بے روزگاری ایک اہم مسئلہ
(Maham Farrukh, Rawalpindi)
آخر نوجوان بیرون ملک جانے پر
کیوں مجبور ہیں؟ کیا ان کے نزدیک ملک کی ترقی اہمیت نہیں رکھتی؟ یا وہ اس
وطن عزیز کی خاطر کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے؟ تعلیمی معیار بہتر بنانے کے لئے
ہم یو ایس ایڈ اور پڑھا لکھا پنجاب جیسی اسکیمیں تو شروع کر رہے ہیں مگر
پڑھنے لکھنے کے بعد ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ان کو ان کی قابلیت کے
مطابق نوکریاں ملیں گی؟ ان کو روزگار فراہم کیا جائے گا؟ یہ چند ایسے مسائل
ہیں جن پر نہ تو سابقہ حکومتوں نے غور کیا اور نہ ہی موجودہ حکومت غور کرنے
کو تیار ہے۔ تو آخر عوام ان سوالوں کے جواب کس سے طلب کرے؟ 66 سالوں سے
عوام کے ساتھ لاوارثوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز
حکمران خود تو دو دو ہاتھوں سے ملک کو لوٹنے میں مگن ہیں مگرعوام کے لئے
معمولی ملازمتیں بھی موجود نہیں ہیں۔جس ملک کے حکمران ہی ملک وقوم سے مخلص
نہ ہوں ایسے ملک کا کیا حال ہو گا۔ معاشرے میں موجود معاشی عدم مساوات غریب
عوام میں احساس کمتری پیدا کر رہا ہے۔امیر اور غریب کے درمیان ایسی دیوار
بن چکی ہے جسے پار کرنا غریب کے بس میں نہیں ہے۔ایسی کئی مثالیں ھمارے
معاشرے میں موجود ہیں۔
کسی ضروری کام کے تحت ایک سرکاری دفتر میں جانے کا موقع ملا دروازے پر کھڑے
چوکیدار کو دیکھا تووہ حضرت دیگر ملازمین کی نسبت زیادہ تعلیم ییافتہ
دکھائی دے رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر کافی تجسس ہو رہا تھا کہ آخر اس شخص کی
زندگی کی حقیقت کیا ہے۔پھر خود پر قابو نہ پاتے ہوئے ان سے پوچھ ہی لیا۔
میرے بے حد اصرار کے بعد صاحب نے بتایا کہ میں ایک غریب گھرانے سے تعلق
رکھتا ہوں اور جہاں تک میری تعلیم کی بات ہے تومیں نے ام-بی-اے کر رکھا ہے۔
یہ سن کر بے حد افسوس ہوا کہ وہ شخص تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی دفتر
میں بیٹھنے کے بجائے دفتر کے دروازے پر کھڑا لوگوں کو سلام کر رہا ہے۔ مزید
پوچھنے پر صاحب نے بتایا کہ میں شادی شدہ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب اولاد بھی
ہوں ۔ نوکری کی خاطر بہت دھکے کھائے ہیں۔اخر کار میں اپنی تعلیمی قابلیت کے
مطابق نوکری کے لئے اس دفتر میں آیاتو مجھے اسی نوکری کے قابل سمجھا گیا
کیوں کہ میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں ۔ میرے والدین نے اپنا پیٹ
کاٹ کاٹ کر مجھے تعلیم تو دلوا دی مگر رشوت دینے کی حیثیت نہ تھی۔ گھریلو
حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے تھے ۔ گھر میں دو وقت کا کھانا میسر ہو یہ
تو دور کی بات ، بیٹی کے لئے دودھ خریدنے تک کی بھی حیثیت نہ تھی جس سے تنگ
آکر میں نے اس نوکری کا انتخاب کر لیا۔
اگر ملک کے موجودہ حالات پر غور کیا جائے توایسے اور بھی کئی نوجوان موجود
ہیں جو روزگار کی خاطر دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ہمارے اعلیٰ حکمران آدھا
ملک تو ہڑپ کر ہی چکے ہیں بقایا ہڑپنے سے بھی گریزنہیں کریں گے۔اور اگر
عوام یوں ھی خاموش رہے تو ان کا مستقبل تباہ و برباد ہو جائے گا۔ وسائل کی
غیر منصفانہ تقسیم نے غریب عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ جہاں بنیادی
ضرورتوں کا حصول بھی عوام کو ایک خواب سا لگتا ہے۔غربت اور بے روزگاری سے
تنگ آئے روزانہ نا جانے کتنے لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹتے ہیں ۔ غربت سے
تنگ آکر لوگوں کا خودکشی کرنا، اپنی اولاد کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا
سب عام ہو چکا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کی نظر میں شاید کسی کی ذندگی کی کوئی
اہمیت نہیں ہے۔غریب عوام سے بھیڑ بکریوں سا سلوک کیا جاتا ہے مگر معصوم
عوام خاموش ہی دکھائی دیتے ہیں۔
جھوٹ، چوری، قتل و غارت، دہشت گردی یہ چند ایسی بیماریاں ہیں جو ہمارے
ماحول میں اس حد تک پھیل چکی ہیں کہ اب عوام کو ان کی موجودگی کا احساس ہی
نہیں ہوتا۔ بے روزگاری کے باعث تعلیم یافتہ افراد بھی منفی سرگرمیوں میں
ملوث دکھائی دیتے ہیں۔
میرٹ کے گیت گانے والے نا جانے اس وقت کہاں کھو جاتے ہیں۔ جب ملازمت کے
حصول کے لئے سفارش یا رشوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی قسمت کے دھنی کو
نوکری مل ہی جائے تو 2،3 سال کا تجربہ مانگا جاتا ہے جو کہ فریش گریجویٹس
کے لئے نا ممکن ہے۔
پاکستان میں بے روزگاری کی متعدد وجوہات ہیں ۔جیسا کہ ہمارا تعلیمی نظام
ہمارے ملک کی ضروریات کے مطابق نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہنر مند افراد کی بے
حد کمی ہے کیوں کہ تمام تر توجہ نظریاتی تعلیم پر دی جاتی ہے۔ اور عملی کام
کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ملکی ترقی
کے لئے ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ کیونکہ صنعتوں اور فیکٹریوں میں تمام
نوجوانوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں بے روزگاری کی ایک اور اہم وجہ ہمارے ملک کی بڑھتی آبادی ہے۔
کیونکہ ہماری شرح پیدائش بہت زیا دہ ہے اور ملک کے وسائل اتنی بڑی اور
بڑھتی آبادی کو برقرار رکھنے کے لئے کافی نہیں ہیں اور نوکریاں لوگوں کی
ضرورت سے بھی کم ہیں ۔
بے روزگاری کی ایک اور وجہ ہمارے نوجوانوں کا طرز عمل بھی ہے۔ کیونکہ انھوں
نے ایک اچھے دفتر کی ملازمت اور اعلیٰ سماجی حیثیت کے خواب دیکھ رکھے ہیں۔
اس لئے نوجوانوں کے نزدیک دستی کام کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ افسوس اس
بات کا ہے کہ پاکستان کے بعد معرض وجود میں آنے والےممالک ہم سے کہیں آگے
نکل گئے ہیں مگر ہم آج بھی مہنگائی ، لوڈشیڈنگ اور بے روزگاری جیسے مسائل
میں گھرے ہوئے ہیں۔ بے روزگاری ایک ایسا مسلہ ہے جو ملک کی معشیت پر بری
طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ صنعتی علاقوں میں لوڈشیڈنگ نے صنعتوں کے ملازمین
سے ان کا روزگار بھی چھین لیا ہے۔ جو کہ ملک میں بڑھتے جرائم کا سبب بن رہا
ہے۔
معاشرے کی اصلاح اور ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ حکمران بے روزگاری کے
مسلئے پر توجہ دیں ، اس کے علاوہ تعلیمی نظام ملک کی ضرورت کے مطابق بنایا
جائے کیونکہ ہمارے ملک میں صرف تعلیم یافتہ نہیں بلکہ ہنرمند افراد کی بھی
ضرورت ہے۔اس مسلے کے حل کی خاطر ایسے ادارے بنائے جائیں جہاں نوجوانوں کو
تکنیکی تعلیم دی جائے۔
بڑھتی آبادی کے مسلے کے حل کی خاطر خاندانی منصوبہ مندی پروگرام کے تحت شرح
پیدائش کنٹرول کیا جائے۔ تاکہ عوام بھی ملک کی تعمیرو ترقی میں اپنا مثبت
کردار ادا کر کریں۔
|
|