۲نومبر کی شام تھی جب واہگہ
بارڈر پر حسب روایت پرچم اتارے جانے کی تقریب اپنے عروج پر تھی، سرحد کے اس
پار اور اس پار پرجوش نعروں سے عوام اپنے فوجیوں کے جذبات کو مزید تقویت
پہنچا رہے تھے۔ وہ فوجی جن کے فخر سے تنے ہوئے سر اور پھولے ہوئے سینے ایک
ایک عمل کے ذریعے ملک سے محبت دکھا رہے تھے۔سرحد کے اس پار اور اس پر نعرے
لگ رہے تھ ۔اس پار کے نعروں سے نہ تو ہمیں کوئی دلچسپی ہے اور نہ رہیگی۔
ہاں اس طرف کے نعروں میں کروڑوں محب وطنوں کی طرح ہمارے بھی نس نس سے زندہ
باداور پائندہ باد کے نعرے بلند ہورہے تھے۔جی چاہ رہا تھا کہ بھارت کو اس
وقت اپنے نعروں کے ذریعے بتادیں کہ ہم اک زندہ قوم ہیں۔ہم وہ قوم ہیں کہ جو
دنیا کا درد اپنے سینوں میں رکھتے ہیں، ہمارے حکمران چاہے تمہارے ساتھ کس
قدر دوستی کا ، تعاون کا ہاتھ بڑھائیں ، تمہارے حکمرانوں کی اک چھوٹی سی
دعوت پہ کھنچے چلے آئیں لیکن بھارتیو ، ہم عوام تہمارے دلوں کو ، تہماری
نیتوں کو خوب خوب پہنچاتے اور سمجتھے ہیں۔ہم سے بات بھی گر کرنا تو برابری
کی سطح پر کرنا۔ہمیں سری لنکا ، نیپال یا بنگلہدیش نہ سمجھنا۔
بہرحال تقریب ختم ہوئی اور سبھی ہم وطن اک یادگار شام کی یادیں سمیٹے لاہور
کی جانب چل پڑے، انہیں نہیں معلوم تھا کہ کچھ دیر میں کیسی قیامت ان پر
ٹھوٹنے والی ہے۔
وہ قیامت اک خودکش بمبارکی صورت میں اس وقت آئی جب جنت کے شاٹ کٹ کے چکر
میں اک نوجواں اپنے جسم سے بارود باندھے پھٹ گیا۔ وہ جوان اپنے جسم کے
بیسیوں پرزے کر کے شاید یہ سمجتھا ہوگا کہ جنت میں اس کا بہت اعلی اجر ہوگا
یہ تو اسے اسی روز ہی معلوم ہوگا جب اس کا انگ انگ اک اک لمحے کا حساب و
کتاب دیگا۔ اس کے تمام پیش رووٗں کو ، جنہوں نے اسے اس گھناؤنے مقصد کیلئے
تیار کیا اور یہ موصوف عقل سلیم رکھنے کے باوجود بمبار بن گیا، وہاں کیا
حساب دینگے یہ وہی جانیں گے۔
اس دین میں ایسے افراد کی کیا جگہ ہوگی جو سراسر سلامتی کا دین ہے ، جس میں
واضح کر دیا گیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
ایسے دین کے لانے والے نے کیا کیا صعوبتیں برداشت نہیں صرف اس لئے کہ لوگ
فلاح پا جائیں۔ لیکن اس دین کے پیروکاروں نے اس کو آلہ بنا کر اپنے مذموم
مقاصد کیلئے کس طرح سے استعمال کیا ، یہ خودکش بمبار اس کی اک مثال ہے۔ اس
بیچارے کو جنت کے کیا کیا نقشے دیکھائے گئے ہونگے۔ حور ، شباب ، و کباب ،
لطف و آرام کی کونسی کونسی مثالیں ان کے سامنے رکھکر ان کے ذہنوں کو
بدلاگیا ہوگا۔ گن آتی ہے اس سوچ سے بھی اور ایسے افراد سے بھی جو کہ ان
معصوموں کو اپنے مقاصد کیلئے اس طرح استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال اس وقت ان
لوگوں کے اس عمل کی شکایت اﷲ سے کرتے ہیں۔مجھ سمیت ہر مسلمان کا اس بات پر
یقین ہے کہ روز حساب ہونا ہے اور اس روز کوئی کسی کے کام نہیں آئیگا۔کیا
جواب دیں گے یہ لوگ ۔۔۔۔
مجھے تو ناز ہے اپنے ہم وطنوں پر ، مان ہے اور فخر بھی ہے اپنے پاکستانیوں
پر دل و جان سے سلام پیش کرتا ہوں ان تمام شہیدوں کو ، ان تمام زخمیوں کو ،
اور ان تمام افراد کو جنہیں اس قیامت کی گھڑی میں کوئی چھوٹ تک نہیں آئی ،
اور پھر سلوٹ کرتا ہوں ان تمام ہم وطنوں کو جو اگلے اس سانحے کے اگلے روز ،
اس سے کہیں زیادہ جذبے کے ساتھ اس تقریب میں شرکت کیلئے آئے۔ وہ جذبے ، وہ
توانا جذبے صرف اور صرف میرے پاکستانیوں میں ہی ہوسکتے ہیں۔ یہ عنایت اﷲ رب
لعزت کا اک خاص تخفہ ہے پاکستانی قوم کیلئے ۔ یہ جذبے دنیا کی کسی اور قوم
میں نظر نہیں آئینگے،کسی معاشرے میں اس کی جھلک نظر نہیں آئیگی۔یہ جذبات
صرف پاکستانیوں میں ہی موجزن ہے۔ اﷲ نے یہ جذبے یونہی نہیں دئے ۔ سوچیں اﷲ
کی دین کی سربلندی کیلئے بننے والی ریاست پاکستان ہے اس ملک نے اس کے
باشندوں نے تو بہت کچھ کرنا ہے۔ یہود و ہنود کو اس بات کا علم ہے۔ انہیں
معلوم ہے کہ ہماری قوم کس قدر جنونی قوم ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں اس
طرح کا واقعہ ہوا ہوتا اور اس کے اگلے روز پھر وہی تقریب ہوتی تو وہاں عوام
کی وہی صورتحال ہوتی جو بھارت کے عوام کی تھی۔ دنیا نے دیکھا کہ پاکستانی
عوام کہیں زیادہ تعداد میں آئے اور اس روز کیا آج تلک انکا جوش و جنون
دیدنی ہے لیکن دوسری طرف کے اسٹینڈ حالی پڑے تھے۔ بھارت اور اس کے آقا اگر
کسی چیز سے خوف زدہ ہیں تو وہ ہمارے جذبات ہیں۔اور انہی جذبات سے لرزاں ہیں
یہود و ہنود۔ لرزاں کی یہ کیفیت ان پر ہمیشہ طاری رہیگی۔ہماری عوام نے دنیا
کو بتا دیا ہے کہ ہم کسی سے کم نہیں ، جتنی چاہیں کوششیں کرلیں، ہمیں دبانے
کی ہمیں مٹانے کی ہمیں بٹانے کی لیکن ہم زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں کسی
بھی صورتحال میں رنجیدہ نہیں ہوتیں۔ہم اپنے اہداف کی جانب بڑھتے ہیں اور
انہیں حاصل کر کے ہی رہتے ہیں۔
ہماری عوام میں کسی بھی طرح سے صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں، ہر شعبے میں
نمایاں کارکرگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کرکٹ کو ہی دیکھ لیں ، دنیائے
کرکٹ کے ٹھیکداروں نے اپنے تئیں ہر کوشش کرلی کہ ہماری ٹیم کو پست ترین
درجے پر پہنچانے اور وہاں سے بھی باہر نکالے کی۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ وہ
کپتان جسے غیر تو غیر اپنے بھی مسٹر ٹک ٹک کہتے تھے اس نے دنیا کی مظبوط
ترین ٹیم کے سامنے کس طرح تیز ترین نصف سینچری اور سینچری بناڈالی۔ وہ
آسٹریلیا جسے اپنے آپ پر غرور تھا اس کے تمام تر غرور کو خاک میں ملادیا۔
یونس خان جسے اک سازش کے تحت کرکٹ ٹیم سے علیحدہ کرنے کی مذموم کوشش جاری
تھیں، اس نے کس طرح اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔
کیا ہوا جو ہمارے حکمرانوں میں دم نہیں، کیا ہوا، جو ہماری حکومتیں اپنی
مرضی کے فیصلے نہیں کر سکتیں۔ عوام اب جاگ چکی ہے ، حکمرانوں کو اس بات کا
علم ہوچکا ہے کہ اب پاکستانی عوام ویسی نہیں رہی جیسے ماضی میں تھی۔ آج
عمران خان ۸۰ دنوں سے اسلام آباد میں دھرنا دیئے بیٹھا ہے اس کے دہرنے نے
اس عوام کو وہ شعور دیا ہے جو آج تک کسی رہنما نے نہیں دیا تھا۔ مخص ۱۸
برسوں کی جدوجہد میں اس نے عوام کو اٹھا کر ان کے ہونے کا احساس دلا دیا
ہے۔ یہ احساس ہی ہے کہ آج کسی بھی شہرمیں اسے جلسہ کرنے کیلئے گراؤنڈ نہیں
اسٹیڈیم چاہئے ہوتا ہے جو کہ کم پڑجاتا ہے۔
عمران خان نے ماضی میں جس طرح کرکٹ ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے ورلڈ کپ جیتوایا
تھا ملک کا نام دنیا بھر میں روشن کیا تھا اسی طرح سے عمران خان ایک بار
قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے دنیا میں پاکستان کا نام اور مقام روشن
کریگا ، اس کو صحیح معنوں میں قائد اعظم کا پاکستان بنائیگا۔
پاکستان اور اسلام کے دشمن جس قدر چاہیں کوششیں کرلیں وہ پاکستانی عوام کے
جذبات کو مدہم نہیں کرسکتے ہیں۔کیونکہ ہماری قوم اک زندہ قوم ہے اور زندہ
قومیں کے جذبات کبھی مدہم نہیں ہوا کرتے۔ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت
گردی سے برسرپیکار قوم آج بھی توانا ہے۔ ہاں ضرورت اگر ہے تو اس بات کی کہ
کوئی انتہائی محلص رہنمااس قوم کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرئے اور اسے اس
کے منزل مقصود تک پہنچادے۔ |