انسان کا قانون
(Dr. Riaz Ahmed, Karachi)
دنیا پر نظر ڈالیں تو تقریبا ہر
جگہ انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ہوتا نظر آتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشرہ
ہو یا پسماندہ ظالم طبقہ ہر جگہ اپنے مفادات کی خاطر عام انسانوں سے ان کے
حقوق چھینتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر کچھ فرق ہے تو یہ کہ ترقی یافتہ اور پڑھے
لکھے معاشروں میں یہ کام قانون کا لبادہ اوڑھ کر کیا جاتا ہے جبکہ ہم جیسے
معاشروں میں یہی لوٹ مار لاقانونیت کے لباس میں کی جاتی ہے یعنی ایک ہی کام
وہاں قانون بنا کر اور یہاں قانون توڑ کر کیا جاتا ہے۔
جب تک انسان انسان کے لئے قوانین بناتا رہے گا اس وقت تک عام انسانوں کو
حقوق کی فراہمی میں قانون بنانے والوں کا مفاد آڑے آتا رہے گا۔ اور جب تک
عدل پامال ہوتا رہے گا ظالم قانون کی دھجیاں اڑاتے رہیں گے۔ حقیقی عدل اس
وقت تک ممکن نہیں جب تک قانون منصفانہ نہ ہو۔
منصفانہ قانون انسانوں کو وہی فراہم کر سکتا ہے جس کو انسانوں سے کچھ درکار
نہ ہو جو دنیا کے وسائل سے بے نیاز ہو۔ اس کام کو اس سے بڑھ کر اور کون سی
ذات کر سکتی ہے جس نے ان وسائل کو انسانوں کے لئے خود تخلیق کیا جن کی لوٹ
مار میں انسانوں کا ظالم طبقہ سرگرمِ عمل ہے۔
انسان اور اس کے لئے ان وسائل کو پیدا کرنے والے نے ہر دور میں اپنے
پیغمبروں کے ذریعہ انسانی معاشرہ کی فلاح کے قوانین اس دور کی شریعت کے طور
پر نازل فرمائے اور پھر اس کی بنیاد پر دنیا بھر میں عدل قائم کرنے کی ذمہ
داری اپنے اوپر ایمان لانے والے انسانوں کو سونپی۔
.
آج دنیا میں ظلم بھی ہے اور کائینات کے پیدا کرنے والے پر ایمان رکھنے والے
بھی۔ لیکن انہوں نے خوف اور نفس کی خواہشات کے دباؤ میں مصلحت اور امن
پسندی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ وہ خاطر جمع رکھیں کہ اللہ کے دین کو اللہ کے
بندوں ہر نافذ نہ کرنے کا حساب انہیں دینا ہوگا۔ ناکامی کے خوف سے بیٹھ
رہنے کا عذر انہیں خلاصی نہیں دلا سکے گا۔ کس نے کتنی کوشش کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دلوں کا حال جاننے والے سے یہ بات نہ اب پوشیدہ ہے نہ اس دن ہوگی۔
.
انصاف کا ہے خون
انسانوں پر لاگو ہے
انسان کا قانون |
|