مسائل یاچیلنجزکا لفظ ہمارے لیے
نیا نہیں ۔جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے یہ گھمبیر مسائل کا شکار ہے ،گزرتے
وقت کے ساتھ ملکی مسائل میں کمی نہیں اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے ۔آج اگر ہم
نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو چار سو مسائل کا گھنا دلدلی جنگل، ہماری غیر معیاری
کارکردگیوں اور کار گزاریوں کا منہ چڑاتا ہوا نظر آتا ہے ۔ہمیں جو مسائل
درپیش ہیں ان میں معیشت جو کہ جاں بہ لب ہے ،سرفہرست ہے ۔
یہ ایک المیہ ہے کہ آج عالمی تجارت اور جدید ٹیکنالوجی کی شاہراہ پر
پاکستان کہیں بھی پاؤں جما کر کھڑا نظر نہیں آتا جبکہ ہم یہ اکثر یہ کہتے
ہیں کہ سٹاک مارکیٹ ہر روز نئے جھنڈے گاڑ رہی ہے لیکن برطانوی رسائل لکھتے
ہیں کہ پاکستان کی مارکیٹ کو عالمی ساہوکار ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں شمار
نہیں کرتے ۔اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہماری معاشی پالیسیاں معاشی ترقی کی
ضمانت نہیں دیتیں ۔بلکہ اگر ہم اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہم پر
آشکار ہوگی کہ امیر روز بروز امیر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔دوسری
طرف سائنس ،ٹیکنالوجی اور صنعت کاری نے انسان کا معیار زندگی بلند کیا یا
نہیں ‘یہ ایک الگ بحث ہے ۔مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سائنسی موشگافیاں اور
جدید صنعتی کلچر اپنے ساتھ ایسے عزاب اور مسائل لیکر آیا ہے جو انسانی
زندگی کے لیے خطرہ ہیں ،کیونکہ جہاں اس ترقی کے فوائد ہیں وہاں اس سے دوگنا
نقصانات بھی ہیں ۔کیونکہ فطرت کے نازک توازن کو اس جدید ترقی نے درہم برہم
کر دیا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اس قدرعاقبت نا دور اندیشی سے حالات
کی گھتی سلجھانے میں محو ہیں کہ ہم دیکھ ہی نہیں پا رہے کہ ہم کہاں جا رہے
ہیں ۔اور دعوی یہ کیا جارہا ہے کہ ہم ٹیک آف پوزیشن پر آگئے ہیں ۔
آج قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں نے معیشت کی کمر
توڑ کر رکھ دی ہے اور رہی سہی کسر سیاسی بحرانوں نے نکال دی ہے اور ہمارے
حکمرانوں کی تمام تر، ترجیحات عالمی مالیاتی اداروں کی قدم بوسی کرنے اور
ان کی سود، منافعوں اور ذاتی مفادات کی ہوس کی پیاس بجھانا رہ گیا ہے ان کو
اس سے قطعاً کوئی سروکار نہیں کہ بڑھتے ہوئے قرضے، ملکی مفاد کے لیے کس قدر
مضراور توہین آمیز ہیں اور ہمیں ویسی ہی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رہے ہیں
جن سے ۶۸ برس قبل ہمیں آزاد کروایا گیا تھا ۔
جہاں تک سوال زرمبادلہ کے ذخائر کا ہے تو عالمی سروے رپورٹوں کے مطابق، چین
اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں پہلے نمبر پر ہے ،ایشیا کی دس سٹاک مارکیٹوں
میں ،ہندوستان چھٹے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کی معاشی زبوں حالی اور بے
حثیتی ان سروے رپورٹوں کے حوالے سے ہمارے اقتصادی حالات کی نشاندہی کرتی ہے
کہ ہم جس پستی میں کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں اور ماہرین کے مطابق
پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو قرضوں کی ادائیگی اور تیل کی مد میں
بیرونی ادائیگیوں کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گھٹ رہے ہیں جبکہ
روپے کی بے قدری بھی ڈالر کی کمی کا باعث ہے کیونکہ روپے کی قدر کم ہونے کی
وجہ سے بیرونی ادائیگیوں میں ڈالر زیادہ اد اکرنے پڑ رہے ہیں ۔
موجودہ حکومت نے جس کشکول کو توڑنے کے نعرے لگائے تھے اقتدار میں آتے ہی
اسے عوام کے گلے کا طوق بنا کر کاسۂ گدائی میں ملکوں ملکوں اور در بدر پھر
رہے ہیں۔اور اس کاسہ گیری کی ابتداحکومت نے ابتدائی دنوں میں ہی آئی ایم
ایف سے بھیک مانگ کر کر دی تھی۔ جس کیوجہ سے 6.7ارب ڈالر کا قرضہ ملا اور
یہ قرضہ 2008میں لئے گئے قرضے کے سود کو ادا کرنے کے لیے لیا گیا تھااگر یہ
کسی تعمیری مقصد کے لیے لیا جاتا اور اسی مقصد کے لیے، سو فیصد استعمال
ہوتا تو اس اقدام کو یقینی طور پر، ملکی خدمت اور موجودہ حکومت کا حسب وعدہ
کارنامہ شمار کیا جاتا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے پاکستانی معیشت کی حالت کیا ہے
اور حکومتی اقتصادی ماہرین کے قول و فعل میں کس حد تک کھلا تضاد ہے ۔پاکستان
نے عالمی مالیاتی اداروں اوردوسرے ممالک کو 60 ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے
ادا کرنے تھے، جو کہ ہماری حکومت واجب الادا قرضہ جات کا ہدف، یوں لگتا ہے
کہ اپنا دور حکومت مکمل کرنے تک، اس حد تک بڑھا چکی ہوگی کہ آنے والی کوئی
بھی حکومت، قرض خواہوں کے سامنے، سر اونچا کرکے جی نہیں سکے گی ۔جس کے
نتیجے میں وہ تو یقینی طور پر اس وقت تک، کوئی تعمیری کام نہیں کر پائے گی
جس وقت تک کہ وہ عوام الناس پر ہر قسم کے ٹیکسوں کے بوجھ کی بھرمار نہیں کر
لے گی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو حکومت مسلسل قرضے لیتی جائے گی، وہ آنے
والے سرمائے کو بے دریغ اپنے سیاسی مقاصداور مالی مفادات پر ہی نگاہ رکھے
گی ۔
سوال تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران کس جزبہ خدمت سے سرشار ہو کر یہ سب کر رہے
ہیں جبکہ حالات کوئی اورہی داستان سنا رہے ہیں۔
آج اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹیں ،تو ہمیں سلطنت مصر میں حضرت یوسف ؑ کی
معاشی سربراہ کے طور پر تعیناتی گراں قدر نظر آتی ہے جبکہ ان کی بحرانوں،
قحط سالیوں اور زبوں حالیوں سے، اس وقت کی سلطنت کو خوش حال کرنے کے پیچھے،
ان کا ذاتی طور پر نیک و کار ،سچا ،دیانت دار اور امانت دار ہونا نظر آتا
ہے ۔اور وہ عرب کہ جہاں قرنوں سے جہل چھایا تھا اور اسلامی تعلیمات اور
اقدار کے رائج ہونے کی وجہ سے لوگوں کے قول و فعل میں تضاد ختم ہو کر ان
میں نیکی ،سچائی ،دیانت اور امانت جیسی اقدار عروج پا گئیں تھیں ۔تو اس خطۂ
زمین کی حالت یہ بن چکی تھی کہ ایک عورت سونے کے زیورات پہن کر ایک علاقے
سے دور دراز کسی علاقے میں سفر کرتی تھی تو اسے لوٹنے والا کوئی نظر نہیں
آتا تھا ۔اس کے علاوہ اگر دیگر دنیا کے تمام ممالک اور سلطنتوں کی تاریخ کا
ہم عمیق مطالعہ کریں تو یہ علم میں آتا ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی ایسا قومی
لیڈر برسر اقتدار آیا کہ جسے اپنی دنیا خوبصورت بنانے ،اور اس دنیا کو لوٹ
کر کھانے کی بجائے دو باتیں ذہن میں رہیں ایک آخرت کی نجات اور احتساب،
دوسرا اقتدار سے ہٹنے کے بعد لوگوں کی محبت، تو ایسے لوگوں نے اپنے ادوار
حکومت میں ،قوموں کی قابل داد خدمتیں کی ہیں اور دونوں جہانوں کو اپنے لیے
عزت اور نجات کا ذریعہ بنایا ہے آج جبکہ ہم سب دیکھ رہے ہیں جن حکمرانوں کی
ان کے دور حکومت میں ہی لعن و طعن ہورہی ہے توکیا اس کے علاوہ بھی کوئی اور
وجہ ہے کہ ان کے پاس ان کی کوئی ایسی کارکردگی نہیں جس سے وہ یہ ثابت کر
پائیں کہ وہ نیک ،سچے ،دیانت دار اور امانت دار ہیں ۔ایسے حکمرانوں کو یہ
چاہیئے خود کو اور اپنے تمام ایسے مشیران کو کہ جن کی وجہ سے یا ان سب کے
ماضی کے غیر معتبر ہونے کی بنا پر بدنامی کے بادل چھٹ نہیں رہے اور وہ سب
مل جل کر حسبِ سابق اپنے پیشہ ورانہ مضموم مقاصد کے حصول کے لیے اب بھی
کوشاں ہیں ۔اور انھوں نے جہاں جہاں ان کا بس چلتا ہے، کھلے عام کرپشن کرنے
والے لوگوں کو متعین کر رکھا ہے کہ جس سے عوام الناس مکمل طور پر دکھی
پریشان حال ہو کر آئے دن کسی مسیحا کی تلاش میں مختلف اجتماعات کی رونق
بنتے ہیں، ان کو ضرور بدل دینا چاہیئے ۔اس سے ہو سکتا ہے وہ حالات پیدا ہو
جائیں، جو ہمارے ملک کے لیے انتہائی نا گزیر ہیں اب آج ہمارا ملک جن گھمبیر
حالات سے دوچار ہے اس کا واحد حل صرف اور صرف یہ ہے کہ ہماری صوبائی ا ور
مرکزی قیادتیں مکہّ کے’’ زعماء‘‘ کی طرح جام و ساغر توڑ دیں ،اجتماعی اور
انفرادی زندگی میں مقدس اور پاکیزہ زندگی اختیار کریں ،جبکہ لین دین کے
معاملات میں بد دیانتی ،لوٹ کھسوٹ اور ذاتی طمع کو ترک کر دیں۔ اس میں کوئی
شک نہیں کہ ملک کے بعض مسائل کو حل کرنے کے لیے تعمیری قرضہ جات یا
ٹیکنالوجی یا غیر ملکی امداد لینا کسی حد تک نفع بخش ہو سکتا ہے لیکن شرط
یہ ہے کہ قرض کا لیا گیا پیسہ اور اس کی ایک ایک پائی عوامی اور قومی خدمت
کے علاوہ کسی ذاتی منفعت کے لیے استعمال نہ کیا جائے تو یقینا وہ دن دور
نہیں کہ جب رفتہ رفتہ ملک ان تمام برے حالات سے نکل جائے گا ۔لیکن جہاں تک
آج کے تما م سیاستدانوں کی کارکردگیوں اور ماضی کی کارگزاریوں کی آئینہ
داری ہے اس سے صاف نظر آتا ہے ان لوگوں کے پاس سوائے کھوکھلے نعروں کے اس
ملک کے باسیوں کو دینے کو کچھ بھی نہیں ۔ایسے حالات میں مایوس ہونے کی
بجائے ہر پاکستانی کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو برسر اقتدار لانے کی
کوشش کرے جن کا ماضی اقتصادی طور پر یا قول و فعل کے لحاظ سے داغدار نہ ہو
اور کوئی ایسا شخص جس کے ٹولے میں کسی بھی مجبوری کی وجہ سے پھر وہی لوگ
ہوں جو ماضی میں ہر اقتدار کا مزا لوٹتے رہے ہوں اور ہر منظر پر جہاں ان کے
مفادات کو زد پڑتی ہو وہاں سے باغی بن جاتے ہوں ۔اور اس سربراہ کو منتخب
کرنا ایک واضح قسم کا قومی دھوکہ ہوگا ۔اور خسارہ ملک و قوم کے حصے میں آئے
گا ۔
اور یہ بات ہر دانشور جانتا ہے کہ پاکستان وہ خطۂ زمین ہے جو قدرتی وسائل
سے مالامال ہے ،اس کے پاس اس قدر وسائل ہیں جو کہ بے شمار دیگر عالمی
طاقتوں کے پاس بھی نہیں ہیں ،مگرنام نہاد سرمایہ دارانہ نظام نے ہمیں
بھکاری بنا رکھا ہے باوجودیکہ اس نظام کا خاتمہ نہیں ہوگا لیکن بہر طور کچھ
نہ کچھ تو کرنا ہوگا کیونکہ جب تلک ملک مجموعی طور پر ترقی نہیں کرے گا تب
تک معیشت مضبوط نہیں ہوگی ۔المیہ تو یہی ہے کہ پاکستان اسی خطۂ زمین کا حصہ
ہے جس کے بارے میں لارڈ میکالے نے 1835میں برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے
ہوئے کہا تھا کہ ’’میں نے ہندوستان کے طول و عرض کا دورہ کیا اور میں نے
کوئی ایک شخص بھی نہیں دیکھا جو جو فقیر ہو یا چور ہو ،میں نے وہاں وہ دولت
دیکھی ہے ،وہ بلند اخلاقی معیار ،اور اتنے عمدہ لوگ،کہ میں نہیں سمجھتا کہ
ہم اس ملک پر کبھی قابض ہو سکیں گے،تاآنکہ ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ
ڈالیں جو کہ ان کا روحانی (دین اسلام ) اور ثقافتی ورثہ ہے۔۔‘‘
تو آج ہم کیوں زوال پزیر ہو رہے ہیں ؟؟ ہماری ایسی کونسی کمزور ی ہے جو کہ
حریف جان چکا ہے ،ہمیں سوچنا ہوگا ،اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ۔ |