خانقاہی نظام٭٭٭حقیقت یا فسانہ پہلی قسط

بیشمار ایسے حقائق اور روایات ہیں کہ باہمی افراط و تفریط کے نتیجے میں عوام الناس کیلئے الجھنوں کا باعث بن چکے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک " اسلام کا نظام خانقاھی" ہے۔ حالیہ دنوں میں جعلی عاملوں اور شعبدہ بازوں کے حوالے سے میڈیا پر کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو وجود پر رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔ کہیں کسی جعلی عامل کے کہنے پر ماموں من کی مرادیں پانے کیلئے، مستقبل کے سہانے خواب دیکھتے ہوئے معصوم بھانجوں کو خاک و خون کی نظر کر دیتا ہے۔ تو دوسری طرف جاہل لٹیرے (بزعم خویش پیر) کی پیشین گوئی پر ایک نوجوان خزانے تلاش کرتے کرتے خود ھی اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتاہے۔ یقینا خانقاھ اور طریقت کے نام پر یہ واقعات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔

عام آدمی الجھن کا شکار ہو کر دم بخود ہو جاتا ہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ اور اس کے ساتھ ہی ذہن میں کئی سوالات بھی جنم لیتے ہیں کہ کیا تصوف و طریقت کا شریعت اسلامیہ میں کوئی اصل اور ثبوت بھی ہے یا کہ صرف توہم پرستی، جہالت یا خرافات کا ھی یہ مجموعہ ہے۔

ایسی صورت حال میں ان لوگوں کو بھی کھل کر تصوف و طریقت پر منفی تنقید کا موقع مل جا تاہے جو مستشرقین کی عینک لگا کر متعصبانہ انداز میں کبھی توتصوف و طریقت کو افیون ذدہ قرار دیتے ہیں تو کبھی اسے عجمی تصورات اور توہمات کا نتیجہ۔ اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ وقت، حالات اور ماحول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے علومِ اسلامیہ کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ لیں کہ کیا تصوف و طریقت نظام خانقاہی کی صورت میں ہمارے دین کا ایک حصہ ہے یا صرف خیالی و تصوراتی دنیا میں بدعات کو رواج دینے کا ذریعہ۔

مذہبی حوالے سے انسان کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں مذہب اور دین کے نام پر جہالت اور خرافات کا پرچار کرنے والے کچھ ایسے لوگ رہے جنہوں نے طرح طرح کی فضولیات گھڑ کراُن پر دین کا لیبل لگا دیا۔ اور پھر عقائد حقہ سے نابلد، علم و عمل سے عاری، توہم پرستی کے مریض اور فہم و عقلِِ سلیم سے فارغ کچھ ایسے پیروکار بھی ہاتھ آ جاتے ہیں جو ان کے مشن کا پرچار کرتے ہیں۔ حرم کعبہ میں پڑے ہوئے 360بت ہوں یا خانہ کعبہ شریف کا ننگے بدن طواف۔ بچیوں کا زندہ درگور کرنا ہو یا بت گری و بت فروشی۔ یہ تمام کام زمانہ جاہلیت میں مذھب کے لیبل کے ساتھ ہی سرانجام دیے جا رہے تھے۔ بلکہ وہ لوگ اپنے آپ کو بزعم خویش موحد اعظم حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حسبی و نسبی وارث سمجھتے تھے۔ لیکن ان کے عقائد باطلہ اور اعمال بد گواہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت و کردار سے انہیں دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ چونکہ دین کے نام پر اس تمام لادینیت کا بنیادی سبب جہالت ہے۔ اسی لیے کفر، شرک، بدعات اور ضلالت جیسی بیشمار خرابیوں کے باوجود ہر دور میں مورخین اسلام اور سیرت نگاروں نے اس دور کیلئے ایک جامع لفظ دور جاہلیت (Time of Ignorance) لکھا ہے۔

علی ھذالقیاس آج بھی جعلی پیری مریدی کے نام پر جو روح فرسا مناظر سامنے آرہے ہیں یقینا یہ بھی جہالت کی ہی پیداوار ہیں۔ جس طرح زمانہ جاہلیت کے کرتوتوں کا صرف نام استعمال کرنے کی وجہ سے دین ابراہیمی سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح دور حاضر کی خرافات کابھی صرف نام استعمال کرنے کی وجہ سے دین مصطفویﷺ کی روح یعنی حقیقی تصوف و طریقت سے کوئی دور کا واسطہ واسطہ بھی نہیں۔ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات کے طور پر ہماری مکمل راہنمائی کرتا ہے اس کی اپنی حدود و قیود ہیں جن کی کامل اطاعت شعاری ہی دین اسلام سے وفا داری ہے۔

خانقاہی نظام اور پیری مریدی کے نام پر گمراہی پھیلانے والوں کا بلا خوف و خطر آہنی ہاتھوں کے ساتھ سخت ترین محاسبہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ رکھ رکھاؤ اور ملمہ سازیوں سے بالاتر ہو کر ھمیں اپنی زبانِ قلم اور قلمِ زبان کے تالے توڑ کر حقائق کی اس انداز میں پردہ کشائی کرنی ہو گی کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ورنہ ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اور ہو گا جس کے ذمہ دار ہم سب ہوں گے۔
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں، مجھے خدایان خانقاہی ٭٭٭ انہیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگ آستانہ
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی ٭٭٭ عمل سے فارغ ہوا مسلمان، بناکے تقدیر کا بہانہ
حالیہ دنوں میں کچھ واقعات تو سامنے آئے لیکن اس طرز کے بے شمار وہ واقعات ہیں جو ہزاروں کی تعداد میں روزانہ پیش آتے ہیں لیکن میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے شہرت پاتے ہیں اور نہ حدف تنقید بنتے ہیں۔ اس حوالے سے ہارا مجموعی طرز عمل بھی بڑا عجیب ہے۔ چاہیے تو یہ تھا ہم کھوج لگاتے کہ ان واقعات کے اسباب کیا ہیں اور کونسے ادارے یا افراد ہیں کہ جن کی چشم پوشی، عدم فرض شناسی یا کوتاہی ان واقعات کے وقوع پزیر ہونے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ادہر سے کسی شعبدہ باز اور جاہل نے کوئی کاروائی کی تو فورا ہدف تنقید اسلام کا نظام تزکیہ نفس اور تطہیر باطن بن گیا۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اس طرز عمل سے بھی جہالت کی بو آتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جب مسجد سے جوتیاں چوری ہونے لگیں تو بجائے جوتی چوری کا سد باب کرنے کے ہم مسجدوں کو حدف تنقید بنائیں اور انہیں تالے لگا دینے پر غور و فکر کریں۔ یا کوئی داڑھی رکھ کر چوری کرے تو اس کا محاسبہ کرنے کی بجائے باریش علماء پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیں۔ اس کو احمقانہ حرکت کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔غلط اور فرسودہ ذہنیت کے لوگ مذھب اور طریقت کے نام پر لالچ اور دھوکہ دہی سے ایسی حرکات و سکنات تو کرتے ہی ہیں لیکن ہمیں ببانگ دہل اس حقیقت کا بھی معترف ہو نا چاہیے کہ ان کے اس بھونڈے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے بہت سے ادارے اور افراد بھی ذمہ دار ہیں۔ ہم وطن عزیز پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ ہر خوبصورت در و دیوار پر جعلی عاملوں اور شعبدہ بازون کی اشتہار بازیاں وال چاکنگ کی صورت میں عام ہیں۔ جن کو پڑھ پڑھ کر لوگ ان جعلی عاملوں کے پاس جاتے ہیں اور بالآخر جانی و مالی نقصان ہی نہیں اٹھاتے بلکہ بسا اوقات ایمان و ایقان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کیا مالکان مکان، محکمہ شہری دفاع اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اندھے ہیں ِِ ِ کوتاہ نظر یا پھر اس کے بھیانک نتائج سے بے خبر۔

ایسے واقعات کو تقویت دینے میں وہ الیکٹرانک اور پرنت میڈیا بھی برابر کا شریک ہے جو چند ٹکون کی خاطر ان جاہل اور نفس پرست عاملوں کے اشتہارات چلا کر لوگوں کو سر عام دعوت گناہ دیتے ہیں۔ جن بزرگون کے درباروں پر یا ان کے احاطہ کے ارد گرد ایسے عامل اور جیب تراش اپنے گاہکوں کی تلاش مین گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، وہاں کے سجادہ نشین اور ائمہ و خطبا پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ چشم پوشی کی بجائے پوری ایمانی، اخلاقی اور قانونی جرائت اور قوت کے ساتھ اس کی بیخ کنی کریں۔ اور جو دربار محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام ہیں، ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ ان بزرگون کے مزارات کے احاطے کو ایسی شرمناک حرکات و سکنات سے پاک کریں۔ کم علمی یا اپنی کوہتاہیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے جو لوگ تصوف و طریقت کو ہدف تنقید بناتے ہیں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ تصوف و طریقت دین اسلام کی اصل اور روح ہے۔ لغت کے اعتبار سے اس کا تعلق صوف سے ہو یا حقیقت کے اعتبار سے صفا سے حْیقت یہ ہے کہ تمام سلاسل طریقت کا مقصود اصلی روح دین یعنی تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کا حصول ہے۔ تصوف اسلامی کی خصوصیت اور کمال یہ ہے کہ اس نے ایک طرف محض حرف شناسی اور ظاہر پرستی کو دین کامل بننے سے روک لیا تو دوسری طرف روحانیت کے نام پر انسانوں کو رھبانیت کی دل دل میں پھنسنے سے بھی بچا لیا۔ اور ایک ایسا رستہ بتا دیا کہ جس کے ذریعہ بیک وقت دل کی دھڑکنون میں زکر الہی اور عشق رسولﷺ کے دیپ روشن ہیں اور بظاہر اطمینان بخش زندگی بمعہ اپنے معاشرتی اور معاشی تقاضوں کے رواں دواں ہے۔ تصوف اسلامی پر اعتراض کبھی تو جہالت اور علوم اسلامیہ سے نابلد ہونے کی بنا پر ہوتے ہیں جس کا بڑا سبب کسی مرد کامل اور عارف باللہ کی صحبت سے محرومی بھی ہو سکتا ہے اور کبھی کبھی یہ انکار بے جا تعصب، تجاہل عارفانہ اور خدا واسطے کے بیر کا بھی شاخسانہ ہوتا ہے۔ (جاری ہے)
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240907 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More