جی ڈی ایف ،اے بی سی اور خواتین کی ترقی

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنے تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک صحابی ؓ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ حضور ؐ حجر اسود کے پاس کھڑے ہو کے فرما رہے ہیں مجھے یہ معلوم ہے تم تو ایک پتھرہو نہ نقصان دے سکتے ہو اور نہ نفع اور پھر حضور ؐ نے اس کا بوسہ لیا پھر حضرت ابو بکر ؓ نے حج کیا اور حجراسود کے سامنے کھڑے ہوئے اور انہوں نے فرمایا مجھے یہ معلوم ہے کہ تم تو ایک پتھر ہو نہ نقصان دے سکتے ہو نہ نفع اگر میں نے حضور ؐ کو تمہارا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تمہارا بوسہ نہ لیتا ۔

قارئین آج کے کالم کا عجیب و غریب عنوان دیکھ کر آپ سوچ رہے ہونگے کہ آج انصار نامہ میں بھلا کونسی چیز زیر بحث آئے گی جس کا مخفف اتنا طویل ہے تو جناب اسی کالم کے عنوان کے اندر سوال کا جواب بھی موجود ہے انسان جب جنم لیتا ہے تو ماہرین طبیعات کی ریسرچ یہ کہتی ہے کہ ماں کے پیٹ میں ہی بچے کی تعلیم و تربیت اور سیکھنے سکھانے کا عمل شروع ہو جاتاہے بڑے بڑے نیک بزرگوں اور اولیاء اﷲ کے متعلق جب ہم پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی والدہ بھی ولی ہوتی تھیں یا اﷲ تعالیٰ سے محبت رکھتی تھیں اور گھٹی میں ہی ایسا بچہ سلوک کی بہت سی منزلیں طے کر جاتا ہے بقول شاعر ہم یہ کہتے چلیں
یہ منصب ِ بلند ملا جس کا مل گیا
ہر مد عیِ کے واسطے دار و رسن کہاں

ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بچوں کو جس طرح کا ماحول مہیا کیاجائے وہ اسی کے مطابق ڈھل جاتے ہیں مادری زبان کی اصطلاح ماں بولی کے متعلق ایجاد ہوئی ہے کہ بچہ اگر افریقہ میں پیدا ہوا ہے تو بچپن ہی سے افریقن زبان بولتا ہے اسی طرح یورپ اور برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچے بھی اپنی اپنی مادری زبانیں اس طرح بولتے ہیں کہ جس طرح بعد میں زبان سیکھنے والے پی ایچ ڈی ڈگری لینے والے لوگ بھی نہیں بول سکتے ۔دنیا میں بہت سی قومیں ایسی ہیں کہ جن کی گھٹی میں ہی انسانیت کی خدمت کاجذبہ موجود ہوتا ہے بنیادی طور پر مسلمانوں کو یہ ورثہ ملا ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں پیاسوں کو پانی پلاتے ہیں راہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو منزل تک پہنچاتے ہیں اور ہر کسی کی تکلیف کے ازالے کے لیے سر گردا ں رہتے ہیں لیکن دنیا میں آج کل میڈیا کے زور پر مغرب یہ ثابت کرنے پر لگا ہوا ہے کہ مسلمان بنیادی طو ر پر ایک ایسا بنیاد پرست انسان ہے جو دنیا کو تلوار کے ذریعے فتح کرنا چاہتا ہے اور اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے انسانوں کو تکلیف دینے کے علاوہ اس کا او ر کوئی عقیدہ نہیں ہے یہ نظریہ تیزی سے پھیلایا گیا اور افغانستان ،عراق ،یمن ،صومالیہ اور دیگر اسلامی ممالک میں امریکہ نے ہوس پرستی کی پالیسی اپناتے ہوئے جہاں قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا جاری رکھا وہاں فکری محاذ پر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی ایک انتہائی خطرناک جنگ پہلے بھی جاری تھی اور اب بھی جاری ہے ہم مسلمانوں کی ابتداء ہی دوسروں کی خاطر قربانی دینے سے ہوتی ہے اور انتہا بھی دوسروں کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دینے تک چلی جاتی ہے یہاں ہم انتہائی فخر کے ساتھ آپ احباب کو بتاتے چلیں کہ پاکستانی قوم پوری دنیا میں چیریٹی یعنی رفاع عامہ کے کاموں میں پہلے نمبر پر آتی ہے شرح کے اعتبار سے پاکستانی قوم کی نوے فیصد سے زائد آبادی اﷲ کے نام پر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ دیتی رہتی ہے پانچ سب سے زیادہ ڈونیشن دینے والی اقوام میں پاکستانی قوم شامل ہے حالانکہ پاکستان کا جی ڈی پی اور فی کس آمدن دیکھیں تو حیرانگی ہوتی ہے کہ بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ اتنی غریب قوم اس درجے پر جا کر رفاعی سرگرمیوں میں متحرک ہے اس ڈیٹا سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم اور مسلمانوں کی گھٹی یعنی اے بی سی ہی میں دوسرے انسانوں سے محبت اور ان کی تکلیف رفع کرنے کا جذبہ موجود ہے ۔

قارئین یہاں اس تمہید کے بعد اب ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ زرعی یونیورسٹی راولاکوٹ میں جب ہم بی ایس سی آنرز کرنے کیلئے چار سال موجود تھے تو فائنل ایئر میں بائیو کیمسٹری نام کا ایک مضمون ہماری راستے میں پہاڑ بن کر کھڑا ہو گیا وجہ اس کی ایک طرف تو ہماری نالائقی تھی اور دوسری جانب اس شعبے میں لیکچرار کا موجود نہ ہونا تھا اﷲ اﷲ کر کے پتہ چلا کہ یونیورسٹی نے ایک ایم ایس سی کیمسٹری نوجوان کو لیکچرار کی حیثیت سے بھرتی کر لیا ہے اور ان کا نام سردا ر محمد شکیل خان ہے چند دنوں بعد سردار محمد شکیل خان یونیورسٹی آن پہنچے اور انہوں نے ہمیں انتہائی احسن انداز سے بائیو کیمسٹری پڑھا دی اور ہم امتیازی نمبروں سے فیل ہونے کی بجائے اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے وہ دن ہے اور آج کا دن سردار محمد شکیل خان سے ہماری محبت غیر مشروط طور پر جاری ہے او ر آج بھی وہ ہمیں مختلف میدانوں کی ’’ اے بی سی ‘‘ پڑھا کر رہنمائی کرتے رہتے ہیں جس طرح انہوں نے بائیو کیمسٹری کی الف ب ہمیں سمجھائی تھی۔سردار محمد شکیل خان ضلع میرپور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ترقی نسواں ہیں اس شعبے کی وزیر محترمہ فرزانہ یعقوب ہیں سردار محمد شکیل خان نے آج سے چند ماہ قبل راقم سے ایک خصوصی ون ٹو ون میٹنگ کی اور جینڈر ڈسکشن فورم بنانے کا منصوبہ ہمارے سامنے رکھا ۔جی ڈی ایف کا بنیادی مقصد سردار شکیل خان کے مطابق خواتین کو ترقی دینے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو آن بورڈ لے کر ایک ایسے ڈائیلاگ اور بحث کا آغاز کرنا تھا کہ جن کے نتائج خواتین کی فلاح و بہبود کی شکل میں برآمد ہونا تھے ان کی سیر حاصل گفتگو میں گہرائی بھی تھی اور جذبات بھی موجود تھے ان کی اس ’’ تبلیغ ‘‘ کا اثر قبول کرتے ہوئے ہم نے جی ڈی ایف کے لیے ان کے ہمراہ کام کرنا شروع کر دیا اور میرپور میں جی ڈی ایف کی پہلی ورکشاپ ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں ضلع بھر کی انتہائی اہم شخصیات نے شرکت کی ایک طرف موجودہ ڈویژنل ڈائریکٹر کالجز پروفیسر انجم افشاں نقوی ،پروفیسر نسرین طارق ،پروفیسر سرفراز محکمہ تعلیم کی نمائندگی کر رہے تھے تو دوسری جانب چوہدری محمد شکیل اسٹیشن ڈائریکٹر ایف ایم 93ریڈیو آزادکشمیر ،راجہ محمد سہراب خان ،ڈائریکٹر پی آئی ڈی راجہ اظہر خان ،سیکرٹری جنرل کشمیر پریس کلب میرپو ر سجاد جرال و دیگر میڈیا کی نمائندگی کر رہے تھے محترمہ مسز غزالہ خان چیئر پرسن دیا ویلفیئر فاؤنڈیشن و گائیڈنس ہاؤس سکول اینڈ کالج سسٹم نے پرائیویٹ شعبے کی طرف سے حصہ لیا سردار محمد یونس خان اور محمد فاروق بانیاں اے جے کے آر ایس پی کی طرف سے موجود تھے الغرض میرپور شہر کے تمام طبقوں کی نمائندگی سردار شکیل خان نے حاصل کی اور ان کے سامنے جینڈر ڈسکشن فورم یعنی جی ڈی ایف کا منصوبہ رکھا ۔تمام ہاؤس نے اس خیال کو ایک ناول آئیڈیا قرار دیا اور اتفاق رائے سے اس پر کام شروع کر دیا گیا ۔بعد ازاں ایک بہت بڑی ورکشاپ میں سینکڑوں کی تعداد میں خواتین و حضرات نے شرکت کر کے خواتین کی ترقی کے لیے شروع کیے جانے والے اس منصوبے پر عملی خیالات بھی ایک دوسرے کے ساتھ بانٹے۔یہاں ہم کچھ گزارشات آزادکشمیر کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے کرنا چاہتے ہیں آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ آزادکشمیر جہاں بظاہر خواتین کی بہت عزت کی جاتی ہے وہاں عملی معاشی میدان میں خواتین کا حصہ دس فیصد سے بھی کم ہے شعبہ طب اور شعبہ تعلیم میں خواتین کی اکثریت کام کر رہی ہے جبکہ معاشی ترقی کے میدان میں خواتین کی شمولیت پانچ فیصد سے بھی کم ہے جس قوم کی آبادی کا 53فیصد حصہ صنف نازک پر مشتمل ہو عملی میدان میں ان کی شرکت کی یہ شرح اگر قوم کی حالت نزع سے تعبیر کی جائے تو غلط نہ ہو گا ۔یہاں بقول چچا غالب ہم یہ کہتے چلیں
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے
قضا نے تھا مجھے چاہا خرابِ بادہ اُلفت
فقطـــ’’خراب ‘‘ لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے
غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاط ِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذتِ الم آگے
خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
یہ عمر بھر جو پریشانیوں اٹھائی ہیں ہم نے
تمہارے آئیوالے طرہ ہائے خم بہ خم آگے
دل و جگر میں پر افشاں جو ایک موجہ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالب
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے

قارئین وزیراعظم چوہدری عبدالمجید گزشتہ دنوں اپنی پارٹی کے مرکزی رہنما سنیٹر جہانگیر بدر کی کتاب کی تعارفی تقریب میں شرکت کے لیے بلجیم تشریف لے گئے او ر اخبارات میں آنے والی رپورٹس کے مطابق اس کار خیر کے لیے انہوں نے سرکاری خزانے سے 70لاکھ روپے خرچ کیے ۔گزشتہ روز ہی وزیراعظم چوہدری عبدالمجید برطانیہ میں اپنی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے برمنگھم میں رکھے گئے جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک مرتبہ پھر قومی خزانے پھر کروڑوں روپے لے کر برطانیہ تشریف لے جاچکے ہیں ۔ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ جو کشمیری قوم وفاق سے ہر سال بجٹ کی مد میں اربوں روپے ’’ امداد نما بھیک ‘‘کے طور پر مانگ کر گزارا کرتی ہے اس قوم کاوزیراعظم قیمتی وسائل سیاسی مقاصد کے لیے کیوں استعمال کر رہا ہے ۔حالانکہ برطانیہ سمیت دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں اگر کوئی سیاستدان یا حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے کوئی بھی فرد اس طرح کی چھوٹی سی حرکت کرے تو ا س کاسیاسی کیئر ختم ہو جاتا ہے لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے آزادکشمیر حکومت نے محکمہ سماجی بہبود و ترقی نسواں تو بنا رکھا ہے اور اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر انتہائی پڑھی لکھی خاتون محترمہ فرزانہ یعقوب موجود ہیں لیکن اندرونی حالت یہ ہے کہ ا س محکمہ کا بجٹ چند کروڑ روپے ہے جو نوے فیصد سے زائد عملے کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے اسے کہتے ہیں Charity Begins at Homeیعنی اول خویش بعد درویش ۔ہم آزادکشمیر حکومت اور وزیراعظم آزادکشمیر سے آج کے کالم کی وساطت سے یہ استدعا کرنا چاہتے ہیں کہ مہربانی فرما کر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو مالی وسائل فراہم کیے جائیں تا کہ جی ڈی ایف سمیت دیگر اہم ترین منصوبوں پر یہ لوگ کام بھی کر سکیں ۔اس وقت سماجی شعبے میں آزادکشمیر میں ایسی ایسی این جی اوز موجود ہیں کہ جن کا سالانہ بجٹ آزادکشمیر کے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے انہی این جی اوز کا دم غنیمت ہے کہ آزادکشمیر کے پہاڑوں سے لے کر تمام قصبات اور دیہات میں رفاع عامہ کی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید صاحب راقم نے بھی ایک دن فوت ہوجانا ہے اور آپ نے بھی دنیا سے رخصت ہونا ہے بہتر یہی ہے کہ ہم دونوں اپنے اپنے حصے کا کام کر کے اور اپنی اپنی شمع جلاکر اس دنیا سے داغ مفارقت دیں ۔سردار محمد شکیل خان اسسٹنٹ ڈائریکٹر سماجی بہبود و ترقی نسواں کو ہم اس لحاظ سے فل مارکس دیتے ہیں کہ انہوں نے علمی و فکری لحاظ سے جی ڈی ایف کے نام پر ایک انتہائی علمی و عملی منصوبہ بنایا ہے کہ جس پر اگر عمل کر لیا جائے تو آزادکشمیر کی 53فیصد اپاہج بنائی گئی آبادی بھی کچھ کام کرنے کے لائق ہو جائے گی آزادکشمیر اور پاکستان مردانہ انا رکھنے والے مردانہ حاکمیت کے علاقے ہیں اور جہالت کے تقاضے یہی ہیں کہ عورت کو پاؤں کی جوتی بنا کر رکھا جائے حالانکہ یہ عورت وہی ماں ہے کہ جس کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے عورت کا معاشی لحاظ سے ترقی کرنا انتہائی ضروری ہے اور اس حوالے سے ہمیں امید ہے کہ جینڈر ڈسکشن فورم اپنا ترین کردار پورے آزادکشمیر میں ادا کر سکتا ہے ور پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر اسے شروع کرنا پوری قوم کے مفاد میں ہے ہم اس حوالے سے سیکرٹری سوشل ویلفیئر ڈیاپارٹمنٹ احسان خالد کیانی اور ڈی جی سرفراز عباسی سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنا فعال ترین کردار ادا کرتے ہوئے جی ڈی ایف پر کام شروع کروائیں تا کہ اس منصوبے کی ’’ اے بی سی ‘‘ تو لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہو یہی ہمارے بہترین مفاد میں ہے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک فوجی کا ایک پاؤں جنگ میں کٹ گیا دوسری جنگ ہوئی تو دایاں بازو ضائع ہوگیا تیسری جنگ میں دوسرا پاؤں بھی کٹ گیا چوتھی جنگ میں جب وہ انتقال کر گیا تو اس کے افسر نے اس کے بیٹے کو تعزیتی خط لکھا
’’ مجھے تمہارے بچے کھچے والد کی وفات کا سن کر دکھ ہوا مجھے حیرت ہے کہ انہیں قسطوں میں مرنے کی کیا ضرورت تھی ‘‘


قارئین من حیث القوم ہم اس وقت قسطوں میں وفات پا رہے ہیں اور زندگی کا ایک ایک شعبہ ایک ایک کر کے حالت نزع سے گزر رہا ہے اور اﷲ بھی اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا کہ جس قوم کا اپنی حالت بدلنے کا خود احساس نہ ہو ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374577 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More