صفائی مہم ہندوستانی وزیر اعظم کی نہیں بلکہ ---

صفائی مہم ہندوستانی وزیر اعظم کی نہیں بلکہ صفائی مہم پیغمبراسلام ﷺنے چودہ صدیوں پہلے عطا کی تھی

اسلام ایک پاکیزہ مذہب ہے۔اسلامی نظامِ زندگی میں صفائی کواہم مقام حاصل ہے۔اسلام اہل ایمان کوہر صورت میں پاک وصاف رہنے کا حکم دیتاہے اور ساتھ ہی اپنے گھر ، گلی، محلے، شہر اور ملک کوبھی صاف ستھرا رکھنے کی تعلیم دیتاہے۔اﷲ رب العزت کا کلام بھی جابجاصفائی کی طرف اشارہ فرماتاہے۔ارشادِ ربانی ہے،ترجمہ:’’اﷲ پسند کرتاہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو‘‘۔(سورہ بقرہ،آیت 222)اسلام میں طہارت ونظافت کا کتنا نظم ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کے بغیر عبادت کی تکمیل ناممکن ہے،پاک حالت میں پاک جگہ ہی پرعبادت کی جاسکتی ہے۔چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:’’اور اپنے کپڑے پاک رکھو‘‘۔(سورۂ مدثر،آیت:4) ایک اور مقام پر ہے کہ’’اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم واسماعیل کو کہ میراگھر خوب ستھرا کروطواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع وسجود والوں کے لیے‘‘۔(سورۂ بقرہ، آیت: 125)صفائی کے متعلق فرمان مصطفویﷺہیں کہ پاکی نصف ایمان ہے۔(مسلم)

ہندوستانی وزیر اعظم نریندرمودی نے گاندھی جینتی کے موقع پر ملک میں صفائی کے لیے ’’سُوَچھ بھارت ابھِیان‘‘کا آغاز کیاہے جس کی ستائش ہونی چاہئے۔وزیراعظم نے صفائی بیداری مہم کے فروغ کے لیے فلمی ستاروں اور معروف ہستیوں کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی جس کے نتیجے میں ملک کے اعلیٰ عہدیداراور نامور شخصیات بھی جھاڑوپکڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔کُل ملا کر یہ کہ مہم صاف ستھرے ہندوستان کی بجائے معروف ہستیوں کی تشہیر کا ذریعہ بن گئی ہے۔ہر روز کوئی نا کوئی اداکار یا مشہور شخص ہاتھوں میں جھاڑولیے تصویر میں نظر آجاتاہے۔روزنامہ انقلاب نے یہ انکشاف بھی کیاکہ جو لوگ صفائی مہم میں شامل ہوکر تصویروں اور سرخیوں کی زینت بننا چاہتے ہیں انہی کہ آدمی کچھ دیر پہلے وہاں کچراپھیلاجاتے ہیں اور اسی کچرے کی دوبارہ صفائی کی جاتی ہے۔دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ نے اس مہم میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے سیکولرازم کاایسا مظاہرہ کیا کہ اپنی بیوی کے ساتھ بنگلہ صاحب گرودوارہ میں زائرین کے جوتوں کی پالش کی۔لیفٹیننٹ صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم کے ساتھ ساتھ جامعہ کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں اگر وہ جامع مسجد دہلی یا پھر حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اﷲ علیہ کے احاطے میں بھی صفائی کا کام انجام دیتے تو ایک اچھی روایت قائم ہوسکتی تھی مگر شاید انھیں ترقی اور عہدہ پر تقرری حاصل نہیں ہوتی جس کا حصول گرودوارہ میں جوتاپالش کے بعد ممکن ہے۔

تحریر کا لب لباب یہ ہیکہ اسلام نے صفائی کا نظریہ سینکڑوں سال پہلے پیش کیاتھا،اس کام میں ہمیں سب سے اول نظر آنا چاہئے تھا تاکہ برادرانِ وطن کو اپنے کرداروعمل سے صفائی کا پیغام دیاجاسکے اور انھیں بھی معلوم ہوکہ آج جو جوفارمولے اختیار کیے جارہے ہیں انہیں اسلام کب کا بیان کرچکاہے،اس طرح ان کے دلوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیاجاسکتاہے۔مگر افسوس!کسی زمانے میں مسلم آبادیوں کی پہچان مساجد کے مینار ہواکرتے تھے لیکن آج گندگیوں کے انبار ہماری شناخت بن گئے ہیں۔ہمارے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرانہ ہونے کے سبب اﷲ کا سچادین بدنام ہورہاہے ۔لوگ بڑے دھڑلے کے ساتھ کہتے ہیکہ جہاں جہاں گندگی دکھائی دے سمجھ لیجئے کہ وہ مسلم علاقے ہیں۔جارج برناڈشاہ اسلام سے بہت نفرت کرتاتھالیکن جب ممباسہ کے ساحل پر امام احمدرضارحمۃ اﷲ علیہ کے شاگرد مبلغ اسلام عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ سے بحث ومباحثہ ہواتووہ اسلام کی حقانیت اور اس کی تعلیما ت کا قائل توہواجس کا اعتراف اس نے اس طرح کیاتھا’’اگر حقیقت میں یہی اسلام ہے تو مستقبل میں ساری دنیا کا مذہب اسلام ہوگا‘‘مگر اس حقیقت کا بھی اعتراف کیاتھاکہ ’’میں اسلام سے محبت کرتاہوں لیکن مجھے( موجودہ)مسلمانوں سے نفرت ہے،اس لیے کہ وہ اسلام پر کماحقہ عمل پیرانہیں۔‘‘

ہم ان مثالوں کو تسلیم کریں یہ نہ کریں مگر سچائی یہی ہے۔مسلمانوں کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ان کی شناخت صفائی کے علمبردار ہونے کی بجائے نجاست،غلاظت اور گندگی کے ڈھیروں میں رہنے والوں سے ہورہی ہے۔اس کی تازہ مثالیں شب وروز ہم سب دیکھ سکتے ہیں۔اعتراض کیاجاسکتاہے کہ اس میں حکومت، میونسپل اور کارپوریشن کی غلطی ہے،مسلم محلوں کے ساتھ تعصب برتاجاتاہے،جان بوجھ کر انھیں نظراندازکیاجاتاہے وغیرہ وغیرہ۔مگر کیاہماری ذمہ داری پانچ فی صد بھی نہیں ہے؟کیاہم دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراکر خود بری الذمہ ہوسکتے ہیں؟کیاہم اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ اپنے گھر کے سامنے کی صفائی کرلیاکریں،اگر کارپوریشن صفائی کرینگی تو یہ اس کی ذمہ داری ہوگی مگر ہم خود صفائی کریں تو یہ ہمارے نصف ایمان کی تکمیل ہوگی۔ساتھ ہی یہ حکومتی عہدیداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ حکومت نے جن لوگوں کو صفائی کے لیے بھاری بھرکم تنخواہ پر مقرر کیاہے،وہ کامگار افراد روزآنہ شہر کی صفائی کا فریضہ انجام دیں،نہ کہ صرف خاص خاص موقعوں پرہاتھ میں جھاڑولیے نظرآؤاور ماہنا تنخواہ کا بوجھ حکومت پر ڈالو۔یعنی کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری بخوبی اداکریں تو وزیراعظم کو جھاڑولینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئینگی۔

آخری بات عرض کردوں کہ درحقیقت اسلام میں طہارت وپاکیزگی کا باب بہت وسیع ہے۔اس میں ہماری طرز زندگی،تہذیب وتمدن اور حسن ِمعاشرت سب آجاتا ہے۔یہی چیز دعوت الیٰ اﷲ میں کارگر ثابت ہوتی ہے اور لوگوں میں اسلام کی جاذبیت کا سبب بنتی ہے کیوں کہ جن تک ہم اور ہماراماحول حسنِ اخلاق کا نمونہ اور صفائی کا مرجع نہ بن جائے ہم سے کوئی بھی قریب نہیں ہوسکتا۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731644 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More