’’ایک امریکی تحقیق کے
مطابق والدین کی لڑائی جھگڑے کے دوران بچوں کا ذہن اتنا ہی متاثر ہوتا ہے
جتنا ایک فوجی کا جنگ کے دوران ہوتاہے ‘‘
کبھی یہ سوچاہے کہ آپ کے آپس کے جھگڑوں سے بچے کن مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ گھریلو جھگڑے بچوں کی ذہنی نشوونما کو متاثر کرتے
ہیں ۔ ان جھگڑوں میں براہ راست حصہ دار نہ ہونے کے باوجود بچوں کے رویوں
میں تبدیلی رونما ہوتی ہے جسکی وجہ سے ایسے بچے پڑھائی میں عدم دلچسپی لیتے
ہیں ، 3 سالہ ریسرچ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ والدین کے آپس کے تعلقات
بچوں کے مستقبل پر بہت ذیادہ اثر انداز ہوتے ہیں شوہر اور بیوی کی لڑائی
بچوں کے سامنے نہیں ہونی چاہییے مگریہ کس طرح ممکن ہے کہ لڑائی کو بچوں سے
چھپایاجائے لڑائی ،جھگڑے ، اختلافات کسی بھی خاندان میں زندگی کا لازمی جز
ہوتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ آپ ان اختلافات کو کیسے حل کرتے ہیں اکثر
والدین یہ سمجھتے ہیں کہ انکا بچہ ابھی چھوٹا ہے ان کی لڑائی جھگڑے کو کیا
سمجھ سکے گا اُنکی یہ سوچ سراسر غلط ہے کیونکہ جس طرح بچے پیار و محبت
سمجھتے ہیں اسی طرح لڑائی جھگڑے کو بھی سمجھتے ہیں وہ جس طرح پیار محبت کا
اظہار کرتے ہیں اُسی طرح لڑائی پر ردِعمل ظاہر کر سکتے ہیں جن گھروں میں
والدین کے درمیان جھگڑے ہوتے ہیں ان کے بچے عموماً کند ذہن ہوتے ہیں جس کے
اثرات تمام عمر ان کی زندگی پر پڑتے ہیں نہ وہ تعلیم پر توجہ دے پاتے ہیں
نہ ہی ضرورت کے مطابق رشتے نبھا سکتے ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی
اختلاف ہوتا ہے تو ہم اپنے آپ پر قابو نہیں کر پاتے سوچنا سمجھنا بند ہو
جاتا ہے اور لاپروائی سے چیخنا چلانا شرو ع کر دیتے ہیں دروازہ زور سے بند
کر تے ہیں چیزوں کی توڑ پھوڑ شروع ہوجاتی ہے اپنے بچوں کو یہ بتاتے ہیں کہ
اس طرح غصے میں گرجنا ،برسنا ، سخت لب و لہجہ اختیار کرنا ، پرانی باتوں کو
دہرانا اور ایک دوسرے کو غیر ضروری لعن طعن کرنا صحیح ہے
بچوں کو کوئی بات سمجھانا اتنا آسان نہیں جتنا کہ اُسے تصور کیا جاتا ہے ،
بچے وہی کرتے ہیں جو ان کے سامنے عملی طور پر پیش کیا جائے علم تو کتابوں
سے مل جاتا ہے مگر تربیت اور کردار کی تعمیر کیلئے عملی نمونے کی ضرورت
ہوتی ہے ،
غصہ اور اشتعال وہ چیز ہے جس سے بنے بنائے گھر بگڑ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ
ہمارے مذہب میں غصے کو حرام کہا گیا ہے اس لئے کسی بات پر غصہ کرنے سے پہلے
ضروری ہے کہ اچھی طرح سوچ سمجھ لیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپکا غصہ جائز ہے
تو اس کو مختصر وقفے میں ختم کردیں اگر ایک فریق کو غصہ آرہا ہے تو دوسرا
خاموش ہوجائے لڑائی میں اکثر غیر مصالحانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے عام طور
پر جب میاں بیوی میں ناراضگی ہوتی ہے تو ایک دوسرے کی خامیوں پر پر نظر
ڈالتے ہیں اور اچھی باتیں بھول جاتے ہیں ، بات ہمیشہ مختصر کریں کم بولنے
سے مسائل کو بڑھنے کا موقع نہیں ملتا غیر ضروری باتوں سے اجتناب کریں کم سے
کم جملوں میں اپنی بات واضح کریں اس الفاظ میں بات واضح کر یں کہ دوسرے کو
ہتک محسوس نہ ہو اس کی انا مجروح نہ کریں ، مخاطب کی بے عزتی نہ کریں، نہ
ہی الزام لگائیں گفتگو کا آغاز اس طرح کریں کہ مخاطب غصہ میں نہ آئے دوسروں
کی صرف خامیوں پر ہی نظر نہ رکھیں ان کی خوبیوں کو بھی نظر میں رکھیں اگر
آپ صرف منفی گفتگو ہی کریں گے تو سننے والے میں صرف اشتعال ہی پیدا ہو گا
جس سے بات بگڑ جائے گی جھگڑوں کے مختلف طریقے ہوتے ہیں جب بھی لڑائی یا
کوئی بھی اختلافی نقطہِ نظر بحث طلب ہو تو ایک دوسرے سے اپنے لگاؤ کو واضح
کرتے ہوئے گفتگو کریں دورانِ گفتگو پرانے اختلافات کو نئے مسائل سے منسلک
نہ کریں بات کو زیادہ طول نہ دیں اور اگر بات جھگڑے کی طرف بڑھنے لگے تو
فوراً موضوع ختم کر دیں اس طرح بات فوراً ختم ہوجاتی ہے بڑھنے نہیں پاتی
لڑنے جھگڑنے سے حالات مزید بگڑتے ہیں سنورتے نہیں، بلاوجہ گھروں کی فضا
کوخراب نہ کریں ناراضگی یا اختلاف پیدا ہوجانے کی صورت میں شاپ کی چائے پر
دونوں ساتھ شامل ہوں اور اچھے خیالات کا تباد لہ کریں ایسے راستے نکالیں جس
میں بچوں کو متاثر کئے بغیرکام ہوجائے بچے روز ،روز کے جھگڑے سے تنگ آکر
گھر سے فرار جیسا انتہائی قدم اُٹھاتے ہیں ،جب کے کچھ بچے والدین سے خوف
کھانے لگتے ہیں یا پھر بد تمیزی اور بد کلامی شروع کر دیتے ہیں پھر بچوں کے
اس سلوک سے والدین پریشان ہوجاتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ بچے صرف والدین کے
چیخ پُکار سے ہی متاثر ہوں بلکہ ان کے خاموش اختلاف مثلاً بات چیت نہ کرنا
، بچوں کے ذریعے ایک دوسرے کوپیغام دینا بھی بچوں کو متاثر کرتا ہے بچوں کے
سامنے ایک دوسرے کی برائی نہ کریں اس سے بچے کے دل میں احترام ختم ہوجاتا
ہے․بچے اپنی باتیں دوستوں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں بعض گھروں میں محبت نچھاور
ہوتی ہے وہ اپنے دوستوں کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں آپ کی لڑائی جھگڑے
جاری رہے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپکے بچے آپ کو ناپسندکرنے لگیں گے اس
ناپسندیدگی کا اظہار وہ مختلف طریقوں سے کریں گے ۔
ایک امریکی تحقیق کے مطابق والدین اپنے طرزِ عمل سے بے بہرہ رہتے ہوئے اور
خود کو غیر متعلق سمجھتے ہوئے ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں اور جوبچے ایسے
ماحول میں پروان چڑھتے ہیں ان کے طور طریقے خراب ہوتے ہیں بچے جو دیکھتے
ہیں وہ ہی اپنا نے کی کوشش کرتے ہیں اگر کوئی ان کوصحیح بات سمجھانے کی
کوشش کرتا ہے تو وہ اُس بات کو منفی انداز میں ہی لیتے ہیں ، ہر بچے کے
جذبات و احساسات ہوتے ہیں جسکا وہ اکثر و بیشتر اظہار کرتے ہیں بچے اپنے
والدین کی توجہ اور وقت چاہتے ہیں والدین میں علیحدگی یا پھر کسی ایک کے
انتقال کی صورت سے بھی بچے کی ذہنی سطح شدید متاثر ہوتی ہے جن والدین میں
علیحدگی ہونے والی ہو یا ہو چکی ہو انہیں چاہیے کہ وقتاً فوقتاً اپنے بچوں
سے بات چیت کرتے رہیں اپنی علیحدگی کے بارے میں مدلًل انداز میں انھیں
سمجھاتے رہیں اور کوشش کریں کہ ایک دوسرے کو غلط ثابت نہ کریں انھیں
سمجھائیں کہ حالات نے انھیں علیحدہ ہونے پر مجبور کر دیا تھا بچوں کو اپنی
محبت کا یقین دلائیں تاکہ ان کے دل و دماغ سے خوف اور بے یقینی کی کیفیت
ختم ہو۔
دنیا کا کوئی شخص عیب سے پاک نہیں ہے اگر آپ یا آپ کے میں کوئی عیب ہے تو
اسے زندگی کا مسئلہ نہ بنائیں ایک دوسرے کے مشاغل اور شوق کی قدر کریں اگر
آپ یا آپ کا ساتھی اشتعال انگیزگفتگو کر رہے ہیں تو وہ جذبات کی رو میں بہہ
کر غیر ضروری باتیں بھی کہ سکتے ہیں کیونکہ غصہ کی حالت میں انسان صحیح غلط
کی پہچان کھو بیٹھتا ہے پھر بحث معمولی بات کو بھی سنگین بناسکتی ہے اکثر
مسئلہ بالکل واضح ہوتا ہے اور ہم غصہ کی وجہ سے سمجھ نہیں پاتے اپنی ساتھی
کی باتوں پر غور کریں واقعی اگر آپ سے کوتاہی ہوئی ہے تو اس کی تردید کرنے
کے بجائے آپ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے
شوہر؍بیوی نے آپ کی بات یا عمل کو صحیح طور پر نہیں سمجھا تو اس کی شکایت
اور غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کریں اپنے شریک حیات کی غلطیوں کو زیادہ
اہمیت نہ دیں بات کو رائی کا پہاڑ نہ بنائیں رشتے میں احترام ضروری ہے اگر
کوئی کام ہو تو حکم یا طنزکے انداز میں نہ کریں کیونکہ اس طرح کا طرزِ
مخاطب بات کا مقصد ہی بدل دے گا اور بنتا ہوا کام بگڑ جائے گا چھوٹی چھوٹی
باتیں بعض اوقات کتنی اہم ہوجاتی ہیں اور زندگی میں بہت بڑا رول ادا کرتی
ہیں بسا اوقات یہ باتیں گھریلو زندگی میں الجھنوں کا سبب بنتی ہیں ۔
بچے باعث اوقات اس حد تک متاثر ہوجاتے ہیں کہ وہ توجہ اور محبت حاصل کرنے
کے لئے اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں یا پھر غلط راستے منتخب کر لیتے ہیں،
قربت محض زبانی اظہارِ محبت کے ذریعے نہیں بڑھتی آپس میں اپنائیت اور توجہ
دینا پڑتی ہے والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں کا خیال
رکھیں جس سے بچے متاثر ہوں ان کو گھر کو ایک ساز گار ماحول دیں گھر کی فضا
کو پُر سکون بنائیں بچے اپنے والدین سے فطری طور پرایک گہرا لگاؤ رکھتے ہیں
انھیں والدین کی جذباتی قربت بہت تسکین پہنچاتی ہے گھریلو ماحول شخصیت کی
تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس لئے والدین کے لئے ضروری ہے کہ لڑائی
جھگڑوں سے گریز کریں ایک دوسرے کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کریں ماہر
نفسیات کے مطابق جو میاں بیوی ایک عرصے کے بعد ایک دوسرے کی خوبیوں کا
عتراف کرتے ہیں اُس سے دونوں کو بے انتہا حیرت ہوتی ہے لیکن اس سے یہ
ضرورپتا چلتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہیں لیکن اپنی اپنی انا کی
آڑ میں اس کا اظہار نہیں کرتے، اصل میں ایک دوسرے کی تعریف کرتے رہنے سے
ایک دوسرے کا احترام اور محبت میں اضافہ ہو تا جاتا ہے اور وہ دوسروں کی
مسائل کو سمجھنے اور حل کر نے میں بھر پور دلچسپی لیتے ہیں اپنی غلطیوں کو
تسلیم کریں اور معافی مانگنے، کو اور ان جھگڑوں کو، اپنی انا کا مسئلہ نہ
بنائیں اپنی غلطیوں پر معذرت خواہ ہونے سے نہ جھجکیں اگر آپ کو اپنے شریک
حیات سے محبت ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ آپ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں اس سے
ماحول بہتر ہوجائے گا گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے ایک دوسرے کے
شوق اور ذاتی زندگی کا احترام کریں گھرمیں دوستانہ ماحول اور دوستانہ رویہ
اختیار کرتے ہوئے اپنے بچوں کی سر گرمیوں پر نظر رکھیں ہر کام میں اُنکی
حوصلہ افزائی کریں تاکہ بچوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ بیدار ہو اور ایسے
راستے اختیار کریں کہ بچے کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہوئے بغیر سکون کے
ساتھ اپنی زندگی گزاریں ، بچوں کے ساتھ وقت گزاریں یا کھیل کھیلیں مثلاً
فٹبال ، کیرم، کمپیوٹر پر گیم وغیرہ کھیل لطف و تفریح کا ایک ایساذریعہ ہے
جس کے ذریعے آپس میں قربت وہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جس سے بچوں کی توجہ لڑائی
جھگڑے سے ہٹ جائے بچے آپ دونوں کو ایک ساتھ ہستا بولتا دیکھ کر خوش
اورمطمئن ہوجاتے ہیں اپنی فیملی کے لئے تھوڑا ٹائم نکالیں ساتھ کھانا
کھائیں آپکا تھوڑا وقت آپکے بچوں پر خوشگوارثر ڈالے گا بظاہر یہ بڑا سادہ
اور عام سا مشورہ نظر آتا ہے لیکن گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے یہ
مشورہ بڑا کارگر ثابت ہواہے آپ لوگ کتنے ہی مصروف کیو ں نہ ہوں یہ بات طے
کر لیں کہ رات کا کھانا اپنے گھر والوں کے ساتھ کھائیں گے جو لوگ مصروفیت
کے باعث اسے روز کا معمول نہیں بنا سکتے تو ہفتے میں ۳ مرتبہ رات کے کھانے
کی منصوبہ بندی کریں ساتھ کھانا کھانا تو ایک بہانہ ہے ملبیٹھنے کا ، ایک
دوسرے سے باتیں کریں ، چند ہی دنوں میں آپ کو اس کے فوائد کا اندازہ ہو
جائے گا اس طرح کا ماحول بچوں میں اعتمادپیدا کرتا ہے․ اس پر عمل کر کے آپ
اپنے گھر کا ماحول بہتر بنا سکتے ہیں۔ |