یہ عام مسئلہ ہے کہ بچوں کو
پڑھنے کی جانب کیسے راغب کیا جائے؟ اس پر مختلف آرا ء ہو سکتی ہیں لیکن
مسئلے کا حل تو اس سوال میں ہی ہے۔اکثر لوگ اساتذہ سے پوچھتے ہیں کہ آپ
بچّوں کو اتنے آرام سے کیسے پڑھا لیتے ہیں، جبکہ انہیں سکول لے جانے کے لیے
یا تو گھسیٹ کے لے جانا پڑتا ہے یا کوئی اچھی چیز دلانے کا لالچ دینا پڑتا
ہے۔اس سوال کا جواب آپ خود تلاش کریںکہ آپ بچّے کو پڑھائی کی جانب راغب
کرنے کا کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں؟ جب اس سے پڑھائی نہیں ہوتی تو آپ کا ردّ
عمل کیا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے آپ میں سے کچھ بچوں کو ڈانٹ کر کہتے ہوں گے کہ
یہی بہترین طریقہ ہے۔ کچھ ان کو مٹھائی یا کھلونوں سے محروم رکھنے کا طریقہ
اپناتے ہوں گے اور کچھ تو بچوں کے چھوٹے سے جھوٹ پر یا امتحان اچھا نہ دینے
پر چپت بھی رسید کر دیتے ہوں گے۔ ڈانٹ اور سزا کا نتیجہ یہی ہوگا کہ بچے
مزید آنسو بہائیں گے اور پڑھائی سے مزید باغی ہو جائیں گے۔ والدین اور
اساتذہ یہی چاہتے ہیں کہ بچّے دل لگا کر پڑھیں چنانچہ بچوں کو پڑھنے پر
مجبور ہرگز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کا شعور نئی
بات سوچنے کی جانب ہی مائل نہیں ہوگا۔ لگی بندھی پڑھائی ویسے بھی دلچسپ
نہیں ہوتی پھر بچے کیا کریں ؟ والدین سے مار کھانے کی بھی کسی کو خواہش
نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے معروف روسی ٹی وی اینکر ولادیمیر پوزنر
کے ایک انٹرویو کو دیکھیں جس میں وہ اس سکول کی بابت بات کر رہے تھے جہاں
انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ اگرچہ انہیں سکول سے فارغ ہوئے بھی برس ہا برس
بیت چکے ہیں لیکن صحافت کے اس بڑے نام ولادیمیر پوزنر کو اچھی طرح یاد ہے
کہ تعلیم کس طرح ہوا کرتی تھی اور سکول سے انہیں کیا حاصل ہوا۔وہ بتاتے ہیں
کہ’’زندگی کی یادوں کو زندگی سے محو نہیں کیا جا سکتا۔ بچہ علم تب ہی حاصل
کرتا ہے جب اسے خود اس کے حصول کی خواہش ہوتی ہے مثال کے طور پر ہم دوسری
جماعت میں ہی اپنے سکول میں قائم ڈاک خانہ چلایا کرتے تھے اور اس سے حساب
بھی سیکھتے تھے کیونکہ ہم ڈاک ٹکٹ، لفافے اور کاغذ بیچ کر ان کا حساب کتاب
بھی رکھتے تھے۔ پھر ہم سکول کا رسالہ بھی بجلی کے ٹائپ رائٹر سے ٹائپ کرکے
نکالا کرتے تھے۔ اگر مجھے تاریخ کے بارے میں اسقدر برا علم نہیں ہے تو اس
کی وجہ یہ ہے کہ ہم بڑے شوق کے ساتھ تاریخی مہماتی ناول پڑھا کرتے تھے۔ ہم
نے کسی چیز کو سیکھے بغیر نہیں چھوڑا۔ جب محنت کے اسباق ہوتے تھے تو ہم
تلواریں اور میانیں بنایا کرتے تھے۔ مجسمہ سازی کی کلاس میں مجسمے بنانے کی
کوشش کیا کرتے تھے۔ قدیم مصریوں کی طرح چھال پر لکھنا سیکھتے تھے۔ یہ سب
بہت ہی دلچسپ ہوا کرتا تھا اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ ہم ان سارے
مشاغل میں ریاضی، زبان، تاریخ اور بہت سے دوسرے مضامین سیکھتے چلے جا رہے
تھے۔ ایسے سکول بہت ہی کم ہیں لیکن ان سے جو علم بچوں کو حاصل ہوتا ہے وہ
یکتا نوعیت کا ہوتا ہے۔‘‘ بچّے ان چیزوں کو سیکھنے پر وقت صرف کرنے کو تیار
ہوتے ہیں جو ان کی زندگی میں کام آ سکتا ہو یا ان کی اندرونی طلب اور
دلچسپی کو پورا کرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اچھا استاد اپنے ہر شاگرد بچے کی
دلچسپی کا اپنے اسباق میں خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ بچّے کو بھلا کون
اس کی ماں اور اس کے اپنے آپ سے زیادہ جان سکتا ہے۔ وہ ان دونوں سے پوچھ
لیتا ہے کہ انہیں کیا اچھا لگتا ہے ، وہ کس موضوع پر بات کرنا پسند کرتے
ہیں اور کون سی موسیقی سنتے ہیں؟ ہر اچھا استادیہ سب مدّنظررکھ کر بچوں کو
پڑھانے کا پروگرام بناتا ہے۔ گرائمر اور الفاظ سکھانا تو مقدم ہوتا ہی ہے
لیکن پڑھانے کا انداز بدل دیا جائے تو اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔ کوئی بچہ
پسندیدہ گیتوں کے ذریعے نئے الفاظ سیکھنا چاہتا ہے اور کوئی بچہ کہانیوں کے
ذریعے۔ اس طرح سکھانے سے بچوں کی آنکھیں دمکنے لگتی ہیں۔ اسطرح انہیں پتہ
چلتا ہے کہ انگریزی زبان محض خشک گرائمر اور دشوار اصول و قواعد سے بڑھ کر
کچھ اور بھی ہے۔ بلا شبہ شروع میں تو یہ سب اتنا آسان نہیں کیونکہ بچے اسی
انداز سے مانوس ہوتے جس انداز میں انہیں سکول میںانگریزی پڑھائی جاتی رہی
ہو اس لیے ان کے لیے نئے انداز تعلیم سے مانوس ہونا مشکل ہوتا ہے لیکن بہر
حال وہ مانوس ہو جاتے ہیں۔ تاہم ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ نے پڑھانے کے لیے
دلچسپ مواد ڈھونڈا اور بچہ بھی دلچسپی سے سیکھتا رہا لیکن گھر جا کر نئے
الفاظ یا قواعد بھول جاتا ہے وہ جیسے کہتے ہیں ناں کہ ایک کان سے سنا اور
دوسرے سے نکال دیا۔بچے مشکل کاموں سے خائف ہوتے ہیں اور جو کام وہ کر سکیں
وہ انہیں اچھے لگتے ہیں۔ جب بچوں کی جانب خصوصی توجہ دی جاتی ہے تو انہیں
بہت اچھا لگتا ہے۔ اس طرح وہ پڑھنے کی جانب پوری طرح راغب ہو جاتے ہیں۔ بچے
کو اچھی طرح سمجھنا بہت اہم ہے۔ اب آتے ہیں گھر جا کر سبق بھول جانے والے
بچوں کی طرف۔ایک سروے میں ماں سے پوچھا گیاکہ اس کی بیٹی کس طرح حاصل کی
جانے والی معلومات کو زیادہ یاد رکھتی ہے کتاب پڑھ کر کے، سن کے یا خود لکھ
کے؟ وہ فوری طور پر اس سوال کا جواب نہیں دے پائی۔ یاد رکھیے پڑھانے کے ضمن
میں جوپوچھا جائے وہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ کچھ بچے تصاویر اور
خاکے دیکھ کر معلومات کو یاد رکھتے ہیں۔کچھ ایک فقرہ باربار لکھ کرکے اور
اسے زبان سے ادا کرکے، کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ہر بات کو کھنگالنا چاہتے ہیں۔
پھر اس کی ماں کو یاد آ ہی گیا کہ واقعی اس کی بیٹی جب تک بار بار لکھ نہ
لے اوربار بار دیکھ نہ لے وہ لفظ یاد نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اگر خوشخط اور
دلکش رنگوں میں لفظ لکھ کر اس کے سامنے لٹکانے شروع کر دیے گئے تو وہ مسئلہ
مسئلہ نہ رہا۔ اسباق کے بعد بچوں کو کوئی مزیدار چیز مثلاٹافی یا میٹھی
گولی دے دی جائے تب تو بات ہی اور ہو جاتی ہے۔اگرچھ انڈوں کی زردی میں ایک
بڑا چمچ شکر کا ملا کر گاڑھے دودھ کا ایک گلاس اور ایک ہی گلاس آٹے کا ملا
کر خوب پھینٹا جاتا ہے۔ پھر اس مواد سے سیلیں بنا کر انہیں تل لیا جاتا
ہے۔انہیں بنانے میں اہم بات گندھے ہوئے مواد کا نرم ہونا ہے،تب بہت خستہ
اور گھل جانے والی میٹھی سیلیں بنیں گی، یوں سمجھیں کہ یہ کچھ کچھ جلیبی سے
ملتی جلتی چیز ہے۔ وہ کھلائیں اوردیکھیں اس طرح بچے کو مزہ بھی آ گیا اور
وہ پڑھائی سے بھاگے گا بھی نہیں۔ |