک مومن کی رسائی ہے
وہاں ملائکہ کی رسائی نہہیں۔ اطاعت الہٰی میں شرکت غیراﷲ فساد ہے۔ حنفیت ہی
امن کی علمبردار ہے۔ یہی فکری یگانگت اور ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔ قرآن تو
بہت لوگ پڑھتے ہیں۔ مگر کتنے ہیں جنہیں حقیقت قرآن اور مقاصدو اسرار ورموز
قرآن تک رسائی ہے۔ قرآن فہمی اتنی آسان نہیں۔ حسن صوت سے تلاوت کرنا اسکا
عجاز ہے۔ بات حسن صوت تک ہی رہی۔ اگر قرآن جسم میں رچ بس گیاتو قرآن ہی رہ
گیا جسم کا وجود ہی ختم ہوگیا۔ اب کٹے سر اور بہتے خون بھی کیا خوب تلاوت
قرآن فرماتے ہیں۔ یہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ خود رب کائنات اپنا ایک شاگرد
منتخب کرکے اپنا کلام اسے پڑھاتا ہے۔کاش ہم عظمت قرآن کریم کی معرفت حاصل
کرلیتے۔ سیدنا حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ ایک دفعہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ
عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ حضرت معاویہ کے ایک خادم نے حاضر ہو کر کہا کہ میں
بے اولاد ہوں دعا فرمائیے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ استغفار کثرت سے
کرو اﷲ اولاد دے گا۔ اس کا معمول تھا کہ روزانہ سات سو مرتبہ استغفار پڑھنے
لگا۔ اﷲ نے اسے یکے بعد دیگرے دس فرزند دیئے۔ حضرت معاویہ نے اس سے کہا کہ
تمہیں حضرت امام نے حصول اولاد کے لیئے استغفار کا وظیفہ تو بتایا مگر تم
نے ان سے پوچھا ہوتا کہ اسکی دلیل کیا ہے ۔ پھر جب حضرت امام گئے تو خادم
نے وظیفہ کی اصل دریافت کی تو فرمایا کہ قرآن کریم میں حضرت ھود علیہ
السلام کی قوم پر اﷲ پاک ناراض ہوا تو تین سال تک قحط ہوگیا اور اس قوم کی
عورتوں کے بچے ہونے بھی بند ہوگئے۔ اب مال اور اولاد سے قوم محروم ہوگئی۔
جب حضرت ھود علیہ السلام سے انہوں نے درخواست کی تو انہوں نے بحکم الٰہی
فرمایا کہ اے میری قوم استغفار کرو اور اﷲ کی طرف رجوع لاؤ وہ تمہیں رزق دے
گا اور قوت یعنی اولا بھی دے گا ۔ یہ واقعہ سورۃ ھود میں ہے۔ حضرت معاویہ
صحابی تھے اور قرآن کریم وہ بھی پڑھتے تھے مگر نواسہ رسول کی قرآن فہمی بے
مثال تھی کہ کس طرح مشکلات اور مسائل کا حل قرآن کریم سے اخذ فرماتے
تھے۔ایسے جواہر پارے تو کثرت سے موجود ہیں لیکن قرطاس اخبار کا دامن اس
وسعت کا حامل نہیں۔قرآن پاک میں ہر چیز واضح بیان ہے اور یہ بات بھی قرآن
سے ہے۔ ہر چیز سے مراد کائنات میں جو ہوا یا ہوگا۔ ماکان وما یکون کا تعلق
علوم ظاہری سے ہو یا باطنی سے سب کو محیط ہے۔ اﷲ نے اپنے محبوب ﷺ کو تمام
علوم ودیعت فرمادیئے۔ جب قرآن پاک کو جملہ علوم کائنات کا مخزن و خزینہ
تسلیم کرتے ہیں تو کائینات میں سیدالعالمین معلم مقصود کائینات مھبط وحی
والکتاب اور کوئی نہیں ہوا نہ ہوگا۔ اب جو آپ ﷺ امین علوم الٰہی معلم
کائینات ٹھہرے تو جو آپ ﷺ کی شاگردی میں پہلے داخل ہوا، بہت قریب رہا ،
زیادہ عرصہ آپ ﷺ سے فیضیاب ہوا اتنا ہی اس کا درجہ قرآن فہمی میں بلند ہے۔
اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک جوان نیک سیرت آپ ﷺ کا گرویدہ ہوا وہ ہیں
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کہ سفر ہو یا حضر ساتھ ساتھ ہیں۔ ایک نابالغ
طفل خوش خصال بھی پروانہ وار کم عمری میں کافر معاشرے کا مقابلہ کرتا ہے۔
ہر حال میں ساتھ ساتھ ہیں بلکہ خصوصی تربیت بھی آپ ﷺ سے حاصل کرتے ہیں۔ایک
غلام حبشی ہیں کہ مارکھائے جاتے ہیں مگر مئے عشق رسول میں مست ہیں۔ کافر کی
ضربیں برداشت کرتے ہوئے الا اﷲ کے ذکرکی ضربیں لگاتے ہیں۔ ان حضرات کو قرآن
فہمی میں پوری امت میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ کہ جب سیدنا صدیق اکبر رضی
اﷲ عنہ خلیفہ منتخب ہوکر منکرین زکوۃ و صلاۃ اور منکرین ختم رسالت کذابوں
کو کیفرکردار تک پہنچانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو معلم کائینات ﷺ کے اﷲ سے
بطور خاص مانگے ہوئے ،حق کے علمبردار، فاروق کہ جن سے شیطان بھی کوسوں
بھاگتا ہے ، وقت کی مصلحت کے تحت کچھ پالیسی تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں تو
خلیفۃ الرسول کا قرآن فہمی میں رنگا جواب ملتا ہے ،کیا بزدل ہوگئے ہو؟ نہیں
اے خلیۃ المسلمین ۔ اﷲ نے صلاۃ و زکوٰۃ کا حکم دیا کسی ایک کو چھوڑا نہیں
جاسکتا، میرے محبوب ﷺ کے تشریف لانے کے بعد اب نبوت و رسالت کا دروازہ بند
ہوگیا۔ یہ فیصلے قرآن فہمی کے تھے۔ امت کو رہنمائی مل گئی۔ اب ان امور بارے
کوئی دوسری رائے امت میں نہیں۔ایک وہ ہیں کہ الحیا ء من الایمان کی تصویر،
اپنو ں کے مظالم سہے، دو دفعہ ہجرت کی، جیش عسرت(تنگ دست لشکر) کو مزین
کرنے پر جنت کی سند مل گئی۔ اﷲ کے رسول کی عنایات کی بارش ہے کہ یکے بعد
دیگرے دولخت جگر انکے نکا میں دیں پہلے صرف عثمان بن عفان تھے پھر غنی کا
لقب پایا پھر ذوالنورین کے درجہ کی فضیلت اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن فہمی
میں کیسا قابل فخر مقام ہے کہ تلاوت قرآن حکیم کے دوران مرتبہ شہادت بھی آپ
نے پایا۔ اب وہ صاحب دانائے امور وحی کہ جسے یدالہی کہا گیا، بو تراب کہا
گیا، با ب مدینۃ العلم فرمایا گیا، لوائے رسول ملا ، ذوالفقار ملی اور
عمامہ رسول سجائے درخیبر کو انگلیوں پر نچایا۔امور خلافت و حکومت سے مزین
عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ جنہیں حبیب خدا ﷺ کا سسر ہونے بھی اعزاز ہے ۔ چوبیس
لاکھ مربع میل سے زائد کے علاقے کا حکمران ہے۔ دنیا کو عدل سے بھر دیا۔
نظام عدل میں مشیر خاص سیدنا حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ ہیں ۔ ایک
عورت از خود اقرار بدکاری سے حاملہ ہونے کا اظہار کرتی ہے ۔ امیرالمؤمنین
رضی اﷲ عنہ اسے سنگسار کرنے کا حکم دیتے ہیں لیکن حضرت علی رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں نہیں فی الحال رجم نہ کیا جائے کیونکہ یہ حاملہ ہے ۔ رجم کی
صورت میں بچہ جس نے کوئی قصور نہیں کیا وہ بھی جان سے جائے گا اور خلیفہ کے
دامن پر بے گناہ کا خون ہوگا۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا لو لا علی لھلک عمر(
اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا) کیونکہ بے گناہ کا خون انکے ذمہ ہوتا۔
سیدالعالمین ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے قریش میں سے بنو ہاشم کو فضیلت
عطا فرمائی۔ بس تو یہ بات اس امر کی مظہر ہے کہ اﷲ کے ہاں درجات اور
فضیلتیں قربانیاں بھی مانگتی ہیں۔ قارئین کرام کو معلوم ہے کہ سیدنا حضرت
ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کا امام بنایا۔ں۔ اول جلاوطنی،
دوم بڑھاپے اولاد کا ملنا، شیرخوار بچے کو اسکی ماں سمیت بے آب و گیاہ
سنگلاخ وادی میں چھوڑے کاحکم ملا، جب بچہ قوت بازو بننے کے قابل ہوا تو اسے
ذبح کرنے کا حکم ملالیکن اطاعت گذاری میں مثال قائم کردی۔ سیدالعالمین ﷺ کے
اعلان نبوت کے ساتھ ہی کفار کی جانب سے شدید مظالم کا سلسلہ شروع ہوا اور
اس میں ہاشمی خاندان کو نشانہ پر رکھا گیا۔ سوائے ابو لھب کے۔ تین سال
مقاطع کی تکالیف میں پورا بنو ھاشم شامل تھا۔ غزوہ بدر میں کفار مکہ کے
مدمقابل بھی تین ھاشمی حضرت امیر حمزہ، حضرت ابوعبیدہ اور حضرت علی رضی اﷲ
عنھم آئے۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ زخمی ہوئے اور پھر شہادت کا رتبہ پایا۔
جب اﷲ کے رسول ﷺ نے اپنے نواسے کندھوں پر اٹھایا، زبان انکے منہ میں دیدی،
خطبہ موقوف کرکے نواسوں کو اٹھایا، جب فرمایا کہ الحسن والحسین سیدا شباب
اھل الجنۃ اور پھر ام المؤمنین سیدہ ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کو بتایا کہ میرا
یہ نواسہ کربلا میں شہید ہوگا ۔ جائے شہادت کی خاک جبریل علیہ السلام لاکر
دیتے ہیں ، فرمان نبی کریم ﷺ ہوتا ہے کہ جس دن میرا یہ نواسہ شہید ہوگا اس
دن یہ خاک خون میں تبدیل ہوجائیگی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ جب دین کی عظمت کے
پھریرے چاردانگ عالم لہرا رہے تھے ۔ خلافت راشدہ کے ثمرات سے انسانیت
مستفیذ ہورہی تھی۔ غیر اﷲ کی بندگی اور انسانوں کی غلامی دم توڑ چکی تھی تو
شیطانی قوتوں نے انگڑائی لی۔ اب پھر لات و مناۃ اور عزیٰ کی پوجا کی تیاریا
ں شروع ہوگئیں۔امیہ خاندان کے لونڈوں نے ملک میں لوٹ مارشروع کرکے عیاشی ،
عیش پرستی شروع کردی۔ جاگیر دار بن گئے۔ مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا
جانے لگا اور بیت المال جو مسلمانوں کا مال تھا وہ لوٹ لیا۔ نماز ، روزہ
اور دینی اقدار کا خاتمہ شروع ہوگیا۔ شخصیت پرستی ہونے لگی، فرعون مصر کے
دور کو دہرایایا جانے لگا۔ تو ایسے میں کسی اعلیٰ درجے کے قرآنی اسرارورموز
رکھنے والے کی جرات اور صداقت کی ضرورت تھی۔ اسی وقت کے لیئے جنت کے
نوجوانوں کے سردار کا تقرر ہوچکا تھا۔ ایسے میں اﷲ کے محبوب ﷺ کا خون جوش
میں آیا۔ جنت کی عورتوں کی سردار عظیم المرتبت سیدالعالمین ﷺ کی دختر صائم
الدھر و قائم الیل کے شہزادے معرکہ حق وباطل میں اتر گئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ
آپ نے فرعونِ وقت یزید کے خلاف لشکر کشی نہیں فرمائی۔ اہم امر کی تکمیل کے
لیئے صرف ہاشمیوں اور انکے چند اصحاب کے خون کی ضرورت تھی۔ جب کمینوں نے
نظام اسلام کو ختم کرڈالا۔ نظام خلافت ختم کردیا گیا۔ قیصروکسریٰ کی طرز پر
بادشاہت کا آغاز ہوا تو قرآنی نظام ختم کرنے کی سازش کھل کر سامنے آگئی۔
بدکردار مروان بن الحکم نے گورنر مدینہ طیبہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ
کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی موجودگی میں آپ کو معاذاﷲ شہید کرنے کو
کہا کیونکہ مروان امیہ خاندان کا وڈیرہ تھا۔ لیکن گورنر نے اس فعل کو
انتہائی برا قرار دیتے ہوئے آپ کو قتل کرنے سے انکار کردیا ۔ جس پر مروان
بڑا برہم ہوا اور پھر انہیں گورنر کے عہدے سے سبکدوش کردیا۔ دراصل ایک ایسا
گروہ تھا جسے قرآن فہمی نہ تھی نہ انہوں نے حاصل کرنے کوشش کی۔ اسلام کے
خاتمہ کے لیئے یہ بہت بڑی تحریک تھی ۔امام علیہ السلام اس طوفان کفر و
طغیان کا مقابلہ کرنے کا مصمم ارادہ فرمالیا۔ مخبر صادق اور عالم ما کان
ومایکون ﷺ کے ارشادات کے مطابق بنو ہاشم اور اکابر صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم
اور خود امام علیہ السلام اﷲ کے دین کے تحفظ اور بقا کے لیئے اپنی شہادت سے
اچھی طرح باخبر تھے۔ وقت آگیا۔ اب صحرائے نینوا پر توحید کے درس کا باب
لکھا جانے والا تھا۔ انسانی غلامی کی زنجیریں تاقیامت توڑی جارہی تھیں۔
سسکتی انسانیت کو زندگی کا مژدہ سنایا جارہاتھا۔ ظالموں کی بالادستی قبول
نہیں کرنی۔ غیراﷲ کی بندگی نہیں کرنی ۔ نوع انسانی کے جان و مال کے تحفظ
اور انسانی حقوق کے تحفظ کا آج سبق رقم ہورہا تھا۔ اﷲ نے فرمایا کہ صبر اور
شکر کرو میں نعمتوں میں اضافہ کرونگا۔ نوجوانان ِجنت کا سردار بننے کے لیئے
خون کے دریا عبور کرنے تھے۔سو کیئے۔رمز قرآن یہی ہے کہ اب قیامت تک قرآن کی
حکمرانی رہے، اگر کوئی اس راہ سے ہٹے تو آہنی دیوار بن جاؤ۔ کوئی تمہارا حق
چھینے تو ڈرونہیں۔ رب تمہارا ایک ہے اور وہی خیر وشر کا مالک ہے۔ زندگی
عارضی ہے۔ اسکی اطاعت میں سرکٹا دو۔ پھر میدا ن کربلا میں ساقئی کوثر کے
نواسے نے بھوک پیاس برداشت کی ، تین دن ملعونوں نے پانی بند رکھا مگر تیمم
سے نمازیں ادافرمائیں۔ ذکر الٰہی سے صحرا گونج اٹھے۔ کئی غیبی امدادیں آئیں
مگر قبول نہ فرمائیں۔ جب خوب تلواریں چلیں، تیر برسے، نیزے گرے ، کربلا کا
میدا ن کرب و بلا میں تبدیل ہوا۔ سیدۃ النساء کی گود کے پالے ، دو ش مصطفےٰ
ﷺ کے سوار نے جس حوصلہ اور جرات کے ساتھ اپنے اصحاب ، جوان فرزندوں، معصوم
فرزندوں، بھائیوں ، بھتیجوں اور مہمانوں کی لاشیں جمع فرمائیں، یہ آپ ہی کی
شان اور عظمت ہے ۔ اس جرات و استقامت کو ساری دنیا سلام کرتی چلی آرہی
ہے۔نقش الااﷲ بر صحرا نوشت۔نواسہ ء رسول نے فرمایا! مجھے اپنے رب کو سجدہ
کرنا بڑاہی محبوب ہے۔ بس ایسا سجدہ کہ تاقیامت سر سجدے میں رہے۔ اور ایسا
ہی ہوا۔ اﷲ کے ہاں اسی کی شان بڑی جس کی قربانی کے انداز بڑے۔ یہ سرمایہ
قربانی کتنا عظیم ہے ۔ صرف آپکے جسم اطہر کو پامال کیا گیا۔ رب کی رضا کے
لیئے یہی لوازمات ہیں۔ صرف ہاشمیوں کے19 سر نیزوں کی نوک پر سجے ۔ جنتی
نوجوانوں کے سردار نے سر نیزہ قرآن کی تلاوت فرماکر اپنی شہادت عظمیٰ کی
کرامت دکھائی۔ پھر تو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین میدان کارزار میں
نکلے اور اپنے رسول ﷺ کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے لشکر یزید کو تہس
نہس کردیا۔ رمز قرآں از حسین آموختیم ۔ شعلہ ہااز آتش او اندوختیم |
|