غیر جانبدارانہ اور منصفانہ بنیادوں پر انسانی خدمت کی ضرورت
(Abdul Qadoos Muhammadi, )
مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل
سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان
گزشتہ دنوں انسانی خدمت کے بین الاقوامی اور غیر جانبدار ادارے انٹرنیشل
کمیٹی فار ریڈ کراس کی جانب سے اسلام آباد میں ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد
کیا گیا جس میں اندرون وبیرون ملک سے بہت سے اہل علم ،انسانی خدمت کے شعبے
سے وابستہ سرکردہ شخصیات اور ارباب فضل وکمال شریک ہو ئے ۔اس دو روزہ
کانفرنس میں کئی فکر انگیز موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا ۔راقم الحروف کو
بھی اس کانفرنس کی اختتامی نشست میں اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی ۔اس اہم
ترین موقع پر’’انسانی خدمت کے غیرجانبدارانہ اور منصفانہ استعمال کے موضوع
پر جو معروضات پیش کیں ان کا خلاصہ ذیل میں پیش خدمت ہے ۔
میں سمجھتاہوں کہ خدمت اﷲ رب العزت کا محبوب ترین عمل اور اﷲ رب العزت کے
برگزیدہ بندوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔حدیث مبارکہ میں آتا ہے’’ اﷲ کی مخلوق
اﷲ کا کنبہ ہے اور اﷲ کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اﷲ کی مخلوق
کے ساتھ سب سے زیادہ اچھا ئی سے پیش آئے‘‘ ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے’’ لوگوں
میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع کا باعث بنے
‘‘۔جب ہم پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں تمام انبیاء کرام خدمت ِخلق کے
عظیم عمل میں مشغول نظر آتے ہیں لیکن ہمارے پیار ے آقاصلی اﷲ علیہ وسلم کی
پوری زندگی انسانیت کی خدمت سے عبارت نظر آتی ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بے
جا نہ ہو گا کہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمدمدنی کریم ﷺ انسانیت کی خدمت کا
محور ومرکز دکھائی دیتے ہیں ۔ آپ ﷺ کو اﷲ رب العزت نے جب نبوت کے منصب پر
فائز فرمایا ، آپ ﷺ کو پہلی وحی کی دولت سے سرفراز فرمایا تو آپﷺ پریشانی
کے عالم میں گھرتشریف لائے ، امی جان سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے آپ ﷺ کو تسلی
دیتے ہوئے جو کلمات ارشاد فرمائے وہ قابل غور ہیں
حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کی پانچ صفات بیان فرمائیں جنہیں صفات خمسہ کہاجاتاہے
اور ان صفات خمسہ میں گویا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو سمو
دیا گیا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے معاملات،معمولات ،رویے ،ترجیحات اور
اخلا ق وکردار کیسا تھا۔ آپ ﷺ صلہ رحمی کرنے والے تھے ۔ صلہ رحمی صرف یہ
نہیں کہ آدمی اچھا ئی کا بدلہ اچھائی سے دے بلکہ فرمایا جو تم سے تعلق توڑے
تم اس سے جوڑو ، جو تم سے برا کرے تم اس سے اچھا کرو! اس سے معلوم ہوا کہ
خدمت اور صلہ رحمی میں صرف یہ نہیں کہ جو اچھا ہو اسی کے ساتھ اچھائی کی
جائے بلکہ اس معاملے میں اچھے برے کی کوئی تفریق نہیں ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
بوجھ والوں کا بوجھ اٹھاتے یہاں تک کہ اگر کوئی آپ کا جانی دشمن ہوتا ،کوئی
آپ کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر شہر چھوڑ کر جانے لگتا تو
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے حصے کا بوجھ بھی اپنے مبارک کندھوں پر اٹھاتے
تھے ۔اس کے ساتھ مہمان نوازی ، بے سہاروں اور بے آسراؤں کو کما کردینا اور
قدرتی آفات کے موقع پر لوگوں کے ساتھ تعاون کرنا یہ بھی آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی امتیازی شان اور پیغمبر انہ وصف تھا۔یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آپ
ﷺ نبوت کا منصب عطا ہونے سے پہلے بھی خدمت انسانیت کے ان پانچوں اوصاف کا
پیکر مجسم تھے اور نبوت ملنے کے بعد تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین
بن گئے ۔
جب ہم یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ نبوت ملنے سے قبل بھی آپ ﷺ میں یہ صفات
موجود تھیں تو اس کا صاف نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صلہ
رحمی ،مہمان نوازی ،بے سہاروں کی مدد ،مصائب کے موقع پر تعاون اور لوگوں کی
کفالت کے معاملے میں اسلام اور کفر کی ،اپنے اور پرائے کی ،قریب اور دور کی
اور سیاہ وسفید کی کوئی تمیز اور تفریق نہیں تھی کیونکہ یہ اس دور کی بات
ہو رہی ہے جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعوی نبوت نہیں کیا تھا۔ بات صرف اتنی
سی ہی نہیں تھی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مسلمانوں کے لیے توسراپا شفقت ہوں
اور غیر مسلموں کے لیے نہ ہوں بلکہ آپ ﷺ نے اپنے قول وعمل کے ذریعے بار
باراس بات کا احساس دلایا کہ خدمت کے معاملے میں ، تعاون کے معاملے میں ،
حسن ِسلوک اور حسن ِاخلاق کے معاملے میں اچھے برے کی ، کافر ومسلمان کی اور
اپنے پرائے کی کوئی تفریق اور تقسیم نہیں ہے ۔
بلکہ ہمیں تو آپﷺ کی زندگی سے یہ بھی درس ملتاہے کہ آپﷺ نے خدمت کے معاملے
میں صرف اسلام وکفر کی تفریق ہی نہیں مٹائی بلکہ آپ ﷺ نے جو طرز زندگی عطا
فرمایا اس میں حیوانوں اور جانوروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کا خیال رکھنے
کا بھی درس دیا گیا ۔ ہمیں کتب سیرت اور کتب فقہ میں ’’ مؤلفۃ قلوب ‘‘ کی
ایک مستقل اصطلاح ملتی ہے ، ہمیں قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی بے شمار
مثالیں نظر آتی ہیں، جہاد کے آداب پر طویل کتب اورتحقیقات ملتی ہیں اور پھر
خاص طور پر وہ کلچر جس میں زخمیوں کی دیکھ بھال کی حدود میں ، ان کی مرہم
پٹی کے معاملے میں کسی قسم کی دراندازی اور مداخلت نہیں کی جاتی تھی اور نہ
ہی کوئی رکاوٹ کھڑی کی جاتی تھی ، ہلاک ہوجانے والوں کا مثلہ نہ کرنے کی
سختی سے ہدایت تھی ۔ جہاد کے بارے میں جملہ آداب میں ہمارے لیے یہی سبق ہے
کہ خدمت کا عمل ہر قسم کی وابستگی سے بالاتر ہونا چاہیے، اس پر کوئی چھاپ
نہیں ہونی چاہیے ،مسلمان اور کافر ہی نہیں دوست اور دشمن میں بھی کوئی فرق
نہیں ہونا چاہیے۔
یہ تو صرف سیرت طیبہ کی ایک جھلک تھی ورنہ مسلمان حکمرانوں ،سپہ سالاروں
اور فاتحین نے جس انداز سے انسانیت کی خدمت کی اس کے حالات وواقعات کو اس
مختصر سی تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔جبکہ آج ہماری صورتحال اس سے
بالکل مختلف ہے ۔ا ٓج ہمیں یہ نظر آتاہے کہ اگر کبھی کسی ایسے علاقے میں
زلزلہ یا سیلاب آجائے جہاں غیر مسلم بستے ہوں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری
بَلا سے! وہ جانیں اور ان کے کام! لیکن اگر مسلمان علاقے کسی آفت کی زد میں
آجائیں تو پھر سب تڑپ اٹھتے ہیں ۔ بلکہ میں تو اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ
کر کہوں گا کہ خود مسلمانوں کے بہت سے گروہ ایسے ہیں جن میں انسانیت کی
خدمت ، فرسٹ ایڈ اور ریسکیو اور ریلیف کے معاملے میں دانستہ یا نادانستہ
،قصدا ً یا سہواًتفریق وتمیز اور جانبداری دیکھنے میں آتی ہے ۔ دیکھنے میں
یہ آیا ہے کہ جب لال مسجد یا تعلیم القرآن یادیوبندی مکتب فکر سے نسبت
رکھنے والے کسی ادارے یا علاقے میں کوئی حادثہ ہو جائے تو ہمیں المصطفیٰ کی
کوئی ایمبولنس یا کوئی گاڑی نظر نہیں آتی ، جب داتا دربار میں سانحہ ہوتاہے
تو وہاں معمارٹرسٹ دکھائی نہیں دیتا، اگر کسی امام بارگاہ میں کوئی دھماکا
ہوتاہے تو اس میں ہمیں الخدمت اور جماعت الدعوۃ کی کوئی خاص سرگرمی نظر
نہیں آتی ۔ میں سمجھتا ہوں اس میں دونوں طرف شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔
خدمت کرنے والوں کو اس بات پر آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ ہر قسم کی تفریق وتمیز
سے بالاتر ہوکر محض انسانیت کی بنیاد پر خدمت کریں اور یہ تفریق نہ کی جائے
کہ یہ مسئلہ شیعہ یا سنی مسئلہ ہے ، یہ حادثہ دیوبندی یا بریلوی حادثہ ہے ،
ا س علاقے اور اس خطے میں فلاں قوم وقبیلے ، رنگ و نسل اور مسلک سے وابستہ
لوگ رہتے ہیں ۔ اسی طرح متاثرہ فریق کو بھی یہ بات خوب اچھی طرح باور
کروانے کی ضرورت ہے کہ ایمبولنس پر معمار ٹرسٹ کا لوگو لگا ہو یا جماعت
الدعوۃکا ، فرسٹ ایڈ کا کیمپ المصطفیٰ نے لگایا ہو یا الخدمت نے،خدمت کرنے
والے رضاکار کے سینے پر ریڈ کراس کا نشان ہو یا ہلال احمر کا ان میں کوئی
تفریق نہیں ہونی چاہیے نہ وہ کیمپ اکھاڑنے کی بات ہونی چاہیے اور نہ ہی
ایمبولنسوں کوجلانے کے منصوبے بننے چاہیں ۔
ہمیں اپنے کلچر، ماضی کے تجربات ، لوگوں کے مزا ج اور علاقائی حالات کو
مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رکھنی ہے کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا ، آسان
اور سادہ نہیں بلکہ اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے یہ مناسب
ہوگا کہ ICRCجیسا کوئی ادارہ تمام مکاتب فکر کی سرکردہ شخصیات، تمام طبقات
کے نمائندگان اور تمام اسٹیک ہولڈر زکو کسی فورم پر جمع کرے ۔ اس بات پر
اتفاق رائے پیداکرنے اور کسی معاھدے پر دستخط کروانے کی راہ ہموار کی جائے
کہ خدمت اور ریسکیو وریلیف کاکام ہر قسم کی تفریق سے بالاتر ہوکر کیا جائے
گا اور اس معاھدے کی بہت زیادہ تشہیر کی جائے ، تمام مکاتب فکر کی سرکردہ
شخصیات اپنے اپنے فالوورز کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ خدمت کے معاملے
میں ہرقسم کی تفریق سے بالا تر ہوجائیں اور اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی
لانے کی فکر کریں ۔
اسی طرح خدمت کے عمل کوآزادانہ اور غیر جانبدارانہ بنانے کے لیے یہ بھی
ضروری ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ خدمت کی آڑ میں کسی قسم کی منفی
سرگرمی نہ ہونے پائے جیسا کہ ہمارے ہاں پولیو ویکسینشن کی آڑ میں جو کچھ
کیا گیا اس نے خد مت اور فلاح وبہبود کے پورے عمل پر سوالیہ نشان کھڑا
کردیا ، اسی طرح این جی اوز اور فلاحی ورفاہی اداروں کے شیلٹر تلے سے جو
مشکوک افراد پکڑے گئے یا جو لوگ ملکی سلامتی کے حوالے سے مشکوک سرگرمیوں کے
مرتکب پائے گئے ان کے اس عمل نے بھی انسانیت کی خدمت اور فلاح وبہبود کے
محاذ پر کام کرنے والوں کے لیے خاصی مشکلات پیدا کی ہیں جبکہ دوسری طرف
حکومتوں سے لے کر عام آدمی کا رویہ بھی اصلاح طلب ہے کہ ہم ہر کسی کو شکیل
آفریدی سمجھنے لگتے ہیں ، ہر کسی کو غیر وں کا ایجنٹ اور آلہ کار قرار دیتے
ہیں،ہمیں دونوں اطراف کے لوگوں کو اس بات پر قائل کرنا ہوگا کہ جب تک ہم
اپنا زاویہ نگا ہ نہیں بدلیں گے تب تک بات نہیں بن پائے گی ۔ |
|