وزیر اعلیٰ پنجاب سے ایک مظلومہ معذور بچی کی فریاد

یہ میری صحافتی زندگی کا ایک بدترین دن تھا جس دن میں نے وہ کچھ دیکھا کہ جسے دیکھ کر مجھے خوداپنے آپ سے گھن اور نفرت سی محسوس ہونے لگی یکایک میرے ذہن کے پردہ سکرین پرسوالات کی ایک بوچھاڑ ہوئی کہ کیا اس واقعے کے بعد خود کو ایک اسلامی فلاحی مملکت کے باسی کہلوانے کے حقدار ہیں ؟مسلمان تو دور کی بات کیا ایسا قبیح اور گھناؤنا جرم کرنے والا درندہ صفت شخص انسان بھی کہلانے کا حقدار ہے ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا پاکستان میں رہتے ہوئے اس شخص کو اس کے کئے کی سزا کبھی مل پائے گی اور چودہ سالہ گونگی و بہری ثمن کو انصاف مل پائے گا ؟ ہوا کچھ یوں کہ میں روزمرہ کے دفتری امور میں مصروف تھا کہ میرا ایک ساتھی پھولی ہوئی سانس کیساتھ دفتر میں داخل ہوا اور صوفے پر دھڑام سے گرتے ہوئے تقریباََ چلاتے ہوئے بولا مظہر غضب ہوگیا ہمارے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے جیسا ہورہا ہے جب ہمارے اعمال ہی ایسے ہوں گے تو ہمیں ذلت و رسوائی نہیں ملے گی تو اور کیا عزت کی خلعتیں پہنائی جائینگی ؟کیوں کیا ہوگیا ؟ میں نے پوچھا تو اس نے جواب دینے کی بجائے ایک کاغذکا ٹکرا میری ٹیبل کی جانب اچھال دیا میں نے کھول کر دیکھا تو یہ ایک ایف آئی آر تھی لیکن جوں جوں میں اسے پڑھتا گیا میری پریشانی اور اضطراب میں بھی اضافہ ہوتا گیا کیوں کہ بات ہی ایسی تھی۔منیر احمد نامی شخص کی جانب سے لکھوائی گئی اس ایف آئی آر کا خلاصہ اور مدعی منیر احمد سے ملاقات سے ہمیں جو کچھ معلوم ہوا وہ کچھ یوں تھا کہ وہ دیپالپور کے نواحی علاقے جسوکی دھون کا رہائشی ہے اور محنت مزدوری کے ذریعے اپنااور اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے اسی طرح ایک دن وہ اپنی بیوی کے ہمراہ یہاں کے مقامی زمیندارکے ہاں کام کیلئے گیا مگر ہماری گھر میں غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر ایک اوباش نوجوان میرے گھر میں گھس آیا اور میری معصوم بیٹی کیساتھ زیادتی کرڈالی مگر وہ بدنصیب بیٹی اپنے ماں باپ کو بھی کچھ نہ بتا سکی کیوں کہ قدرت نے بھی اس کیساتھ یہ عجب کھیل کھیلا تھا کہ وہ گونگی اور بہری تھی جس کے باعث وہ نہ تو کچھ سن اور سمجھ سکتی تھی اور نہ ہی کسی کو بتا سکتی تھی کہ اس کیساتھ کیسا گھناؤنا کھیل کھیلا جاچکاہے مگر کچھ ہی عرصہ بعد اس کی ماں کو کچھ شک ہوا تو الٹراساؤنڈ سے یہ اندوہناک اور خوفناک انکشاف ہوا کہ ان کی بیٹی توحاملہ ہوچکی ہے جس پر ہم نے تھانہ دیپالپورمیں ایف آئی آر درج کروائی تاکہ ان کیساتھ یہ ظلم کرنے والے درندے کو فی الفور گرفتا ر کرکے اس کو عبرتناک سزا دی جائے مگر یہاں بھی ہمارے انصاف نہیں ہوا اور وہ پولیس جس کا کام ہی مظلوم کی فوری اور بروقت امداد ہوتا ہے مگر تین ماہ گزرنے کے باوجود پولیس نے ہماری ایک نہ سنی الٹا وہ ان ظالموں کے تحفظ میں سرگرداں ہے اور ہمیں ''خرچہ پانی''لے کر خاموش ہوجانے کیلئے پریشرائز کرتی ہے مگر ہم ایسا نہیں کریں گے ہمیں ہر صورت انصاف چاہئے تاکہ آئندہ کوئی امیرزادہ اپنی دولت و جاگیر کے بل بوتے پر کسی غریب کی عزت کیساتھ یوں نہ کھیل سکے آخر میں منیر احمد نے سسکیاں لیتے ہوئے وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب آپ اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہلواتے ہیں اگر یہ سچ ہے تو پھر آج اس کا ثبوت دینے کا وقت آگیا ہے میاں صاحب آئیں اور دیکھیں گے کہ آپ کے صوبے میں میری گونگی بہری بیٹی کیساتھ ایک امیرزادے نے کیا سلوک کیا ہے میاں صاحب ایک سچا حکمران عوام کی بہنوں بیٹیوں کو اپنی عزت سمجھتا ہے اور ثمن بھی آپ ہی کی بیٹی ہے آؤ میاں صاحب آج آپ کی بیٹی آپ سے انصاف مانگ رہی ہے جو اگر آپ نے نہ دیا تو یہ بیٹی اور ہم سب کل قیامت کے دن آپ کا گریبان پکڑیں گے اس کے الفاظ اور دردناک لہجے نے ہر ایک کو اشکبارکردیااوروہاں موجود ہر ایک کے دل میں جہاں اس خاندان کیلئے ہمدردی اور انہیں اس حال میں پہنچانے والے کیلئے بے پناہ نفرت پیدا ہوئی وہیں ہر ایک کی نظروں میں یہ سوال بھی واضح جھلک رہاتھا کہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب ان کی آہ و بکا اور ان کیساتھ ہونے والے ظلم کا نوٹس لیتے ہوئے مجرم کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے ؟یا کہ ظلم کی یہ داستان بھی سرمایہ داریت اور جاگیرداریت کے چرنوں میں دم توڑ دے گی۔
Mazhar Nawaz
About the Author: Mazhar Nawaz Read More Articles by Mazhar Nawaz: 8 Articles with 21994 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.