میں جب کسی معصوم پھول جیسے بچے
کو میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس اور اس کے ننھے منے ہاتھوں میں کھلونوں کی
جگہ شو پالش برش ،جھاڑن اور جھاڑو دیکھتی ہوں ‘تو میری آنکھوں کے سامنے
قیام پاکستان سے قبل ‘ تحریک پاکستان والے مناظر لہرا جاتے ہیں اور میں
حیرت کے سمندر میں غرقاں ہو جاتی ہوں ۔کہ وہ خطۂ وطن جس کے حصول کے لیے
ہمارے شہیدوں اور غازیوں نے یقین وہمت کا علم اٹھا کر یہ نعرے بلند کیے تھے
کہ لے کے رہیں گے پاکستان !۔۔۔۔بن کے رہے گا پاکستان ۔۔!آج جب ان نعروں اور
لازوال قربانیوں کے نتیجہ میں‘ پاکستان وجود میں آچکا ہے اور ہم ایک آزاد
قوم کی حثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں تو وہ تمام مقاصد ،جن کی خاطر تحریک
پاکستان میں حصہ لینے والے، اندوہناکیوں سے گزرے، انھوں نے اپنی قیمتی
جانوں، اپنے پیارے اہلِ خانہ، اپنی جائیدادوں اور مال و دولت کی قربانیاں
دیں توان کے خوابوں کی تعبیر ۶۸ برس گزرنے کے بعد بھی نا پید کیوں ہے ؟
مجھے اس بات کی حیرت ہے کہ بعض امور ایسے ہیں جن پر حصول آزادی کے آغاز ہی
سے کوئی عملی اقدام نہ کئے گئے اور جو کہ اس مملکتِ خداد کے مستقبل ،ترقی
،کامیابی اور سالمیت کے ضامن امور تھے ان پر عرصہ ۶۸ برس گزر جانے کے
باوجود بھی کوئی عملی پیش رفعت نہیں ہوئی ۔اگر ہم پاکستان کے آئین ‘اس کی
اسمبلیوں ‘اور سینٹ کی ماضی سے لیکر آج تک کارکردگیوں ،کارگزاریوں ،بحث و
مباحث اور وضع قطع قوانین کا تفصیلی جائزہ لیں تو یوں لگتا ہے کہ ہم نئے سے
نئے آئے دن قانون بنانے میں ‘انتہائی تیزی سے کام لیتے ہیں ۔مگر ان قوانین
پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں‘ ہمارے پاس کوئی موئثر حکمت ِ عملی موجود
نہیں ہے ۔یہ عظیم سلطنت جس کا نام پاکستان ہے کہ جس کے قیام کے لیے خواص و
عوام نے ان گنت لازوال اور بے مثال قربانیاں پیش کیں ۔حتی کہ بڑے بڑے قافلے
اور خاندان ہر طرح سے لٹ گئے اور کچھ اس حد تک پریشاں دکھوں کی یادیں لیکر
پہنچے کہ جب چلے تو ساٹھ تھے مگر پہنچے تو آٹھ تھے ۔یعنی ہمارے بڑوں نے اس
خطۂ زمین کی آزادی کی خاطر، قربانیوں کی ایسی شاندار تاریخ رقم کی، کہ دنیا
کی تمام دیگر اقوام کو حیران اور غلام بنانے والوں کو پریشان کر دیا ۔آج
یوں لگتا ہے کہ ہمارے بعد میں آنے والے رہنماؤں اور حکومتوں نے اپنے اسلاف
کی تمام قربانیوں کو پسِ پشت ڈال کر صرف ذاتی مفادات کو مدنظر رکھا جس سے
انسانیت کی مزحکہ خیزی ہمارا مقدر بن گئی ۔ہمارے ہاں ہر‘ اہم سے لیکر اہم
تک معا ملات میں درندگی و وحشت کی ہر جاہ کھلی حکمرانی ہے اور قانون کی
عملداری سوائے جھوٹی شہرت دکھانے والی سیاست کے سوا کہیں نظر نہیں آتی
۔چائلڈ لیبر کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق قوم کے معصوم بچوں کے
حسین مستقبل سے ہے ۔وہ بچے کہ مسکراہٹیں ۔۔جن کے چہرے کی خوبصورتی کا نشان
ہو نا چاہیئے تھیں اور بنیادی پرائمری تعلیم ان کا مقدر بننا چاہیئے تھا ان
کی صحت اور تعمیر سیرت کو بنیادی حثیت حاصل ہونا چاہیئے تھی وہ اپنے
گھرانوں کی معاشی بد حالی اور غربت کی وجہ سے غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں ۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان میں معاشی بدحالی کی وجہ سے
سہولیات کا فقدان ہے اور بے روز گاری جیسے بے مثال مسائل ہیں مگر ہر طرح کا
استحصال اور غیر منصفانہ تقسیم نے غریب عوام کو ایسے حالات سے دوچار کر
رکھا ہے کہ بعض والدین اپنے بچوں کو کم عمری میں ہی‘ اپنے چولہے جلانے کے
لیے محنت و مشقت کے لیے مختلف مزدوریوں پر بیجھنے کے لیے مجبور ہیں ۔
آج یہ ایک المیہ ہے کہ پوری دنیا میں بر وقت اور جلدی انصاف فراہم نہ کرنے
کی وجہ سے بے شمار ممالک ہر طرح کی سماجی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں
۔اور پوری دنیا قانون کے نفاز میں غفلتوں اور نا انصافیوں کو ختم کرنے میں
ناکام ہونے کی وجہ سے، گھمبیر مسائل کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے ۔آپ صرف
چائلڈ لیبر کو ہی لے لیجئے اور اس عنوان میں Female چائلڈ لیبر پر غور
کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ کم ازکم 62فیصد لڑکیاں جو کہ کم عمر بچیاں ہوتی
ہیں اور صنفِ نازک ہونے کی وجہ سے ،کم اجرت میں دستیاب آجاتی ہیں ان کے
ساتھ آجرین جو سلوک روا رکھتے ہیں اگر اسی کا جائزہ لیا جائے تو ایک اندازے
کے مطابق ان میں ہی سے 50فیصد بچیاں ،جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہوتی
رہتی ہیں ۔جو کہ ان کے مالکان کی طرف سے، ان کے والدین کوذرائع آمدن کے
حصول کے لیے اپنے بچوں کو کم عمر ی میں ہی دوسروں کی محنت و مشقت اور گھر
کے کام بطور ملازمہ سونپ دینے کا ایک بد ترین انعام ہوتا ہے ۔اور 40 فیصد
تک ایسے واقعات ہیں جن کی کسی کو بھنک تک نہیں پڑتی چونکہ ڈرا دھمکا کر
،لالچ دیکر یا چوری کا الزام لگا کر بچوں اور ان کے والدین کا منہ بند کر
دیا جاتا ہے کیونکہ جس کے گھر میں پیسے ہوتے ہیں ،ان کے جاہل بھی دانشور
کہلاتے ہیں ۔صرف 10فیصد واقعات ایسے ہیں، جو کسی نہ کسی طرح میڈیا کے ہاتھ
لگتے ہیں ۔یا اس کی ویڈیو مل جاتی ہے، تو وہ ہم تک پہنچتے ہیں اور ان حالات
میں کہ جب سفارش اور رشوت سے دولت مند لوگ اور با اثر افراد قانون کو خرید
لیتے ہیں تو پھر خوفِ خدا سی، کوئی چیز، باقی نہیں رہتی ۔جبکہ میڈیا 10فیصد
واقعات کو منظر عام پر لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے ،اور اس کے نتیجے میں
پولیس مقد مات درج کرتی ہے، تو چند دن کی سنسنی کے بعد، جب بات عدالتوں میں
جاتی ہے تو وکلاء حضرات اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے ،سیاہ کو سفید اور سفید
کو سیاہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور نہ جانے کہ ہمارا نظام عدل کیا
ہے ۔کہ عدلیہ کی موجودگی میں بھی، کیا گیا انصاف بسا اوقات ناانصافی کی منہ
بولتی تصویر ہوتا ہے ۔کسی نے سچ ہی کہا ہے ۔۔!
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار ۔۔۔۔۔۔انتہائے سادگی سے کھا گیا
مزدور مات
ہمارے مستقبل کا ایک بڑا حصہ جو کہ بچوں کی صورت میں ہے ۔وہ اپنی معصومیت
اور تشخص کھو رہا ہے ۔ملازم بچوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی حالتِ زار کی
ہولناکی بعض اوقات ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے ۔جو کہ عام طور پر حقیقی
معنوں میں چائلڈ لیبر پر ظلم و زیادتی کا ارتقاب ہوتا ہے اور کئی دفعہ
سازشی سوچ رکھنے والے والدین بات کا بتنگڑ بنا کر معاشرے میں بے چینی پیدا
کر دیتے ہیں ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے ‘کہ کسی حکومت یا کسی سیاسی جماعت نے
اس سنگین مسئلے کو اپنے منشور کا حصہ نہیں بنایا ۔بریں وجہ اس کے ازالہ کے
خاطر خواہ نتائج بھی برآمد نہیں ہو رہے ۔ذہن میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے
سربراہانِ مملکت ایسی اصلاحات نافذ کیوں نہیں کرتے کہ جن سے اس طرح کے
پریشان کن مسائل پر قابو پایا جا سکے ۔جبکہ پاکستان کے آئین میں یہ بات
موجود ہے کہ پانچ سال سے لیکر سولہ سال تک کی عمر کے بچے کی ابتدائی اور
بنیادی تعلیم، حکومت کی ذمہ داری ہے ۔اور یہ بھی کہ 5 تا16سال تک کی عمر کے
کسی بچے سے جبری مشقت نہیں لی جاسکتی ۔
ہیلن کیلر نے کہا تھا !ـ’’دنیا میں نا بیناہونے سے بھی بد ترین ایک شے ہے
وہ ہے ،بصارت کا ہونا لیکن نظریہ کا نہ ہونا ‘‘
ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں جاگیردارانہ نظام اس قدر تقویت پا گیا ہے
کہ چائلڈ لیبر ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے اور کیونکہ اہل ملازمین کی
اجرتیں ادا کرنا بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔یہ عجیب بات ہے کہ مجبور و مفلس ،یتیم
بچے جو کہ قوم کا اصل سرمایہ ہیں ان کو اگر تین وقت کی روٹی نہ بھی ملے‘ تو
اربابِ اختیار کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔۔!جبکہ ان کے اقتدار کو جب کوئی
خطرہ ہو‘ تو وہ لانگ مارچ بھی کرتے ہیں اور بات بات پر سڑک پر آجاتے ہیں
۔بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے نتیجے میں یہ ناکس و مجبور بچے انتہائی مایوسی
کے عالم میں کسی تاریک گلی یا سڑک کے کنارے اپنے دگرگوں حالات پر آنسو
بہاتے یا قسمت کا شکوہ کرتے، اکثر دکھائی دیتے ہیں، مگر بالآخر کوئی نہ
کوئی مجبوری یا مفلسی ان کو چائلڈ لیبر کے دوزخ میں، واپس لوٹنے پر مجبور
کر دیتی ہے کیونکہ یہاں اس دیار میں طبقاتی ناانصافی اور ناروا سلوک کی
شکایت ہو بھی تو کس سے ہو ۔یہاں تو معاملہ یوں ہے کہ ہر کسی کو اپنا پیٹ
بھرنے کی پڑی ہے اور’’زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن ‘‘کے مصداق ہر جگہ
جابر اور قاہر افراد کی اجارہ داری ہے جنھیں جمہوریت کی آشیر باد میں بے
پناہ طاقت اور طرفداریاں حاصل ہیں ۔کہ ان کو نہ تو کوئی ان کی جگہ سے ہلا
سکتا ہے اور نہ ہی ان کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے کھل کر، آہ و بقا
کر سکتا ہے ۔حتی کہ بے میرٹ کاموں کو بھی سینہ زوری اور چرب زبانی سے میرٹ
کے مطابق تسلیم نہ کرنے والا، با لآخر استعفی دیکر گھر جانے پر مجبور کر
دیا جاتاہے ۔یا اسے ریٹائر کر کے گھر بیج دیا جاتا ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں کچھ بھی کر لو ۔۔۔مگر ۔۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلتا
!یہ بچوں کے ساتھ سخت ،جارحانہ اور وحشیانہ رویہ رکھنے والے اگر یہ سوچ لیں
کہ ان کے الفاظ بچوں کی شخصیت کو کس طرح مسخ کرتے ہیں ،جس سے ان کی نفسیات
پریشان ہو جاتی ہے اور وہ اپنی پوری زندگی کو ،گمنامی اور جرائم کی دنیا
میں دھکیل دیتے ہیں ،تو وہ شاید ایسا کبھی نہ کریں ۔حالانکہ اگر وہ ان مجبو
ربچوں کو جبرو تشدد کی بجائے پیارو محبت سے ڈیل کریں تو اس سے ماحول
خوشگوار ہو سکتا ہے ۔ذہن میں صرف یہ رہنا چاہیئے کہ مجبوریاں اور دکھ کسی
سے پوچھ کر نہیں آتے ۔یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی کوئی ملازم بچوں کو
نفرت آمیز سرزنش کرتا ہے تو اس کی شخصیت پر بد ترین اثرات کے نتائج میں وہ
زندگی کی سچائیوں اور خدائی احکام سے منہ موڑ ،کر گمراہ ہو ،کر، انسانیت سے
نفرت ،عناد اور انتقام کی سوچوں کے ساتھ جینا شروع کر دیتا ہے اور اپنی
محرومیوں کا پانسہ پلٹنے کے لیے راتوں رات امیر ہونے کے خواب دیکھنا شروع
کر دیتا ہے جن اسباب کے نتیجہ میں وہ جرائم کی دلدل میں پھنس جاتا ہے ۔جس
کی تمام تر ذمہ داری ان اداروں پر آتی ہے جن کا فرض تھا کہ وہ پر امن بقائے
باہمی کو ہر ممکن طریقہ سے یقینی بنائے اور لوگوں کی معشیت کو مضبوط
کرے۔حکومت کو چاہیئے کہ سنجیدگی سے چائلڈ لیبر کو کنٹرول کرے اور قانون
نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایسی احداف مقرر کرے کہ جس سے یقینی عمل در
آمد ممکن ہو سکے تاکہ معشیت کی ظالم چکی میں پسے ہوئے والدین اور ان کے
بچوں کو بھی احساس ہو کہ وہ آزاد وطن کے آزاد باشندے ہیں ،یہ یاد رکھنے کی
بات ہے کہــ’’ سنگ و خشت سے جہاں پیدا نہیں ہوتے‘‘ ۔اور اگر بروقت فیصلے نہ
کیے گئے تو ہاتھ کی چھلنی سے ریت کی طرح سرکتا ہمارا مستقبل کبھی ہمیں واپس
نہ مل سکے گا ۔اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ مخلوق خدا پر ظلم کرنے والا
یا وہ جس کے اختیار میں ظلم نہ کروانا ممکن ہے وہ بالآخر ایک دن اس غفلت
اور زیادتی کے نتیجہ میں ،مکافاتِ عمل کے شکنجے میں ضرور آئے گا اور تاریخ
کے اوراق کی سیاہی، اس کے ماتھے کا جھومر بننے سے کبھی نہیں چھپ سکے گی
‘لہذا ضروری ہے کہ مستقبل کو درخشاں کرنے اور ماضی کے داغ دھونے کے لیے،
ایسے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے جس سے عوام کی محرومیوں کا
خاتمہ ہو وہ خوشحال اور مطمئن ہو کر معاشرے کے مفید افراد بن سکیں ،یقینا
اس طرح سے خدمتِ خلق کا مقدس فریضہ سر انجام پائے گا اور رفتہ رفتہ ملک میں
موجود، منفی رویوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور اس تاثر کا خاتمہ ہوگا کہ آزادیء
وطن کا اصل فائدہ یکساں طور پر نہیں مل رہا ویسے بھی چائلڈ لیبر ملکی آزادی
پر ایک سوالیہ نشان ہے جو کہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔۔۔!!! |