اشتہار لگانا منع ہے

انسانیت فطرتاً نفاست پسند ہے ۔گند کچرا،آلودگی ،بے ترتیبی وغیرہ اسے کسی طور پر بھی پسند نہیں۔ایک اچھے انسان کے لیے ضابطہ اخلاق،قوانین مذہب و ملّت اس کے ماتھے کا جھومر ہورے ہیں ۔ان کی پاسداری وہ اپنا فریضہ جانتاہے ۔لیکن انہی انسانوں میں بعض وہ ہوتے ہیں جو ااس کے برعکس کام کرتے ہیں ۔جو دوسروں کے لیے ایذااور عار کا باعث بنتے ہیں ۔چنانچہ کوئی بھی ملک یا ریاست اپنے باسیوں کو درست سمت چلانے اور انسانی معاشرے کی ساکھ کو بحال رکھنے ،حسن معاشرت کو قائم رکھنے اور زندگی کو درست ستور پر استوار کرنے کے لیے اپنی خارجی و داخلی پالیساں بناتی ہے ۔اپنے باشندوں ،شہریوں سے اس پر عمل کا مطالبہ کرتی ہے ۔ہم چونکہ مسلمان ہیں اور ہمارے پیش نظر ایک نکتہ ہوتاہے کہ جو جو وضع کردہ قوانین شریعت سے متصادم نہیں ان پر عمل کوروارکھنے میں ،دوسروں کو اس پر عمل کروانے میں کچھ غفلت نہیں برتی جاتی ۔اس تحریر میں میں جس جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ ہم خود ہی اپنے ہاتھوں اپنی دنیا کا حسن برباد کررہے ہوتے ہیں ۔اپنے ہی کردار سے اپنی دنیا کا چین سبوتاژ کررہے ہوتے ہیں ۔آپ بھی دیکھتے ہیں ،پڑھتے ہیں اور میں بھی اہل فن کی فنکاری کو ملاحظہ کرتاہوں ۔''چند ہی دن میں محبوب قدموں میں ''۔۔۔۔شادی سے پہلے اور شادی کے بعد اپنا چیک اپ ضرور کروائیں ''۔ایک ٹیلی فون کال پر آپ کا مسئلہ حل ''۔''اچھے خاندانوں میں رشتہ کے لیے ان نمبر پر رابطہ کیجیے ''۔گوفلاں گو۔۔''فلاں ہائے فلاں ہائے ''۔اور بہت سے ایسے نقوش اس ملک کے طول و عرض میں واقع دیواروں پر نقش ہوتے ہیں کہ بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ بہن بیٹی ساتھ ہوتانظر نوشتہ دیوار پڑھ کر بندہ زمین میں گڑھ جائے ۔کیا کہتے ہیں ہے نا ایسا!!!!یا میں کالم نگارہوں اپنی طرف سے کہہ رہاہوں ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عید کے دنوں میں میری والدہ نے گھر کی بیرونی دیوار اچھی بھلی دیہاڑی دے کر چونا کروایاکہ گھر کا حسن بحال رہے ۔میرے خیال میں بمشکل مہینہ بھی نہیں گزراتھاتو کسی ادیب بے ادب ،محرربے مہار نے کسی تنظیم کی چاکنگ کردی تھی ۔مجھے بہت تکلیف ہوئی ۔یقینا آپ میں سے بھی ایسے ہوںگے جس اس تکلیف سے گزرے ہوں گے ۔ذارا تحمل سے سوچیے کیا یہ دیواریں انہی کاموں کے لیے رہ گئی تھیں ؟ہمیں ،ہمارے ادارے ،ہماری تنظیم ،ہماری فرم کو اس اشتہاربازی کرنے کے لیے دوسرے شہریوں کی املاک پر اشتہار بازی کا حق کس نے دیا؟کیا یہ مہذب معاشروں کو زیب دیتاہے ؟

محترم قارئین !یہ عمل نہ اخلاقاًنہ مذہباًاور نہ ہی مذہبا ًدرست ہے ۔آئیے !میں آپ کو اپنے پیاروں کی زندگیوں کے گوشوں کی سیر کرواتاہوں کہ وہ کس قدر انسانی حقوق،معاشرتی حقوق،ملی و مذہبی حقوق کے پاسدار تھے ۔ان کے لیے انسانی قدریں کس قدر اہمیت رکھتی تھیں ۔

تفسیر کبیرمیں کروڑوں حنفیوں کے امام ،عظیم مفکر ،منبع علم ودانش ،پیکر شریعت حضرت سیدنا امام اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے متعلق ایک واقعہ پڑھا ایمان تازہ ہوگیا۔آپ بھی پڑھیے ! اپنے ایک مقروض مجوسی سے قرض کی وصولی کے لیے تشریف لے گئے، گھر کے قریب اتفاق سے آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی جوتی، چپل کیچڑ سے آلودہ ہوگئی ۔ اس کو صاف کرنے کے لیے آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے جھاڑا تو کچھ گندگی اُڑ کرمجوسی کی دیوار سے لگ گئی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس اُلجھن میں پڑ گئے کہ اگر صاف نہیں کروں گا تو دیوار گندی رہے گی، گندگی کھرچوں گا تو مٹی وغیرہ جھڑے گی اور یوں دیوار کو نقصان پہنچے گااسی شش وپنج میں آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا، جب مجوسی نے باہر نکل کر امام اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو دیکھا تو سٹپٹا گیا کہ ہو نہ ہو آپ اپنا قرضہ طلب فرمائیں گے لہٰذا معذرت چاہنے لگا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے دیوار کا قصہ بتا کر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اب آپ ہی تدبیر بتائیے تاکہ یہ دیوار صاف ہوجائے۔ اُس مجوسی نے جب امام اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا یہ تقوی اورحسن اخلاق دیکھا تو بول اٹھا: دیوار کی گندگی رہنے دیجئے پہلے مجھے داخل اسلام کرکے میرے دل کی گندگی صاف کردیجئے پھر الحمد للہ عز وجل وہ مجوسی مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

محترم قارئین!آپ خود بتائیں ایک طرف اسلاف کا روشن کردار دوسری جانب ہم بداطوار۔یہ مقام تائسف ہے کہ نہیں ۔کہ ہم کس ڈگر پر چل پڑے ہیں ۔یہاں ضمناًان احمقوں کی دنیاکے شہزادوں کو بھی بتاتاچلوں جو ہربات میں اسلام کو کمزور دین ثابت کرنے پر تلے رہے ہیں ۔جدیدیت کے نام پر حماقت ،شرارت و ضلالت کا پرچارکرتے پھرتے ہیں ۔دوسری قوموں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ۔او!اللہ کے بندے تیرے بزرگوں کی تاریخ انسانیت کی عظمت کا بہترین باب ہے ۔تجھے کہیں اور جانے کی حاجت نہیں ۔اسلام ہی تو ہے جس نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی ڈسکس کیاہے ۔حل بتایاہے ۔معذرت میں موضوع سے ہٹ گیا۔ضمناًایک بات تھی عرض کردی ۔بہر حال حکیم، نجومی، ادویہ ساز اداروں، سیاسی، سماجی، مذہبی اور لسانی تنظیموں سبھی کا نشانہ یہ دیواریں ہیں۔ دیواروں میں ہمارے سماج کا چہرہ بھی نظر آتا ہے۔ ہم ان سے معاشرے کے مختلف رجحانات کا اندازہ بھی کرسکتے ہیںمگر چونکہ اب دیواروں پر لکھنا، پوسٹر اور جھنڈے لگانا جرم بن گیا ہے اور مجرم کو اس کی سزا بھگتنا ہوگی۔میری معلومات کے مطابق حکومت نے ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت دیواروں کو تشہیری مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر کم سے کم چھ ماہ قید اور پانچ ہزار جرمانہ کیا جائے گا ۔اس قانون کے مطابق شہری اور دیہی علاقوں کی نجی اور سرکاری عمارتوں کی دیواروں اور دوسری جگہوں پر مالکان یا متعلقہ حکام کی مرضی کے بغیر کسی بھی قسم کی چاکنگ کرنا اور پوسٹر لگانا جرم تصور کیا جائے گا اور اس کی صفائی پر آنے والے اخراجات بھی ذمے داروں سے وصول کیے جائیں گے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اس قانون کے ذریعے لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے، لہٰذا مکمل تحقیقات کے بعد ہی کوئی کارروائی عمل میں لائی جائے اس کام کیلئے اس جرم کا مقدمہ درج کرنے سے قبل خصوصی کمیشن صورت حال کا جائزہ لے گا، اور اس کی سفارش کی روشنی میں جرم کا تعین کیا جائے گا۔

محترم قارئین !ہم لکھ کر بول کر برائیوں کے خاتمے اور اچھایوں کے پرچار کا علم لیے میدان عمل میں محوسفر ہیں ۔آپ کے تعاون ،آپ کی شفقت کے بغیر ثمرات و نتائج کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔تو پھر آپ جو کرسکتے ہیں خداراہ اتنا ضرور کیجیے !وال چاکنگ کرنے والے ،اداروں ،تنظیموں سے دست بہ دست اپیل ہے آج کے جدیددور میں تشہیر کے اور بہت سے مہذب اور مؤثر ذرائع موجود ہیں ۔ان سے استفادہ کریں ۔ان دیواروں پر لکھنے کی بجائے ۔اپنے کردار و گفتار،اچھی عادات و اطورسے دلوں کی دنیا میں اپنی محبت ،اپنی شفقت کے ایسے گہرے نقوش چھوڑ جائیں کہ عالم فنا سے عالم بقاء کو بھی چلے جائیں تو دنیا برسوں اپنے دلوں پر کندہ آپ کے عظیم کردار کے اشتہار کی تشہیر کرتی رہے ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593981 views i am scholar.serve the humainbeing... View More