صنفِ نازک ہمارا معاشرہ اور اسلام میں پردے کی اہمیت !

ترجمہ آیاتِ مبارکہ ( اے مومنو کی عورتو جب اپنے گھر سے نکلنے لگو تو اپنی چادر کا ایک پلہ اپنے منہ پے ڈال لیا کرو)اسلامی دنیا میں شروع سے ہی پردے کو ایک انتہائی اہم اور منفرد اہمیت حاصل رہی ہے جوکہ کسی ناکسی صورت ہر دور میں زندہ ضرور رہی ہے مگر جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا گیا روشن خیالی اور کھلے زہن کے نام پر اُس نے کئی غیر اسلامی اقداروں کو اپنے سر پر ایسے سوار کیا کہ پھر انہیں کا ہوکہ رہ گیا ،لاہور کی ایک اہم اور نامور پرائیویٹ یونیورسٹی میں جانا ہوا تو جب تک وہاں ٹھہرنا پڑ ا دل کو تسلی ہوئی کہ جیسے کسی غیر اسلامی اور یورپی ملک کے دارلعلوم میں آچکا ہوں جوان لڑکے لڑکیاں آپس میں ایسے چل پھر رہے تھے اور ایسے ٹولیوں کی اشکال میں بیٹھے مہو گفتگو تھے کہ جیسے ہمارے آباوٗاجداد بھی ایسے ہی تھے خیر اُس مملکتِ خداداد کہ جس کے لئے ہم دعویدار ہیں کہ اسلام اور کلمہ کے نام پر یہ ملک معرض ِ وجود میں آیا دلی طور پر افسوس ہوا جس کا اظہار اپنی بے بسی کے باعث لفظوں کی حد تک ہی کرسکتا ہوں کیونکہ میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو ہے نہیں کہ مسائل حل ہوں اور عوام سدر جائے گویا یہاں ( آوے کا آوہ ) ہی بگڑ چکا ہے ۔قرآنِ کریم میں عورتوں کے پردے کے حوالے سے کئی بار سختی سے بھی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے جبکہ حادیث نبویﷺ میں بھی عورتوں کی بے پردگی اور پردہ داری کے حوالے سے بارہا آیا ہے مگر آج ہم ہیں کہ مصروف ہی اتنے ہیں کہ اور کوئی کام ہی نہیں بس اپنے کام سے کام رکھیں یہ ایک جملہ ہی ہمارے پاس باقی بچہ ہے کہ جسے ہم نبھا کر کسی بھی اصلاح کرنے والے فرد کا منہ بند کرواسکتے ہیں ۔ بطورِ مسلمان قرآن اور حادیث سے دوری ہی ہماری مشکلات اور پریشانیوں کی اصل اور سب سے بری وجہ ہے جس کا اقبالؒ نے بھی شاید اسی صورتحال کو بھاپتے ہوئے اپنے شعر کی صورت میں اِس کا اظہار کیا کہ ( وہ معزز تھے تعارک قرآں ہوکر،،،اور تم خوار ہوئے زمانے میں مسلماں ہوکر)ہمارے معاشرے کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مسلمان اور اسلام کے تابع ہونے کے تو دعویدار ہیں مگر اسلامی اقداروں کو نظر انداز ہی کرتے ہیں سچے عاشقِ رسولﷺ تو ہونے کا واویلا کرتے ہیں مگر آپﷺ کے ارشادات اور سنت نبوی ﷺ پر کسی صورت بھی عمل نہیں کرتے ،آج بھی ہمارے معاشرے میں خواتین اگر اسلام میں واضع کردہ طریقے کے مطابق اگر پردہ ( برخا) زیب تن کرلے تو ہم اسے جاہل اور ناگوار سمجھتے ہیں مگر جو خاتون فیشن کو ترجیح دے لوگ اُس کی تعریفوں کے پُل باندھ دیتے ہیں زمانہ جہالت میں خواتین کو دنیاوی تعلیم دلوانے میں لوگ بے حد قباحت محسوس کرتے تھے شاید اِس لیئے کہ معاملہ پردے کا ہی سامنے ہوتا تھا مگر اب جب ہم لوگ روشن خیالی اور ترقی کا واویلا کرتے ہیں مگر دور تو وہی اچھا تھا کہ جب خواتین کی پردے داری پر توجہ دی جاتی تھی ،جس پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی میں بات کررہا ہوں وہاں بے پردگی کا ایسا مظاہرہ دیکھنے میں نظر آیا کہ بے حد شرمندگی ہوئی مگر صرف دیکھنے والے کو ہی جو بے پردہ تھا اُسے کچھ خبر نہیں کہ پردے کے حوالے سے ہمارا دین ہمیں کیا کہتا ہے اُسے تو بس دیناوی اسلاف کو سیکھنا ہے اور بس مردو وخواتین میں اگر کوئی جسمانی تمیز کے علاوہ کوئی کردار ہے تو وہ پردے کا ہے مگر بد قسمتی سے اسے نظر انداز کردیا گیا ہے اور پردے کے نام پر بھی فیشن کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے ۔خاتون اگر شادی شدہ ہے تو اُس کا بناوٗ سنگھار اپنے شوہر کے لئے ،اگر بیٹی ہے تو اپنے والدین کو اچھی لگنے کے لئے مگر یہاں دونوں صورتیں ہی الٹی ہوچکی ہیں اور خواتین گھر کی بجائے باہر جاتے ہوئے فیشن میک اپ کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جو کہ اسلامی اصولوں کے برعکس ہے اسلام ہمیں بارہا اِس چیز کا درس دیتا ہے کہ ہم سادگی کو اپنائیں مگر ہم ہیں کہ سادگی کو جہالت کا نام دیتے ہیں پردے کو بے وقوفی گردانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہماری خواتین پردے پر دقت اور بے پردگی میں فخر محسوس کرتی ہیں ۔اﷲ ہم سب کا حامی وناصر!
Fatah Ullah Nawaz
About the Author: Fatah Ullah Nawaz Read More Articles by Fatah Ullah Nawaz: 18 Articles with 18638 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.