صفر کا مہینہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

صفر کا مہینہ اسلامی مہینوں کا دوسرا مہینہ ہے. اس کے معنی خالی ہونے کے ہیں. عرب محرم کا احترام کرتے اور صفر میں گھروں کو چھوڑ کر قتل وجدل کے لۓ نکل پڑتے. اس میں اکثر لوگ بدشگونی لیتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے، مفہوم:
".1 کوئ بیماری متعدی نہیں، 2. نہ بدشگونی کوئ چیز ہے، 3. ہامة کی کوئ حقیقت نہیں اور 4. نہ ہی صفر میں نحوست ہے"
(حوالہ: صحیح بخاری رقم: 5757)

اس حدیث میں 4 چیزوں کا ذکر ہے یعنی عدوی، طیرۃ، ھامة اور صفر کچھ بھی نہیں اسکی تفصیل کچھ یوں ہے

1. کوئ بیماری متعدی نہیں: مگر ہم جانتے ہیں کہ کئ بیماریاں خاص حالات میں ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہیں مثلا قالا یرکان، ایڈز، جذام وغیرہ پھر لا عدوی کیوں کہا گیا؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ بیماری فی نفسیہ کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر یہ کہ مشعیت الہیہ ہو مگر دوسری طرف احتیاط کی تاکید بھی ہے اسلیے فرمایا:مجذوم سے بھاگو

2. اس حدیث میں دوسرا عنصر ولا طیرۃ ہے یعنی (طیرۃ) بدشگونی کوئ چیز نہیں، کسی چیز کو منحوس سمجھنا یا کسی چیز سے بدشگونی یا بدفالی لینا جیسا کہ دور جاہلیت میں پرندوں جانوروں یا تیروں کے دائیں یا بائیں جانے سے اچھی یا بری فال لیا کرتے تھے لہذا اس چیز کی تردید فرمائ کہ کسی چیز سے بدشگونی لینے یا نحوست پکڑنے کی کوئ حیثیت نہیں ہے کیونکہ اسکا تعلق توہمات اور مشرکانہ عقائد سے ہے

3. ولا ھامة، یعنی ھامة کی کوئ حیثیت نہیں. هامة عربی میں الو کو بھی کہتے ہیں، دور جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جس گھر پر الو آکر بولے وہ ویران ہو جاتا ہے یا اس گھر میں کوئ فرد مرجاۓ تو وہ منحوص ہوجاتا ہے یا جب کوئ مرجاتا ہے تو اسکی روح یا ہڈیاں هامة یعنی پرندہ بن کر اڑ جاتا ہے، یہ ہندوؤں کا عقیدہ بھی ہے بہر حال نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے اعتقادات کی نفی فرما کر انھیں باطل قرار دیا.

4. اس حدیث میں چوتھی چیز کہ جس کا ذکر ہے ولا صفر، یعنی صفر میں کوئ نحوصت نہیں. الحافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ (المتوفی 795 ہجری) فرماتے ہیں، مفہوم:

اکثر متقدمین کے نزدیک صفر ایک پیٹ کی بیماری ہے جس میں پیٹ میں بڑے بڑے کیڑے پڑ جاتے ہیں جاہلیت میں اعتقاد تھا کہ یہ بیماری متعدی ہے اور ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی نفی فرمائ یا ایک قول کے مطابق وہ صفر کو منحوس سمجھتے اور اسمیں سفر سے رکے رہتے

(حوالہ: لطائف المعارف صفحہ 147،148)

یہ سب باطل نظریات تھے، جن کا اس حدیث میں انکار و رد کر دیا گیا
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنه سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیه وسلم نے فرمایا:

“..الطیرۃ شرک،الطیرۃ شرک الطیرۃ شرک”

معنی بدشوگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے تین بار کہا، پھر فرمایا، مفہوم: "اور ہم میں سے ہر ایک کو کوئ نہ کوئ وہم ہو ہی جاتا ہے مگر اللہ تعالی اسے توکل کی برکت سے زائل فرما دیتا ہے"

(حوالہ: ابو داؤد کتاب الکھانة،باب فی الطیرۃ،رقم الحدیث 3910،و سندہ صحیح)

ماہ صفر میں بدشگونی لینے کے متعلق ایک حدیث: روایت ہے کہ نبی علیه الصلوۃ والسلام نے فرمایا، مفہوم:

جو کوئ مجھے صفر کا مہینہ گزر جانے کی خبر دے گا میں اسے جنت میں جانے کی بشارت دوں گا.

(دوران سال 12 ماہ کی نفلی عبادات صفحہ 12)


اس روایت کی تحقیق: ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ (المتوفی 1014 ہجری) ایک غیر متعصب حنفی عالم نے کہا لا اصل له، مفہوم:
اس (قول) کی کوئ اصل نہیں
(حوالہ: الموضوعات الکبری رقم 886)

اسی طرح قاضی شوکانی کے مطابق صنعانی اور حافظ عراقی نے (اس روایت کو) موضوع (جھوٹ) کہا
(حوالہ: المفوائد المجموعة جلد 1 صفحہ 438)
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 449107 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.