انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کے تیرے دل میں اترجائے میری بات
آج کل کے دور میں جہاں تعلیم کو بہت اہمیت دی جارہی ہے وہاں پر یہ پڑھا
لکھا طبقہ فحش زبان کا استعمال بھی بہت زیادہ کررہا ہے۔ ایک ان پڑھ ، جاہل
انسان سے تو بے ہودہ الفاظ استعمال کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے مگر جب پڑھا
لکھا انسان ایسی زبان استعمال کرے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ زبان کا بے
ہودہ اور ناجائز استعمال خواہ کسی بھی شکل میں ہو’’گالی کہلاتا‘‘ ہے۔
اردوڈکشنری کے مطابق گالی بدزبانی اور فحش گوئی کا نام ہے۔اسلام میں گالی
کو بد ترین گناہ قرار دیا ہے۔ مگر افسوس آج ہمارے معاشرے میں گالی گلوچ کا
چلن روزبروز عام ہورہا ہے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے گالی گلوچ کو منافق کی
نشانی قرار دیا ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منافق کی چار
نشانیاں ہیں۔ جب بولے جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، امین بنایا
جائے توخیانت کرے اور جب جھگڑا ہوجائے تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔ ایک طرف تو
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے گالی گلوچ سے منع کیا اورفرمایا کہ گالی
گلوچ کا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہوگا اور دوسری طرف اخلاقی طور پر یہ بھی
ہدایت کی ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہ دیا جائے، اس لیے کہ اس طرح کرنے
سے دونوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
افسوس کی بات تویہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر سنت نبوی ﷺ
کو اہمیت نہیں دیتے۔ ذرا ذرا سی بات پر گالی دینا تو لوگوں کا تکیہ کلام بن
چکا ہے۔اپنے مسلمان بھائی کی دل آزاری کرنا برا نہیں سمجھتے۔کسی مسلمان کی
دل آزاری کرنا یہ بہت سخت گناہ ہے اور گالی کے ذریعے انسان کو شدید تکلیف
ہوتی ہے کوئی اس تکلیف کا اظہار کر دیتا ہے اور کوئی صبر کا گھونٹ پی کر رہ
جاتا ہے۔ اسلام نے صرف مسلموں کو نہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی گالی دینے سے
منع فرمایا ہے۔ اور اگر کوئی اہل ایمان کو گالی دے تو کس قدر سخت گناہ ہو
گا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
کبیرہ گناہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بڑے گناہ یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ
عنہم نے عرض کیا:کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے؟ فرمایا:ہاں!
کوئی آدمی کسی کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے توجواب میں وہ اس کے والدین کو
گالی دیتا ہے۔گویا کہ کسی کے والدین کو گالی دینا درحقیقت حقیقی والدین کو
گالی دینے کے برابر ہے۔ مگردکھ کی بات یہ ہے کہ آج کے دورمیں ایسے بد نصیب
لوگ بھی معاشرے میں موجود ہے جو براہ راست اپنے والدین کو گالیاں دے کر
جہنم کا ایندھن بنتے ہیں۔
آج جاہل لوگوں کے ساتھ ساتھ سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی میں بھی ایسے
طالبعلموں کو دیکھا ہے جو اپنی بات کا آغاز اپنے دوستوں سے گالی کے ساتھ
کرتے ہیں۔ والدین لاکھوں روپے لگا کر ان کو تعلیم دلواتے ہیں مگر وہ بھول
جاتے ہیں کہ گالی دیناکتنا بڑا گناہ ہے۔ گالی کے علاوہ وہ اپنے دوستوں کو
ایسے ناموں سے پکارتے ہیں جن سے ان کی دل آزاری ہوتی مگر انہیں اس بات کی
کوئی پرواہ نہیں کہ وہ اپنے دوست کے دل کو کس قدر اذیت دے رہے ہیں۔
ہمارے سیاستدان بھی آج کل اپنے اندازبیاں میں کسی سے پیچھے نہیں۔ حال ہی
میں جو کچھ سیاستدانوں نے اپنے جارحانہ انداز میں ایک دوسرے کی تذلیل کی وہ
ڈھکی چھپی نہیں۔ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں اور لاکھوں لوگوں نے ٹی وی
پربھی وہ سب کچھ سنا۔ بہت سے لوگ تو ایسے بے ہودہ الفاظ استعمال کرنے والے
لیڈر کی حوصلہ افزائی کررہے ہوتے ہیں۔ افسوس صد افسوس عوام جن کواپنا لیڈر
بناتی ہے اور وہی لیڈر اپنے مخالفین کے لیے ایسے ریمارکس دیتے ہیں کہ قلم
لکھنے سے قاصر ہے۔ جب یہ لوگ آپس میں ملتے ہیں تو بڑے میٹھے الفاظ میں
بولتے ہیں مگر اسٹیج پر بے ہودہ زبان بولنا مہذب لوگوں کو زیب نہیں
دیتا۔کوئی کالمسٹ برادری کو ’’بکاؤ مال‘‘ہونے کا طعنہ دے رہا ہے تو کوئی
عوام کو’’ کمی کمین‘‘ بنا رہا ہے۔
تمام انسان اﷲ کی اشرف المخلوقات ہے۔ اﷲ کی نظر میں تمام انسان برابرہیں
مگر اونچ نیچ اور امیر غریب یہ صرف دنیا داری کے لیے ہیں۔ یہ سب سٹیٹس کو
دنیا میں ہی ہے آخر ت میں سب ایک ساتھ اکٹھے ہوں گے اور دنیا کا تمام نظام
دنیا میں رہ جائے گا۔ |