نسیم احمد غازی فلاحی
دو پہر بارہ بجے کا وقت تھا ۔ایک صاحب جن کی عمر ساٹھ سال رہی ہوگی ،ملاقات
کے لئے تشریف لائے چہرے پر داڑھی ،سر پر ٹوپی نہایت سادہ لباس زیب تن کئے
ہوئے ۔انہوں نے مجھ سے ملاقات کی غرض بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ یو پی کے
رہنے والے ہیں ۔پیشے سے درزی ہیں۔تعلیم بھی خاص نہیں ۔انہوں نے بڑی دل سوزی
اور درد کے ساتھ بتایا کہ انہیں ہر وقت یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ میرے اہل
شہر ہم وطن بھائیوں کو دین حق اسلام سے کس طرح واقف کراؤں اور انہیں کس طرح
صحیح راستے پر لاکر جنت کا حقدار بناؤں ۔ہمارے ان بھائیوں نے نا واقفیت کی
بنا پر جو راستہ اپنا رکھا ہے جہنم کی طرف ان کو لے جارہا ہے ،اور دنیا میں
بھی طرح طرح کے مسائل سے دوچار کر رہا ہے ۔
ان صاحب نے بڑے کرب کے ساتھ کہا کہ نہ تو میری اتنی تعلیم ہے اور نہ میرے
اندر اتنی صلاحیت ہے کہ برادران وطن سے اطمینان بخش دعوتی گفتگو کر سکوں
۔اس کے لیے انہوں نے طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ اسلام کے سلسلے میں مختلف
موضوعات پر ہندی ؍انگریزی میں شائع کتب خرید کر غیر مسلموں کے اعلٰی تعلیم
یافتہ طبقے میں پہنچتا ہوں اور ان سے مطالعے کی درخواست کرتا ہوں۔میں خاص
طور سے اسلام کے حق میں غیر مسلموں کی تصنیف کردہ کتب حالص کر کے غیر مسلم
بھائیوں کو پڑھواتا ہوں ۔ان مصنفین میں پروفیسر راما کرشنا راؤ ،لالہ کاشی
رام چاولہ ،پنڈت وید پرکاش اوپادھیائے ،ڈاکٹر گنیش دت سارسوت،راجیندر
رامائن لعل ،وجئے گوپال منگل ،سوامی لکشما نارائن ،ڈاکٹر بی این پانڈے
،وغیرہ شامل ہیں ۔جن لوگو کو وہ اسلامی لٹریچر مطالعے کے لیے دیتے ہیں ان
میں جج ،وکیل ،ڈاکٹر ،پروفیسر اور اساتذہ ،انجینئر اور دیگر تعلیم یافتہ
لوگ شامل ہیں ۔یہ لوگ کتابیں پڑھ کر بے حد متاثر ہوتے ہیں اور اس بات کا
اظہار بھی کرتے ہیں کہ اسلام کے بارے میں اتنا وافر ذخیرہ موجود ہوتے ہوئے
وہ اس سے بے خبر رہے ۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کوششوں کے نہایت اچھے نتائج بر آمد ہو رہے ہیں
نہ صرف اسلام کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہورہی ہیں بلکہ وہ اسلام
سے متاثر ہو رہے ہیں ۔
ان صاحب نے مزید کہا کہ سبھی مسلمانوں کو دعوت کا یہ کام کرنا چاہئے اور
ترجیحی بنیاد پر کرنا چاہئے ۔مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ عام طور پر مسلمان
میرے اس کام کو پسند نہیں کرتے اور مجھ پر دباؤ بناتے ہیں کہ میں اس کام کر
ترک کر کے ،مسلمانوں کی اصلاح کے کام میں لگوں ۔یہ لوگ میرا مذاق اڑاتے اور
مجھ پر بھپتیاں کستے ہیں ۔ان نادانوں کو میں کیسے سمجھاؤں کہ برادران وطن
کو دین حق سے راشناس کراتا اور انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کا کام ہی ہماری
اصل ذمہ داری ہے ۔
وہ صاحب اپنے ایمان افروز حالات سنانے کے بعد چند لمحے خاموش رہے اور پھر
ایک بڑے سے کاغذ پر اپنی ایک تحریر کی کاپی میرے سامنے پیش کی اور بتایا کہ
یہ تحریر انہوں نے مسلمانوں کے نام لکھی ہے اور انہیں دعوتی کام کی اہمیت
اور ضرورت سے واقف کرا رہا ہے ۔
میں وہ تحریر لے کر اس کو پڑھنے لگا ۔جس میں واقعی بڑی دل سوزی اور عقلی
،قرآن و حدیث کے دلائل پیش کر کے مسلمانوں کو دعوتی کام کرنے کی دعوت دی
گئی تھی ۔تحریر کے آخیر میں ان صاحب نے اپنا نام کے ساتھ تخلص کے انداز میں
تحریر کیا ’’احمق ‘‘۔اسے پڑھ کر میں چونکا ۔میں نے پوچھا یہ احمق صاحب کون
ہیں؟بولے میرا ہی نام ہے ۔میں نے کہا کہ آہ کا مشن اور آپ کی باتیں تو
نہایت عقلمندی کی ہیں پھر یہ نا م کیوں رکھا ۔کہنے لگے دراصل لوگ میرے کام
سے خوش ہیں جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا اس لیے وہ مجھے احمق کہتے ہیں ۔میں
ان کی بات سن کر سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔چند لمحوں کے بعد سر اٹھا یا اور ان
سے عرض کیا کہ اپنے نام کے آگے سے اس احمق لفظ کو فوراً ہٹائیے ۔احمقوں کے
کہنے سے آپ نے اپنا نام احمق رکھ لیا ۔احمق کی باتیں کون سنے گا ؟انہوں نے
میرے ہاتھ سے وہ تحریر لی اور احمق لفظ کاٹ دیا اور کہا کہ آئندہ اب یہ لفظ
میں اپنے لیے کبھی نہیں لکھوں گا ۔بہر حال میں نے ان کو اپنی سمجھ کے مطابق
مفید مشورے دئے اور اپنے تعاون کا پورا یقین دلایا ۔اور آئندہ رابطے میں
رہنے کی گزارش ہیش کی ۔اس واقعے اور مشاہدے کو پیش کرنے کا مقصد ایک طرف ان
حضرات کو آئنہ دکھانا ہے اور ان کی یہ غلط فہمی دور کرنی ہے کہ دعوتی کام
کے لئے بڑی صلاحیت ،قابلیت اور علم کی ضرورت ہے ۔اس لئے یہ ہر شخص کے کرنے
کا کام نہیں ہے ۔دوسری طرف لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے کہ اگر انسانیت سے
محبت ہے اور ان کو راہ راست پر لانے کی کچھ تڑپ دل میں موجود ہو تو پھر ہم
اس میدان میں قابل قدر خدمت انجام دے سکتے ہیں ۔ |