مقدمہ مذہبی توہین
(Dr Ch Abrar Majid, Kuthiala Sheikhan)
میں کوئی لکھاری یا سکالر تو نہیں مگر انسانی جقوق کا ورکر اور قانون
کا شاگرد ہوتے ہوئے موجودہ حالات کے تناظر میں اندرونی خلش سے محسوس کر رہا
تھا۔ شروع میں بہت سوچا کہ کس طرح سے آغاز کیا جائے جس میں ایجیٹیشن کم اور
شعور کی اجاگری اور اصلاح کا پہلو زیادہ ہو تو میں نے ہماری ویب کا انتخاب
کیا۔ وہ اس لیے کہ اس میں تجاویر ، رائے کا اظہار، تنقید اور فیڈ بیک کے
مواقع بھی ملتے ہیں جس سے قاری کی رائے کا علم اور بہتری میں مدد ملتی ہے-
اگر ہم پاکستان کے موجودہ حاللات کا جائزہ لیں تو مذہبی توہین کے واقعات
میں بہت ہی زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ بلکہ ایک ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ
ریاست اس معاملہ میں ہا تو بلکل بی توجہ نہیں دے رہی یا ناکام ہو رہی ہے
مگر میری ذاتی رائے کچھ مختلف ہے۔آپ میری رائے سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں ۔
میرا خیال بے کہ ہمارے اندر ایک خوف اور دہشت سی بیٹھ گئی ہے اور کوئی بھی
اس پر کچھ کہنے سے ڈرتا ہے اور واقعی یہ معاملہ ڈرنے والا ہو بھی کیسے نہ
کہ آئے دن ایک سے بڑھ کر ایک واقعہ بیش آ رہا ہے۔ جب محافظ ہی قاتل بننے
لگیں تو پھر رہتی سہتی امیدیں بھی دم توڑنے لگتی ہیں۔
اگر ہم اس معاملے کا بخوبی جائزہ لیں تو چید عوامل ایسے سامنے آتے ہیں کہ
ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نیں کہ یہ مذہبی معاملہ سے زیادہ معاشرتی بن
گیا ہے۔ میں معاشرتی اس اعتبار سے کہتا ہوں کہ اس میں مزہبی تو ہیں تو گاہے
بگاہے ہی یا تھوڑی ہی ثابت ہوتی ہے مگر معاشرتی پستی ، لاقانونیت اور
اخلاقی اقدار کی کمی زیادہ نطر آتی ہے۔
اب اگر اسلامی اور قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جہالت اور لا قانونیت
کے سوا کچھ بھی نہیں کیو نکہ اگر کوئی چھوٹی بڑی غلط فہمی با غلطی سر زد
ہوتی بھی ہے تو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا نہ تو اسلام میں کوئی جواز
موجود ہے اور نہ ہی قانون میں۔ ایک جمہوری اور اسلامی ریاست میں ریاست ہی
کاروائی اور سزا دیے کا حق رکھتی ہے۔
مذہب کے نام پر اتنی سنگین غلطی کا ارتکاب جہالت اور گمراہی کے سوا کیا ہو
سکتا ہے۔ جبکہ اسلامی نقطہ نظر پہت ہی واضح ہے کہ “ایک انسان کا نا حق قتل
پوری انسانیت کا قتل ہے“ اور پیغمبر اسلام صل الل علیہ وسلم نے خود ارشاد
فرمایا کہ میں پہترین اخلاقیات کو پروان چڑھانے اور عام کرنے کے لیے بھجا
گیا ہوں۔ تو یہ انسانیت کا قتل بغیر کسی ثبوت کے یا بغیر صفائی کا موقعہ
دئے گمراہی نہیں تو اور کیا ہے ۔ اور اہک اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے مال
و جاں کی حفاظت ریاست کے ذمہ سونپی گئی ہے اور اگر محافظ ہی قاتل بن جائیں
تو اس سے بڑی بددیانتی اور گمراہی کیا ہو سکتی ہے۔
صد افسوس کہ جتنے بھی واقعات ہوئے ان میں اشتعال اور زاتی رنجش کا عنصر
ضرور سامنے آیا مگر اس کے باوجود بھی اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا
رہی۔ اتنے بڑے پیمانے پر واقعات ہونے کے بعد بھلا کوئی مزہبی توہین کا سوچ
بھی کیسے سکتا ہے کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہے زیادہ تر زاتی رنجش اور
غلط فہمی کی بنیاد پر الزامات ہوتے ہیں اور کتنے لوگوں کو جان سے مار دیا
گیا ،بغیر صفائی کا موقعہ دئیے۔ ان مسائل کا حل تو موجود ہے مگر خوف اور
دہشت اتنی بڑھ چکی ہے کہ کوئی بھی اس پر بات کرنے کے لئیے تیار ہی نہیں ہے۔
اب کتنے ہی واقعات میں اشتعال پایا گیا تو کیا ان کا سدباب نا ممکن ہے؟
قطا‘ نہیں مگر سب ڈرتے ہیں کہ ہماری جان کی ضمانت کون دے گا۔جس نے جرات کی
اس کو راہ سے ہٹا دیا گیا ۔ کتنے وکلا کو صرف اس لئے قتل کر دیا کہ انھوں
نے ملظموں کی قانونی مدد کرنے کی کوشش کی اور ان کو عدالتوں کے اندر مارنے
کی دھمکیوں کے ثبوت موجود ہیں۔ گورنر پنجاب کو اس کے محافظ نے قتل کر دیا
جس کو اس کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا -
جہاں تک اشتعال انگیزی کا تعلق ہے ، اب تو مساجد اور مدارس بھی رجسٹرڈ ہیں
ان کے لئیے بھی کوئی ریگولیٹری اتھارٹی ہونی چاہیے جو خطیب اورامام کی بھی
رجسٹرایشن کرے اور ان کے لئے بھی کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے تاکہ کوئی تو
ان اداروں کا زمہ دار مہتمم ہو اور ان لوگوں کی بھی چھو ٹی سی ٹریننگ ہو کہ
اداروں کو کیسے چلانا ہے اور یہ ہمارے بہت ہی اہم ادارے ہیں اور ہماری ترقی
میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ ضرورت ان کو صحیح طرح سے استعمال کرنے کی ہے
۔ان لوگوں کے اندر بہت زیادہ پوٹینشل ہے ضرورت ان کو استعمال کرنے کی ہے۔
اس طرح کی اشتعال انگیزی کبھی بھی کوئی ذمہ دار آدمی ہیں کرتا اور جب ان
اداروں کی باگ ڈور ذمہ دار لوگوں کے سپرد ہو گی تو کبھی ایسی اشتعال انگیزی
کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان زمہ داروں کے چناو میں تعلیم کا بھی خیال
رکھا جائے۔پھر ان کو ترقی کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے اور بھی ذمہ داریا ں
سونپی جاسکتی ہیں یہ ہمارے پاس رضاکاروں کا ایک پہت پڑا ریسورس ہیں ضرورت
توجہ دینے کی ہے۔ جیسے ان کو نکاہ خواں کی رجسٹریشن دی گئی ہے اسی طرح اور
بھی ذمہ داریاں مثلا‘ پولیو کی مہم سازی ،ثالثی ، امن کونسلوں اور
نمپرداروں کی طرح تصدیق کے عمل میں شمولیت وغیرہ سونپ کر مصروف کیا جا سکتا
ہے -
اسی طرح خوف اور دہشت کے حصار کو توڑنے کے لیے کوئی ضرب عضب لگانے اور کوئی
عبرتناک سزا کی مثال قائم کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ لوگوں میں بولنے کا
حوصلہ بھی پیدا ہو اور آئے دن بڑھتے ہوئے رجحان کو بھی کم کیا جاسکے۔ باقی
رہ گئے قانونی پہلو تو اس کے لئے قومی سبطح پر تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو
بلا کر متفقہ رائے سے حل نکالا جا سکتا ہے ۔ |
|