امام حسین علیہ السلام کے باوفا ساتھی حبیب بن مظاہر الاسدی

خاندان بنی اسد کے معروف فرد حضرت رسول اکرمؐکے صحابی اور امام علی ، امام حسن وامام حسین علیھم السلام کے وفادار ساتھی تھے۔حضرت حبیب بن مظاہر حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد اوروفادار صحابی تھے اپنے مولاعلیؑ کے ساتھ کئی جنگوں میں شرکت کی بہت سے علوم پردسترس تھی زہدوتقویٰ کے مالک اور ہرشب ختم قرآن کرتے تھے۔

حضرت حبیب بن مظاہر کاشمار راویان حدیث میں بھی ہوتا ہے روایت میں ہے کہ حضرت حبیب ایک مرتبہ امام حسینؑ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ حضرات قبل از خلقت آدمؑ کس صورت میں تھے؟حضرت امام حسینؑ نے فرمایا:’’ہم نورکی مانند تھے اورعرش الٰہی کے گردطواف کررہے تھے اورفرشتوں کوتسبیح وتمحید سکھاتے تھے۔حضرت حبیب ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے امام حسینؑ کوکوفہ آنے کی دعوت دیپھرجب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے توسب سے پہلاشخص جس نے حضرت مسلم کی حمایت اوروفاداری کااعلان کیا عابس بن ابی شبیب شاکری تھے اس کے بعد حبیب بن مظاہر کھڑے ہوئے اورعابس شاکری کی بات کی تائید کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے:’’خدا تم پررحم کرے کہ تونے بہترین انداز میں مختصر الفاظ کے ساتھ اپنے دل کاحال بیان کردیا خدا کی قسم میں بھی اسی نظریہ پرپختہ یقین رکھتا ہوں جیسے عابس نے بیان کیا ہے۔

اس طرح حبیب حضرت مسلم کے بہترین حامی تھے اورمسلم بن عوسجہ کے ساتھ مل کرحضرت مسلم بن عقیل کے لئے لوگوں سے بیعت لیتے تھےلیکن جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعداہل کوفہ کی بے وفائی کی وجہ سے ان کے قبیلہ والوں نے مجبوراً ان دونوں(حبیب اورمسلم بن عوسجہ)کو مخفی کردیا لیکن جونہی حبیب بن مظاہر کوامام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کی خبر ملی تورات کے وقت سے فائدہ اٹھا کرحضرت ؑ سے جاملے حالت یہ تھی کہ دن کومخفی ہوجاتے اوررات کوسفر کرتے یہاں تک کہ اپنی دلی آرزو کوپالیا۔

کربلا پہنچنے کے بعد جب عمرسعد کے لشکر میں اضافہ ہوتا دیکھا توامام ؑ سے اجازت لے کر اپنے قبیلہ ’’بنی اسد‘‘ کے پاس گئے اورمفصل خطاب کے بعد انھیں امام حسینؑ کی مدد ونصرت کے لئے درخواست کی۔ جب حضرت امام حسینؑ اپنے خدا سے رازونیاز کرنے کے لئے نہم محرمکودشمن سے مہلت طلب کی تواس دوران ’’حبیب ‘‘ نے لشکر عمرسعد کوموعظہ ونصیحت کرتے ہوئے کہا:’’خدا کی قسم!کتنی بری قوم ہوگی کہ جب قیامت کے دن اپنے پیغمبرؐ کے حضور حاضر ہوں گے توایسے حال میں کہ اسی رسولؐ کے نواسہ اور ان کے یاروانصار کے خون سے اس کے ہاتھ آلودہ ہوں گے۔‘‘

ایک روایت کے مطابق شب عاشور جب ہلال بن نافع نے حبیب بن مظاہر کوبتایا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا پریشان ہیں کہ میرے بھائی حسینؑ کے صحابی کہیں بے وفائی نہ کرجائیں توآپ تمام اصحاب کوجمع کرکے درخیمہ پرلائے اورحضرت زینب ؑ کی خدمت میں اظہار وفاداری کیااوراپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے کادوبارہ عہد کیاتاکہ حضرت زینبؑ کی یہ پریشانی ختم ہوسکے۔

صبح روز عاشور حضرت امام حسینؑ نے اپنے لشکر کومنظم کیا دائیں طرف موجود لشکر کی کمانڈ زہیربن قین اوربائیں طرف حبیب بن مظاہر جبکہ قلب لشکر کی سربراہی حضرت ابوالفضل العباس ؑ کے سپرد کی اسی اثنا میں دشمن کے سپاہی وارد میدان ہوکرمبارزہ طلب کرتے ہیں توحبیب مقابلہ کے لئے آمادہ ہوئے لیکن حضرت امام ؑ نے روک لیا اس طرح ظہرعاشور جب امام ؑ نے لشکر عمرسعد سے نماز ادا کرنے کی خاطر جنگ بندی کے لئے کہا توایک ملعون نے گستاخی کرتے ہوئے کیا کہ تمہاری نماز قبول نہیں ہوگی(نعوذباللہ)اس وقت حضرت حبیب سے برداشت نہ ہوا اورفوراً یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے ’’اے حمار(گدھے)!تیرے خیال باطل میں آل پیغمبرؐ کی نماز قبول نہیں؟! اورتمہاری نماز قبول ہے؟!!‘‘اس طرح دونوں کامقابلہ ہوا حبیب نے اس ملعون کوزمین پرگرادیا پھرباقاعدہ رجز پڑھتے ہوئے وارد میدان ہوئے شدید جنگ کی دشمن کے کئی افراد کوواصل جہنم کیا لیکن ایک تیمی شخص نے تلوار کاوار کیاجس کی تاب نہ لاکرآپ شہید ہوگئے اس نے آپ کے سرکوجداکرلیااسی سرکوبعد میں گھوڑے کی گردن میں باندھ کرکوفہ میں پھرایا گیا گویا کوفہ کانامور مجاہد اہل کوفہ سے یہ کہہ رہاتھا دیکھو یہ سرآل رسولؐ کی خاطر کٹ سکتا ہے لیکن دشمن کے سامنے جھک نہیں سکتا۔
مجاھد قادری
About the Author: مجاھد قادری Read More Articles by مجاھد قادری: 7 Articles with 5531 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.