منشیات کی لعنت سے چھٹکارہ
(Professor Masood Akhter Hazarvi, luton)
دور حاضر کے بڑے بڑے مسائل میں
سے ایک منشیات کی لعنت ہے۔ شائد ہی کوئی خطہ زمین اس سے محفوظ ہو۔ نوجوان
نسل میں منشیات کا فروغ ہر شعبہ زندگی کیلئے ایک تشویشناک امر ہے۔ اس کی
وجہ سے کئی ہنستے بستے گھر اجڑ چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا
بھر میں کروڑوں افراد اس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ لمحہ فکریہ یہ کہ ہر سال اس
تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی بھی خاصی
تعداداس لت کا شکار ہو رہی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال 35 لاکھ
سے زیادہ افراد صرف منشیات کے استعمال کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔۔
تعلیمی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں بلکہ وہاں اس کا رجحان مزید بڑھ رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان منشیات کی سمگلنگ اور استعمال
میں کیوں پھنس جاتے ہیں؟ غور و حوض سے پتہ چلتا ہے کہ اخلاقیات سے عاری
نظامِ تعلیم اور والدین کی عدم توجہی بچوں کو بے راہروی کا شکار کر دیتے
ہیں اور اسی رستے پر چلتے ہوئے وہ منشیات کے عادی بن جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ
پہلے جب ہندوستان کے شہر دہلی میں ایک دوشیزہ اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی
تو وہاں کے وزیر اعظم اور صدر نے کہا تھا کہ ایسے واقعات کی روک تھام اس
وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ نصاب تعلیم میں ان ”اخلاقی تعلیمات“ کو جگہ نہ
دی جائے جن کی راہنمائی اسلام کرتا ہے۔ اور یہ ایک زندہ جاوید حقیقت ہے کہ
سوائے اسلام کے کسی مذہب و ملت کے پاس انسان کی فطرت اور ضرورت کے عین
مطابق ایسا مضبوط اور مربوط ”نظامِ اخلاقیات“ موجود نہیں جو ہر دور کے
تقاضوں کو بطریق احسن پورا کر سکے۔ جہاں تک منشیات کے استعمال کا مسئلہ ہے
اس حوالے سے اسلام کی پالیسی واضح ہے۔ اسلام میں اس کو حرام قرار دیا گیا
ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولﷺ نے حلال و حرام کے قطعی اصول بیان فرما
دیئے۔ بعد ازاں اس میں کسی کے ذاتی مفادات کو کوئی دخل ہے اور نہ ہی کوئی
اپنی مرضی سے کسی چیز کو حلال و حرام قرار دے سکتاہے۔ بلکہ کسی بڑے یا
چھوٹے کو اس کے استعمال میں استثناء بھی حاصل نہیں۔ قرآن عزیز میں تین
مقامات پرنشے کی علت کی ہی وجہ سے شراب کی حرمت کا تدریجا حکم آیا۔یہاں تک
ارشاد فرما دیا گیا کہ ”حالت نشہ میں نماز کے قریب مت جاؤ“ جملہ کتب احادیث
میں اس حوالے سے باضابطہ ابواب ہیں جن میں نشے کے حرام ہونے کو واضح کیا
گیا۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ راوی ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ”کل مسکر
حرام“ کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی
روایت میں مزید وضاحت موجود ہے کہ ”کل مسکر خمر و کل خمر حرام“کہ ہر نشہ
دینے والی چیز عقل کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اور ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز حرام
ہے۔ اسی طرح حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ”جس چیز کا زیادہ استعمال نشہ لائے
اس کا قلیل استعمال بھی حرام ہے“ منشیات کے پھیلاؤ کے اسباب اور اس کے
تدارک کی کچھ تدابیر حسب ذیل ہیں۔
.1راتوں رات امیر بن جانے کی لالچ اور حرص میں مبتلا لوگ ڈرگ مافیا کے شکار
بن جاتے ہیں۔ اس جال میں اس طرح پھنس جاتے ہیں کہ پھر نکلنا آسان نہیں
ہوتا۔ یہ لوگ اپنے ضمیر کو گہری نیند سلا کر حلال و حرام کی تمیز سے بے
بہرہ ہو کر، اس زہر قاتل کو اپنی زندگی سنوارنے کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں آخرت کی سزا تو ہے ہی بہرکیف اکثر دنیا میں بھی ذلیل و
رسوا ہوتے ہیں یا جیل کی ہوا کھاتے ہیں۔
2۔کبھی سکون کی تلاش میں نشہ کا استعمال کیا جا تا ہے۔ دین سے دور ہو کر
لوگ دنیا کے مال و دولت اور عیاشیوں میں سکون قلب تلاش کرتے ہیں۔ یہاں سے
بھی مایوسی ہو جائیں تو منشیات کی طرف راغب ہو کر سکون تلاش کرنے کی سعی
لاحاصل کرتے ہیں۔ لیکن قرآن پاک کا ابدی اور قطعی فیصلہ ہے کہ ”دلوں کا
اطمینان اللہ کی یاد سے وابستہ ہے“۔
3۔ بسا اوقات ذہنی دباؤ اور دیپریشن بھی منشیات کی طرف رغبت سبب بن جا
تاہے۔ جو لوگ اپنی معاشی، سماجی، سیاسی یا خاندانی حیثیت سے غیر مطمئن ہوتے
ہیں۔ یا دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو کم تر سمجھتے ہیں تو وہ بھی نشہ
کا سہارا لے کر اپنے آپ کو دباؤ سے باہر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقتا اس
کی وجہ بھی ایمان کی کمزوری اور دین سے دوری ہے۔ ورنہ ان خرافات کا بندہ
مومن سے کیا تعلق اور واسطہ۔
4.۔ کچھ لوگ مالی لحاظ سے خود کفیل ہوتے ہیں۔ کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا
بلکہ فارغ البال ہوتے ہیں۔ فارغ اوقات کو نشہ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے
لوگوں کو چاہیے کہ باقاعدگی کے ساتھ عبادات اور رفاع عامہ کے کاموں کی طرف
متوجہ ہوں۔ اپنے آپ کومطالعہ کی عادت ڈالیں۔ خصوصا نوجوانوں کیلئے فراغت
بہت بری بیماری ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا کہ مجھے وہ شخص انتہائی
ناپسند ہے جو فارغ اور نکما ہو۔ نہ دین کا کوئی کام کر رہا ہو اور نہ ہی
دنیا کا۔علاوہ ازیں جنسی بے راہروی، غربت اور افلاس، گھریلو ماحول کی
پریشانیاں اور سگریٹ نوشی بھی نشہ کی لعنت میں مبتلا ہونے کا سبب بن جاتی
ہیں۔
”منشیات سے بچاؤ“ اس وقت دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کبھی اس حوالے سے دن
اور ہفتے منائے جاتے ہیں تو کبھی مجاس اور کانفرنسوں کا اہتمام کیا جاتا
ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ لعنت روز بروز بڑھ رہی ہے اور کمی کے بھی
بظاہر آثار نظر نہیں آتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کے ذریعے نشہ کے دینی اور دنیوی نقصانات کو
واضح کیا جائے۔والدین گھروں کے ماحول میں اصلاحی اقدامات کریں۔ بچوں کی
اخلاقی تربیت کی طرف توجہ دیں۔ ان پر نظر رکھیں اور انہیں بری صحبت سے
بچائیں۔ خطبات جمعہ میں ایسے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی جائے اور لوگوں
کی راہنمائی کی جائے کہ خود اس سے کیسے بچیں اور اپنی اولادوں کو کیسے
بچائیں۔ بچوں کے لیے صحت افزاء سرگرمیوں کا ماحول پیدا کیا جائے۔ انہیں
کھیلوں اوررفاع عامہ کے کاموں کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ ایسی فضولیات کی
طرف جانے کی بجائے وہ خوشگوار سرگرمیوں میں مصروف عمل رہیں۔ |
|