نواسہ رسول کے منہ سے جھڑتے پھول!

آج کی رات ہم اپنے پروردگار کی عبادت کرلیں۔اس سے دعا کرلیں۔ اس سے مغفرت طلب کرلیں۔ خدا ہی خوب جانتا کہ اس کی عبادت کو اسکی کتاب کی تلاوت کو دعا و استغفار کی کثرت کو میں دوست رکھتا ہوں ۔ یہ وہ پھول ہیں جو امام عالی مقام علیہ السلام کے منہ مبارک سے اس وقت اداہوئے کہ نویں محرم الحرام کو نماز عصر کے بعد آپ علیہ السلام خیموں کے باہر گھٹنے بلند کیئے تلوار پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ اونگھ آگئی اتنے میں یزیدی ملعون حملہ آور ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بہن سیدہ زینب سلام اﷲ علیہا سے فرمایا کہ ابھی حضور نانا جان ﷺ خواب میں فرماتے ہیں کہ تم ہمارے پاس آجاؤگے۔ بہن نے سر پیٹ لیا اور کہا وائے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا تم پر وائے نہیں ہے بہن خدا تم پر رحم فرمائے چپ رہو۔ آپ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت عباس بن علی رضی اﷲ عنھما کو یزیدیوں کا ارادہ معلوم کرنے بھیجا اور فرمایا کہ جو بات ہوگی کل ہوجائے گی۔ اسی دوران ایک ملعون عبداﷲ بن حصین نامی نے کہا کہ حسین تم مرجاؤگے مگر تمہیں پانی نہیں ملے گا۔ آپ نے کہا خداوندا! اس شخص کو پیاس کی ایذادے کر قتل کر اور کبھی اس کی مغفرت نہ ہو۔ یہ شخص بیمار ہوا پیاس پیاس کرتا۔ پانی پیتا ، قے کرتا اور اسی طرح وہ مرا۔بحوالہ تاریخ الطبری تصنیف حضرت ابی جعفر محمد بن جریر الطبری۔ رات ہوئی۔ آپ علیہ السلام نے تمام رشتہ داروں اور احباب کو دعادی فرمایا سب چلے جاؤ۔ تم سے راضی ہوں ۔ حضرت علی بن حسین رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بیمار تھااور قریب چلا گیا۔آپ فرمارہے تھے خدائے تبارک وتعالیٰ کی بہترین حمد و ثنا بجا لاتا ہوں اور راحت و مصیبت میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔ خدا وندا میں تیرا شکر بجالاتا ہوں کہ تو نے ہم لوگوں کو نبوت کی کرامت دی۔ تو نے ہم کو قرآن کی تعلیم دی۔ تو نے ہم کو علم دین عطافرمایا۔تونے ہم کو سماعت و بصارت و دل دیا۔ تو نے ہم کومشرکوں میں شمار نہ ہونے دیا۔ پھر فرمایا اپنے انصار سے افضل و بہتر انصار اپنے اہل بیت سے زیادہ وفادار و فرماں بردار اہل بیت میں نے نہیں دیکھے۔ سنو! میں سمجھ چکا ہوں کہ ان دشمنوں کے ہاتھوں صبح کو ہم لوگوں کی قضا ہے۔سنو تم لوگوں کے باب میں میری رائے ہوچکی ہے۔ میری اجازت سے تم سب چلے جاؤ۔ میری طرف سے کوئی روک تم پر نہیں ہے۔ دیکھو رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہے اسے غنیمت سمجھو۔ یہ لوگ میرے طلب گار ہیں اور مجھے قتل کرلیں گے تو پھر کسی اور کا خیال بھی نہ کریں گے۔ مگر حضرات مسلم بن عوسجہ اسدی، زہیر بن قین ،عباس بن علی ودیگر رضی اﷲ عنھم کھڑے ہوگئے اور عرض کی کہ ہم آپ پر قتل ہوں ، جلائے جائیں اور خاک اڑادی جائے اور اسی طرح ستر مرتبہ ہو۔یہ شرف و کرامت ہم کیوں نہ حاصل کریں۔ جب سیدہ زینب سلام اﷲ علیھا بہت بیتاب ہوکر صبر کا پیمانہ لبریز کربیٹھیں تو حضرت امام علیہ السلام نے انکے چہرہ پر پانی ڈالا اور فرمایا بہن خدا کے لیئے صبر کر۔ اس بات کو سمجھو روئے زمین پر سب مرنے والے ہیں ۔اہل آسمان بھی باقی نہیں رہیں گے۔بس اﷲ کی ذات کے سوا جس نے اپنی قدر سے اس زمین کو پیدا کیا ہے۔ اور جو پھر خلق کو زندہ کرے گا اور سب کے سب واپس آجائیں اور جو یگانہ و تنہا ہے ۔ سب چیزیں مٹنے والی ہیں ۔ پھر فرمایا بہن میں تم کو قسم دیتا ہوں میری قسم پوری کرنا۔ میں مرجاؤں تو میرے غم میں گریبان چاک نہ کرنا، منہ نہ پیٹنا، ہلاکت و موت کو نہ پکارنا۔ پھر تمام رات سبھی اﷲ کی عبادت ، دعا و استغفار میں مشغول رہے یہاں تک کہ نماز فجر کا وقت آیا۔ جمعہ کا دن تھا۔ امام عالی مقام نے بڑے اطمینان اور سرور کے ساتھ نمازفجر کی امامت فرمائی۔ سلام پھیرا ہی تھا کہ ملعونوں کا لشکر عمروبن سعد اپنی کمان میں لے کر آپ کی طرف بڑھا۔

یزیدی لشکر کا ایک بہادر سپہ سالار حر اپنے بیٹوں اور بھائی سمیت لشکر یزید سے نکل کر حضرت امام علیہ السلام کے قدموں میں آن گرا اور معافی چاہنے کے بعدیزیدیوں سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا۔ 1984 میں جب حضرت صدام حسین رحمۃ اﷲ علیہ کی دعوت پر میں عراق گیا تو حضرت امام عالی مقام علیہ السلام ، حضرت حبیب ابن مظاہر ، حضرت عباس بن علی اور حضرت حر رضی اﷲ عنھم کے مزارات مقدسہ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ حضرت لڑتے ہوئے کافی آگے نکل گئے تھے اسی لیئے آپکا مزار دور ہے۔

سیدنا حضرت امام علیہ السلام نے ناقہ طلب فرمایا اور اس پر سوار ہوکر لشکر یزید کے سامنے جاکر آپ نے تاریخی خطبہ دیا ۔ علامہ ابن جریر طبری نے لکھا ہے، آپ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ کی حمد ثنا کی اور اسکی شان کے لائق اس کا ذکر کیا۔ اور اﷲ کی صلوات رسول کریم حضرت محمد ﷺ پر اور ملائکہ اور اسکے انبیاء کرام پر بھیجی۔ کہتے ہیں آپ علیہ السلام نے حمدونعت میں خداجانے کیا کیا باتیں کیں انکے بیان کی گنجائش نہیں۔ ایسی فصیح و بلیغ تقریر نہ کسی نے اس پہلے سنی تھی اور نہ اسکے بعد کبھی سنی۔ اسکے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے خاندان کا خیال کروکہ میں کون ہوں۔پھراپنے اپنے دل سے پوچھو اور غور کرو کہ میرا قتل کرنا ، میری ہتک حرمت کرنا کیا تم لوگوں کے لیئے حلال ہے۔ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں۔ کیا میں ان کے وصی و ابن عم کا فرزند نہیں ہوں۔ کہ جو خدا پر سب سے پہلے ایمان لائے اور خدا کے پاس اس کا رسول جو احکام لے کر آیا انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ کیا سیدالشہداحمزہ (رضی اﷲ عنہ) میرے والدکے چچا نہیں ہیں۔ کیا حضرت جعفر طیار شہید ذوالجناحین (رضی اﷲ عنہ ) میرے چچا نہیں ہیں۔ کیا تم میں سے کسی نے یہ نہیں سنا کہ رسول اﷲ نے میرے اور میرے بھائی کی نسبت یہ فرمایا ہے کہ یہ دونوں جواناناہل بہشت کے سردار ہیں۔ جو کچھ میں تم سے کہ رہاہوں یہ حق بات ہے۔ اگر تم میری تصدیق کروگے تو سن لوواﷲ جب سے مجھے اس بات کا علم ہوا کہ جھوٹ بولنے والے سے خدا بیزار ہوتا ہے اور جھوٹ بنانے والے کو اس کے جھوٹ سے ضرر پہنچاتا ہے۔ میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ پھر آپ نے فرمایا تمہیں اس بات میں اگر شک ہے تو کیا اس امر میں بھی شک ہے کہ میں تمہارے نبی کا نواسہ ہوں ۔ واﷲ اس وقت مشرق سے مغرب تک میرے سوا کوئی شخص تم میں سے ہو یا تمہارے سوا ہو کسی نبی کا نواسہ نہیں ہے۔ اور میں تو خاص کر تمہارے نبی کا نواسہ ہوں۔ تو بتاؤ کیا تم اس لیئے میرے درپے ہوکہ میں نے تم سے کسی کو قتل کیا ہے یا تمہارے کسی مال کو ڈبو دیا ہے یامیں نے کسی کو زخمی کیا ہے کہ اس کا قصاص مجھ سے چاہتے ہو۔پھر آپ نے لشکر یزید میں موجود شبث بن ربعی ، قیس بن اشعث ،یزید بن حارث اور دوسروں کے نام لے کر فرمایا کہ کیا تم نے مجھے یہ نہیں لکھا کہ آپ کی نصرت کے لیئے لشکر یہاں آراستہ ہیں آئیے۔

گنتی کے مجاہدین انتہائی دلیری سے دشمن کا مقابلہ کررہے تھے اور انکا قتل عام کررہے تھے۔ حضرت امام علیہ السلام نے اسی دوران نماز خوف ادافرمائی ۔ یزیدی برابر نمازیوں پر تیر برسا تے رہے۔ سبھی شہید ہوگئے تو نبی ﷺ کے نواسۂ رسول اپنے راہوار کی زین پررونق افروز ہوئے۔ طبری نے ایک شخص عبداﷲ بن عمار کا بیان نقل کیا ہے جو یزیدی لشکر میں تھا کہتا ہے امام علیہ السلام اکیلے رہ گئے تھے اور لشکر یزید نے چاروں طرف سے آپ علیہ السلام کو گھیرے میں لے کرحملہ کیا ۔ آپ علیہ السلام نے داہنی جانب والے پیادوں کو بھگایا پھر بائیں جانب کے پیادوں پر حملہ آور ہوئے تو انکو بھگایا۔ کہتا ہے کہ واﷲ کسی ایسے بے کس اور بے بس کو جس کی اولاد و اہل بیت و انصار سب قتل ہوچکے ہوں اس دل سے اور اس حواس سے اور اس جرات سے لڑتے ہوئے میں کسی کو نہیں دیکھا۔ واﷲ نہ ان سے پہلے ان کا مثل دیکھنے میں آیا نہ ان کے بعد کہ انکے داہنے بائیں لوگ اس طرح بھاگ رہتے تھے جیسے بھیڑیئے کے حملہ کرنے سے بکریاں بھاگتی ہیں۔

ایک شخص حمید بن مسلم کا بیان ہے کہ شہادت سے قبل آپ علیہ السلام نے فرمایا؛ میرے قتل کرنے پر کیا تم آمادہ ہو۔ سن رکھو میرے بعد کسی ایسے بندہ کو بندگان خدا سے تم قتل نہ کروگے جس کے قتل پرمیرے قتل سے زیادہ خدا ناراض ہو۔ تم سے مجھے تو امید ہے واﷲ کہ تمہیں ذلیل کرکے حق تعالیٰ مجھ پر کرم فرمائے گا۔ پھر میرا انتقام تم سے اس طرح لے گا کہ تم حیران ہوجاؤگے۔ تم نے مجھے قتل کیا تو کیا۔ واﷲ تم لوگوں میں خدا آپس میں کشت خون ڈلوادے گا اور تمہاری خون کی ندیاں بہادے گا۔ اور اس پر بھی بس نہیں کرے گا یہاں تک کہ عذاب الیم کو تمہارے لیئے چنددرچند کردے گا۔ آپ علیہ السلام کی شہادت کے بعدصحابی رسول حضرت سلیمان صرد رضی اﷲ عنہ نے علم انتقام شہادت جگر گوشہ رسول اٹھایا پھر مختار ثقفی اور محمدحنفیہ کی لڑائیوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے ۔اﷲ اور رسول کا وعدہ پورا ہوا ۔ اﷲ اپنے نبی کے نواسے کی شہادت کے طفیل امت مسلمہ کو متحد فرمائے اور دین حقہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140613 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More