جھنگ تاریخ کے آئینہ میں
(Shafqat Ullah Khan Sial, )
جھنگ کا لفظی مطلب ہے (درختوں کا
جھنڈ)جھنگ کو سب سے پہلے تقریبا 1288ء میں رائے سیال نے آباد کیا ۔رائے
سیال نے اس شہر کو اپنے پیر ومرشدحضرت شاہ جلال بخاری کے کہنے پر آباد کیا
۔آہستہ آہستہ یہاں شاہ جلال بخاری کے پیروکاروں اور عقیدت مندوں کی تعداد
میں اضافہ ہوتا گیا ۔جھنگ کا پہلا با قاعدہ سیال حکمران مل خان تھا ۔جس نے
1462ء میں حکمرانی قائم کی اس کے بعد 360سال تک مختلف سیال حکمران آتے رہے
۔سیال حکمران نے جھنگ کے ساتھ دیگر علاقوں کو بھی شامل کرکے جھنگ کو رقبے
کے لحاظ سے وسعت دی ۔جھنگ کے آخری سیال حکمران احمد خان تھے جنہوں نے 1812ء
سے لیکر 1822ء تک حکومت کی ۔احمد خان کے بعد حکومت سکھوں کے قبضے میں آگئی
جنہوں نے تقریبا 12سال تک حکومت کی لیکن اس دوران برصغیر میں مختلف حملہ
آوروں کی دست درازی سے دیگر علاقوں کی طرح جھنگ بھی متاثر ہوتا رہا ۔اس کے
بعد انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہوگئے اور جھنگ میں موجود تما م سکھ
حکمران انگریزوں کی غلامی میں آگئے لیکن ہندوستان کی تقسیم کے وقت جھنگ
پاکستان کے حصہ میں آگیا ۔اس وقت جھنگ پاکستان کا اہم تاریخی اور ثقافتی
روایات کا حامل شہر ہے جھنگ اپنے کلچر ،رسم ورواج اور رومانوی داستانوں کی
وجہ سے بہت معروف شہر ہے جسے نے ہیر راجااور مرزا صاحبہ کی رومانوی داستان
کو جنم دیا ۔ہیر رانجھا کی کہانی متعدد مصنفین اور شعرانے لکھی مگر اس
پنجابی قصے کا مشہور ترین کلام حضرت وارث شاہ کا ہے جو کہ 1776ء میں لکھا
گیا۔جھنگ کی آب وہوا شدید نوعیت کی ہے یعنی گرمیوں میں گرمی اور سردیوں میں
سخت سردی پڑتی ہے جھنگ شہر کے گردونواح میں بہت زیادہ سرسبز کھیت ہیں نہری
پانی کے بہترین نظام اور بارشوں کی مدد سے جھنگ میں کافی ساری فصلیں کاشت
ہوتی ہیں جن میں گندم ،کپاس،گنا،اور چاول وغیرہ قابل ذکر ہیں جھنگ کے غیر
زرعی رقبہ پر نا یاب جنگلات اور جھاڑیاں ہیں ۔جن میں ہرمل ،جھنڈ
،بوہٹر،کیکراور دان کے درخت پائے جاتے ہیں جھنگ کے علاقائی کھیل پنجاب میں
بہت مشہور ہیں ان کھیلوں میں گھڑ سواری،نیزہ بازی ،کبڈی اور کشتی سرفہرست
کھیل ہیں ۔علاوہ ازیں یہاں شادی کی تقریبات اور ثقافتی میلے بھی شہرت کے
حامل ہیں ان تقریبات میں سمی جھمر اور لوگ رقص جھنگ کی تہذیب وثقافت کا حصہ
ہیں اس تاریخی اور ثقا فتی اہمیت کے حامل شہر کو جاگیرداروں ،سیاستدانوں
،اورحکمرانوں نے پسماندگی کی اس سٹیج پر پہنچا دیا ہے کہ دل اس کی حالت زار
پر خون کے آنسو روتا ہے۔
جھنگ کی غربت اور پسماندگی
جھنگ صدیوں سے زرخیز دریائی علاقہ ہونے کے باوجود پسماندہ چلا آرہاہے اور
آج جھنگ کا شمار پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتا ہے جھنگ میں آج بھی
کوئی انڈسٹری نہیں ،کوئی انجینئرنگ،میڈیکل یا زرعی کالج نہیں ،پورے ضلع
جھنگ میں تعلیم صحت اور روزگار نا گفتہ بہ ہے جھنگ جو حریت پسندوں
،دانشمندوں ،ساہنسدانوں اور انسانیت سے پیار محبت کرنے والے انسانوں کی
سرزمین ہے کیلئے انگریزوں نے ایک ٹرم ،،جانگلی،،استعمال کی ۔اگر جھنگ کے
رہنے والے جانگلی ہیں تو پھر 29جنوری1926ء کو پیدا ہو کر جھنگ کے ٹاٹ
سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والا ڈاکٹر عبدالسلام دنیا کا سب سے بڑا
سائنسدان کیسے بن گیا ،جنہیں دنیا کی معروف 32یونیورسٹیوں نے ڈاکٹر آف
سائنس کی اعزازی ڈگری بھی دی ۔انگریز کی جھنگ سے کیا دشمنی تھی اس با ت کو
جاننے کے لیے پس منظر میں جانا ضروری ہے لیکن سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے
کہ جھنگ مخص ایک ضلع کا نام نہیں ایک خطے کا نام ہے جسے ساندل بار کہا جا
تا ہے اس میں فیصل آباد ،ٹوبہ ،خانیوال ،ساہیوال،لیہ،بھکر،شیخوپورہ کے علا
قے آتے جھنگ دریائی سرزمین ہے اور اس خطے میں جہلم اور چناب بہتے ہیں جہلم
اور چناب کی مٹی نے اس خطے کو سرائیکی وسیب کا بہترین میدانی اور ثقافتی
خطہ بنا دیا البتہ اس کا کچھ حصہ صحرائے تھل میں آجاتا ہے جھنگ تاریخی
،ثقافتی ،جغرافیائی اور انتظامی لحاظ سے ہمیشہ ملتان کا حصہ چلا آیا ہے یہ
بھی حقیقت ہے کہ جھنگ قیام پاکستان کے کافی عرصہ بعد تک ملتان ڈویژن کا حصہ
رہا اور یہ بھی بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جھنگ ہی وہ خطہ ہے جہاں
انگریز کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنے ہوااور اس دھرتی کے ہیر ورائے احمد
خان کھرل نے بدیسی راج کے خلاف بگاوت کی اور بہت سے انگریزوں کو قتل کرنے
کے ساتھ انگریز فوج کے اہم کمانڈر لیفٹنیٹ لارڈبرکلے کو بھی قتل کیا انگریز
بھپر گئے اور احمد خان کھرل کی بگاوت کچل دینے کیلئے کمر بستہ ہو گئے
انگریز نے جھنگ وسیب کی سول نافرنانی کا بدلہ اس طرح بھی لیا کہ جھنگ
پر1849میں قبضہ کر کے اسے مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا اور سرکاری
اصطلاح میں جھنگ والوں کو ،،جانگلی،،کا نام دیدیا حریت پسندوں کے خاندانوں
کو تعزیریں اور غداروں کو جاگیریں دیدیں ۔انگریزوں نے ساندل بار میں
آبادکاری سکیم شروع کی اور مقامی گریب کاشتکاروں کی بجائے مشرقی پنجاب سے
وفاداروں یا پھر اپنے صاحب حیثیت ایجنٹوں کو زمینیں دینا شروع کردیں جھنگ
کی اہمیت ان کا کلچر اور جغرافیہ ختم کرنے کے لیے انگریز گورنر جیمز لائل
نے1895ء میں ایک نئی منڈی کی بنیاد رکھی ۔اس منڈی کو لائل پور کا نام دیا
،ایک سال بعد 1896ئمیں اسے جھنگ کی تحصیل بنا دیا ۔لائل پور شہر کی اعلی
پلاننگ مشہور زمانہ ٹاؤن پلانر سر گنگا ررام سے کرائی گئی گھنٹہ گھر سے
کشادہ بازار ،وسیع سٹرکیں اور اعلی ترین منڈی اور صنعت کاری کا ماحول ،چار
سال بعد 1900ء میں لائل پور کو جھنگ سے الگ کر دیا گیا لائل پور تحصیل سے
ضلع ڈویژن بنا دیا گیا اور اس طرح جھنگ کو اسی ڈویژن میں کرکے جھنگ کی
پسماندگی پر مہر تصدیق مثبت کر دی گئی آج جھنگ کے لوگ غربت اور افلاس کی
وجہ سے فیصل آباد کی چار ہزار ٹیکسٹائل اور دوسری فیکٹریوں میں مزدوری کرتے
نظر آتے ہیں حالانکہ ان فیکٹریوں کو خام مال کپاس وغیرہ جھنگ اور سرائیکی
وسیب کے دوسرے اضلاع دیتے ہیں جاگیرداری کا ذکر آیا ہے تو یہ بات قابل ذکر
ہے کہ انگریز نے اس علاقے پر جو جاگیردار مسلط کیے وہ دراصل علاقے کے چور
اور ڈاکوتھے چونکہ ڈاکو کا کوئی کلچر نہیں ہوتا اس لیے جھنگ کے جاگیردارں
اور سیاستدانوں نے ثقافتی طور بہت ہی رچ خطے کو ،،بے شناخت ،،کر دیا آج
سوئززلینڈ اور اٹلی کی اعلی تعلیم یافتہ اور ہزاروں ایکڑوں کی مالکہ محترمہ
عابدہ حسین بھی اپنے آپ کو ،،جانگلی ،،کہتی ہے سابق وفاقی وزیر خالد
کھرلبھی اپنے آپ کو جانگلی کہتے ہیں یہی صورتحال دوسرے جاگیرداروں کی ہے
کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ وہ دھرتی جہاں سولہویں صدی میں ہیر رانجھے
کی لازول دستان رقم ہوئی جہاں ستارہیوں صدی میں عظیم سرائیکی شاعر سلطان
العارفین حضرت سلطان باہونے 140کتابیں تصنیف کیں جہاں حضرت شاہ جیونہ نے
انسانیت کو محبت کا درس دیا چنیوٹ جہاں محبت کا ایک اور تاج محل ،،گلزار
منزل،،کے نام سے وجود میں آیا جہاں کے ہنر مندوں کی کاریگری پوری دنیا میں
اپنی مثال آپ ہے جہاں کی شاعری لوک ادب ،زبان وثقافت،مٹھاس میں اپنی مثال
آپ ہے اسی جھنگ کو جانگلی بنا دیا گیا ۔لیکن چنیوٹ کو بھی جھنگ سے
سیاستدانوں نے جدا کر دیا ہے انگریزوں نے جھنگ کو سزا اور فیصل آباد صلہ
دیا ۔ چلو کوئی بات نہیں بات پرانی ہوگئی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج تو
انگریز چلا گیا پھر آ سزا کیوں دی جارہی ہے سابق گورنر خالد مقبول جو جھنگ
کے چنیوٹی شیخ تھے کی توجہ ہم نے ان مسائل کی طرمبزول کرائی تھی مگر انہوں
نے بھی اپنی دھرتی اور اپنے خطے کے لیے کچھ نہ کیا سابق وزیر اعظم سید یوسف
رضا گیلانی جن کا جھنگ وسیب سے بہت قریبی تعلق ہے اور وہ اس خطے کیتاریخ
ثقافت سے پوری طرح آگاہ ہیں وہ جھنگ کو ترقیاتی پیکیج جس میں سلطان باہو
یونیورسٹی ،انجنیئرنگ،و میڈیکل کالج ،ٹیکس فری زون ،صنعتی ایریا کے اعلاوہ
جھنگ ڈویژن کا اعلان نہ کر سکے مو جودہ وزیر اعظم اپیل ہے کہ وہ مذکورہ
ترقیاتی پیکج کا اعلان کریں چینوٹ اور ٹوبہ کو اس میں شا مل کریں قبل اسکے
جھنگ اور پورے سرائیکی وسیب ،،ساوی گھوڑی آلے ،،یعنی سبز گھوڑی والے ایک
اور احمد خان کھرل کی راہ دیکھنی پڑجائے ۔ |
|