دو رنگے لوگ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
اکثر مجھے ایسے لوگوں کو دیکھ کر
بہت کوفت ہوتی ہے جو کہ اپنے لئے تو ایک بات یا عمل پسند کرتے ہیں
مگردوسروں کے لئے انکا نقطہ نظر یکسر مختلف سا ہو جاتا ہے۔ابھی اس بات کو
یوں سمجھ لیں کہ ایک شخص جو اپنے عقیدہ کے مطابق اسلام کی حقیقی روح پر خود
تو عمل پیرا ہوتا ہے،اور اسکی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی زندگی میں کسی بھی
شخص کی کوئی مداخلت نہ ہو اور وہ یوں ہی اپنی زندگی کو اپنے عقیدے کے مطابق
بسر کر دے۔ مگر جب کوئی دوسرا شخص اپنے عقیدہ کے مطابق جو کہ اُس شخص کے
عقیدہ سے قدرے مختلف عمل کرتا ہے تو اُس کو یہ بات پسند نہیں آتی ہے اور وہ
اس پر اپنی تنقید کی برسات شروع کر دیتے ہیں یوں کہہ لیجئے کہ وہ اس قدر اس
کو تنگ کرتا ہے کہ اس کا جینا بھی حرام ہو جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں یہ
بدعت عام سی ہو گئی ہے اورہم میں سے اکثر لوگ اس میں مبتلا ہیں۔ہمارے
معاشرے میں جو یہ فرقہ پرستی کی وبا عام ہوئی ہے اس کی بڑی وجہ ہم لوگوں کی
دو رنگی سوچ ہے جو کہ نہ صرف ہمارے لئے بالکل دوسروں کے لئے بھی مسائل کھڑے
اکثر کر دیتی ہے۔حالانکہ ہمارا دین تو واضح حکم دیتا ہے کہ جو ہم اپنے لئے
پسند کریں،وہی اپنے بھائی کے لئے بھی منتخب کریں مگر ہم مفا دپرست اوردو
رنگے لوگ دین کی بھی بس اپنے مطلب کی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں
جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی آج کل کمی نظر نہیں آرہی ہے جو کہ محبت کے نام
پر معصوم لڑکیوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر انکو مختلف تفریح
گاہوں،ریسٹورنٹس اور دیگر مقامات پر لے جاتے ہیں،جہاں ان میں سے اکثر کی
عزت بھی خطر ے میں پڑ جاتی ہے ،یا پھر وہ اپنوں کی نظر میں آکر انکی نظروں
سے گر جاتی ہیں اور انکی رہی سہی عزت جو ہوتی ہے وہ بھی محض دل پھینک مفاد
پرست عاشقوں کی بدولت ختم ہو کے رہ جاتی ہے۔مگر ایسے نا م نہاد عاشق حضرات
دوسرے کی بہنوں کو تو بڑی خوشی سے Datesپر لے جاتے ہیں مگر جب انکی اپنی
بہن کے ساتھ کوئی ایسی ملاقات کر لے تو بہن کی شامت کے ساتھ ساتھ اس کے
عاشق کی بھی خاطر مدارت کی جاتی ہے۔اپنے بہن کی عزت کی تو پروا کی جاتی ہے
مگر دوسرے کی بہن کومحض تفریحاََ تفریح گاہوں میں لے جایا جاتا ہے،فوٹو
بنوائے جاتے ہیں اور کبھی کبھی انکی گفتگو بھی موبائل فونز کے ذریعے ریکار
ڈ کر لی جاتی ہے اور بڑے فخر سے ’’ بھابی‘‘ کہلوانے والے لڑکی کی عزت کی
دھجیاں اُڑاکر رکھ دیتے ہیں ،انکی تصویروں اور انکے جدید دور کا فتہ ایس
ایم ایس دوستوں کو دکھائے جاتے ہیں اور بعض بدبخت انکے موبائل نمبرز تک بھی
دوستوں کو ان سے دوستی کے لئے دے دیتے ہیں،اور تو اور کچھ ایسے سر پھرے بھی
دکھائی دیئے ہیں جو کہ Datesپر اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں اور
اپنی نئی نویلی ’’محبوبہ‘‘ کے دیدار کا موقع یوں دیتے ہیں جیسے چڑیا گھر
میں نئے جانور رکھے گئے ہوں ۔اور جب بات اپنی بہن کی ہوتی ہے تو اگر وہ
خدانخواستہ پسند کی شادی کر لیتی ہے تو یہی بھائی جو دوسروں کی بہنوں کے
ساتھ تماشے کرتے پھرتے ہیں یہ ’’بے غیرت بھائی‘‘اُ نکو جو کہ معاشرے میں
عزت سے مذہب کی رو سے جائز طریقے سے ایک دوسرے کے ہوتے ہیں مگر یہاں بھی
غیر ت کے نام پر اُنکو قتل کرتے ہیں،جبکہ درحقیقت ایسے لوگوں میں خود غیر ت
نام کی کوئی چیز پائی بھی نہیں جاتی ہے۔دوسروں کی بہنوں کو سرعام بدنام
کرنے والے پتا نہیں کیوں اپنی بہن کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ کل کلاں کو
کوئی اسکی طرف بھی بُری نگاہ سے دیکھ سکتا ہے ؟کاش ایسا ہم لوگ سوچ لیں تو
کم سے کم بہت سی لڑکیوں کی عزت محفوظ رہے۔جو لوگ دوسروں کی بہنوں کی عزت کو
مقدس جانتے ہیں ،وہ انکی بدنامی کا سبب نہیں بنتے ہیں ،یہاں لڑکیوں سے بھی
کہوں گا کہ جب تک کوئی آپ کے ساتھ مخلص نہ ہو،زندگی بھر ساتھ دینے کے لئے
تیار نہ ہو،اُسو قت تک کم ازکم اپنی عزت کو ذیادہ خطرات کا شکار مت ہونے
دیں،خود یا اُس پسندیدہ شخص کو گھر والوں سے ملا دیں تاکہ باعزت طریقے سے
آپ اسکی زندگی کا حصہ بن سکیں اوریہاں میں ایسے لوگوں کے بارے میں بھی کہوں
گا کہ جو دین کے حوالے سے تو بڑی چڑھ کر بات کرتے ہیں مگر عملی طور پر
’’صفر‘‘ہوتے ہیں۔اگر ایسے لوگ اپنے بچوں کی پسند میں خیال رکھیں تو وہ بھی
من پسند زندگی گذار سکتے ہیں مگر یہاں ہم فرسودہ خیالات رکھتے ہیں اور پھر
جب حالات ہمارے خلاف جاتے ہیں تو سوچتے ہیں کاش ہم ویسا کر لیتے ہیں تو
بدنامی مقدر نہ ہوتی؟خود ہم اپنے فرائض سے غفلت برتیں تو نیک قرار پاتے ہیں
مگر کوئی رشوت لے تو وہ ہماری نظر میں گناہگار ہے؟خود اپنی غلطیوں ،گناہوں
کی پردہ پوشی کر کے فرشتہ بنتے ہیں اور دوسروں کو شیطان یا واجب القتل قر
ار دیتے ہیں؟
آج کے دور میں ہر لکھنے والا اپنے انداز میں معاشرتی مسائل کو اُجاگر کر
رہا ہے مگر ہم لکھنے والے لکھ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ شاید کوئی اس سے سبق
پڑھ لے مگر ایسا کم کم ہی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔یہ تحریر بھی مجموعی طور پر
مردوں کے خلاف جا رہی ہے مگر اگر حقائق کی بات کی جائے تو ایسا حقیقت میں
بھی ہو رہا ہے کہ ہم میں سے اکثر دو رنگی سوچ کے حامل مرد ہی زیادہ تر
خواتین کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔محبت کے نام پر لوگ سب کچھ کرتے ہیں اور
کہتے ہیں کہ محبت میں سب جائز ہے مگر ایسے کہنے والے دو رنگے لوگ یوں کہہ
کر اس محبت کی توہین کرتے ہیں۔محبت میں محبوب کی خوشی سے زیادہ کچھ اہم
نہیں ہوتا ہے مگر لوگ محبت میں بھی محبوب کے محبوب سے رقابت کا جذبہ رکھتے
ہیں ،حالانکہ محبوب کو اگر وہ خوش دیکھنا چاہتے ہیں تو اسے اسکے محبوب کے
ساتھ خوش دیکھنا بھی عمدہ فعل ہے مگر ہم خود تو محبوب کو خوشی دینا چاہتے
ہیں مگر جب کوئی اور دینا چاہے تو ہم اسکے دشمن بن جاتے ہیں۔اپنے اردگرد
نظر ڈالیں تو بہت سے معاملات میں دو نقطہ نظر پر مبنی سوچ بخوبی ظاہر
ہوگی،ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا تب ہی حقیقی تبدیلی رونما ہو سکے
گی؟ |
|