پیاسے لوگ

دعوتی تجربات و مشاہدات

نسیم احمدغازی فلاحی

(۱) ایک بار دہلی سے رام پور جانے کے لئے ایک ٹیکسی کرایے پر لی ،گھر کے کچھ افراد بھی میرے ساتھ تھے ۔ٹیکسی ڈرائیور ٹائی باندھے اور نہایت عمدہ سوٹ میں ملبوس تھا ۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے وہ کسی کمپنی کا سکریٹری یا کسی محکمہ کا آفیسر ہو ۔ہم لوگ ٹیکسی میں سوار ہو گئے اور ہمارا سفر شروع ہو گیا ۔ابھی ہماری گاڑی کچھ ہی دور گئی تھی کہ میں نے ٹیکسی ڈرائیورسے اس کا نام دریافت کیا ۔میں نے نام کیا پوچھا کہ ڈرائیور چوبے صاحب نے اپنی داستان غم سنانی شروع کر دی ۔انہوں نے بتایا کہ میں ایک کمپنی میں منیجر کے عہدے پر فائز تھا ۔معقول آمدنی تھی اور میرے سب کام بہتر طور پر انجام پا رہے تھے کہ کمپنی اچانک بند ہو گئی اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اسے بھی ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا ۔اور اس کے بعد شروع ہو گئے اس کے برے دن ۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے یہ گاڑی بینک سے قرض لے کر خریدی ہے اور اب و ہ اسے ٹیکسی کے طور پر خودہی چلاتا ہے ۔اس سے آمدنی تو ضرور ہوتی ہے مگر اتنی نہیں کہ بینک کے قرض کی قسط اور گھر کے اخراجات پورے ہو سکیں ۔بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہو گئی ہے اور آئندہ کے جو منصوبے تھے وہ بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ۔وہ شخص اپنے حالات اس کیفیت کے ساتھ مسلسل بیان کیے جارہا تھا گویا آسمان کے نیچے اور اس زمین کے اوپر اس سے زیادہ بد نصیب اور پریشان حال کوئی دوسرا نہیں۔کبھی وہ اپنی قسمت کو کوستا اور کبھی اپنی پچھلی زندگی کے کرنی کے پھل اپنی پریشانیوں کو گردانتا ۔کبھی دوسرے لوگوں کو قصور وار قرار دیتا ۔ وہ بڑی متضاد باتیں کر رہاتھا ۔اس کی گفتگو سے یہ احساس ہو گیا کہ وہ اندر سے ٹوٹ چکا ہے ،مایوسی اور انتشار فکر کا شکار ہے۔

مجھے رام پور میں ایک رات قیام کر کے دوسرے روز اسی ٹیکسی سے واپس آنا تھا، اس لئے میں نے اپنے دل میں ارادہ کیا کہ آج اس کی باتیں توجہ کے ساتھ سنوں گا اور کل واپسی میں اس کے سامنے کچھ باتیں پیش کروں گا ۔میں نے محسوس کیا کہ دراصل یہ اس شخص کا نفسیاتی مسئلہ زیادہ ہے اور اسے کونسلنگ اور رہنمائی کی سخت ضرورت ہے ۔

دوسرے روز صبح کو ہماری واپسی ہوئی ۔گاڑی میں ڈرائیور اور میں بس دو ہی لوگ تھے ۔اس سے گفتگو کی غرض سے میں آگے والی سیٹ پر ہی بیٹھ گیا،میں نے اس شخص سے عرض کیا کہ چوبے صاحب کل میں نے آپ کی داستان غم بڑی توجہ سے سنی ۔میں چاہتا ہوں کہ آج آپ مجھے موقع دیں کہ میں کچھ عرض کروں شاید کہ میری باتوں سے آپ کے مسائل کا کوئی حل نکل آئے یا پھر ان میں کچھ کمی آجائے ۔البتہ اگر کوئی ضروری بات بیان کرنے سے رہ گئی ہو تو پہلے آپ اسے بھی بیان کر دیں ۔

میری یہ بات سن کر ڈرائیور چوبے صاحب بے ساختہ بولے ،’’مجھے اور کچھ نہیں کہنا ‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ میری بات سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہوگئے ۔میں نے ان کی کل کی گفتگو کی روشنی میں ان سے بات کی ۔میری خاص توجہ ان کی سوچ کو مثبت رخ دینے اور خدا پر یقین اور بھروسہ پیدا کرنے پر تھی ۔دنیا میں سکھ اور دکھ کیوں پیش آتے ہیں ،اس بات کو اسلام کی روشنی میں ان کے ذہن میں بٹھانا میرا مقصد تھا ۔میں نے ان کو کئی مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم بہت سی باتوں کو شر سمجھتے ہیں مگر نتیجے کے اعتبار سے وہ خیر ثابت ہوتی ہیں ۔اسی طرح انسان بعض چیزوں میں خیر سمجھتا ہے مگر نتیجے کے اعتبار سے وہ شر ثابت ہوتی ہیں ۔اس لیے خدا کی مشیت پر راضی رہتے ہوئے اسے خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔اتفاق سے راستے میں ایک حادثہ دیکھنے کو ملا ۔ایک شخص ٹرک کے نیچے آکر ہلاک ہو گیا تھا ۔میں نے چوبے صاحب سے دریافت کیا کہ اس حادثے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ۔وہ بولے یہ تو بہت ہی برا ہوا ۔میں نے عرض کیاکہ اچھا یہ بتائیے کہ اس شخص کی جگہ پر میں یا آپ بھی تو اس حادثے کا شکار ہو سکتے تھے ۔وہ بولے ،بے شک ۔میں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ خدا نے آپ کو اس طرح کے بڑے حادثے سے محفوظ رکھ کر چھوٹی موٹی پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ہو ۔وہ بے ساختہ بولے ،اس حادثے کے مقابلے میں میری پریشانیاں تو کچھ بھی نہیں ۔اگر میں اس حادثے کا شکار ہوجاتا تو میرا تو گھر ہی برباد ہو جاتا ۔میرے تو بچے بھی چھوٹے ہی ہیں اور بیوی اس قابل نہیں کہ معاشی بوجھ اٹھا سکے ۔

بہر حال اس قسم کی باتیں مختلف انداز اور مختلف پہلوؤں سے ہوتی رہیں۔خاص بات یہ تھی کہ وہ میری باتیں اس طرح توجہ سے سن رہے تھے جیسے کسی ڈاکٹر کی باتیں مریض سنتا ہے یا استاد کی باتیں شاگرد ۔ہم لوگ بات چیت کرتے ہوئے دہلی پہنچ گئے ۔میں نے ڈرائیور صاحب کو محمد عربی ؐ کا ہندی ترجمہ ’جیونی حضرت محمدؐ ‘پڑھنے کے لئے دی ۔انہوں نے بخوشی اسے قبول کر لیا ۔

چند دنوں کے بعد جب چوبے صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے جو بات مجھے بتائی ا سے سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی اور مسرت بھی۔کہنے لگے کہ’’ جیونی حضرت محمد ؐ‘‘کو پڑھنے کے بعد میری تمام الجھنیں دور ہو گئیں اور مجھے سوچنے کا صحیح طریقہ مل گیا ۔

میں نے پوچھا اس کتاب کو پڑھ کر آپ کی الجھنیں کس طرح دور ہو گئیں ،ذرا اس کی وضاحت کریں ۔بولے ،حضرت محمدؐ کی جیونی پڑھ کر مجھے اپنے اوپر بہت ندامت ہوئی ۔میں نے سوچا کہ میں تو صرف اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے فکر مند ہوں مگرحضرت محمدؐ تو ہم لوگوں بلکہ رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے فکر مند رہے ۔

حضرت محمدؐ صحیح معنی میں خدا کے بھگت (بندے)تھے۔اور خدا پر ان کا بھروسہ زبردست تھا۔ انہوں نے پوری زندگی مشقت میں گزار دی ،کبھی نہ اچھا کھایا پیا اور نہ عیش و عشرت کی زندگی گزاری ۔جب کہ ایک وقت ایسا آگیا تھا کہ آپ ؐ عرب کے سب سے بڑے حکمراں تھے ،مگر اس حالت میں بھی آپ ؐنے سادہ زندگی گزاری اور انسانیت کی خدمت کے لیے اپنے کو وقف رکھا ۔

چوبے صاحب نے مزید کہا کہ اس کتاب کو پڑھ کر مجھے بہت سکون ملا ،اور میری سوچ مثبت ہو گئی ۔اپنے خالق مالک خدا پر میرا بھروسہ بڑھ گیا ۔چوبے صاحب کی اس بات سے مجھے خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی ۔میں نے جس وقت ان کو یہ کتاب پڑھنے کو دی تھی ا س وقت ا س بات کا اندازہ بھی نہ تھا کہ اس سے وہ اس قدر متاثر ہوں گے اور ان کی سوچ یکسرتبدیل ہو جائے گی ۔بہر حال یہ سب اﷲ کی توفیق ہے ۔

چند ماہ کے بعد چوبے صاحب نے فون پر مجھے یہ خوش خبری دی کہ ان کو سرکاری نوکری مل گئی ہے اور اب انہوں نے ٹیکسی چلانا ترک کر دیا ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کو جب بھی ضرورت ہو مجھے یاد کیجئے گا میں آفس سے چھٹی لے کر آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہو جاؤں گا ۔

(۲) ایک روز پرانی دہلی جانے کے لیے ریڈیو ٹیکسی بک کی ۔دہلی میں یہ سہولت ہے کہ کافی مناسب کرائے پر ریڈیو ٹیکسی مل جاتی ہے ۔ٹیکسی کا نمبر اور ڈرائیور کا نام smsکے ذریعے آپ کے موبائل پر آجاتا ہے ۔اس سے مجھے معلوم ہوا کہ ڈرائیور غیر مسلم ہے۔

میں ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیااور راستے میں ڈرائیور سے گفتگو کرنے لگا ۔دوران گفتگو اس نے بتایا کہ ’’میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت فکر مند ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ ان کے اندر اچھے اخلاق و آداب پیدا ہوں ‘‘۔

میں نے اسے بتایا کہ ہم لوگ ہندی زبان میں کتابیں اور رسالے شائع کرتے ہیں ،جن میں اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے ۔مگر ہماری کتابیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تیار ہوتی ہیں ۔ان میں بتایا جاتا ہے کہ بنانے والا کون ہے؟اس نے ہمیں اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے۔اس نے ہماری رہنمائی کے لئے کیا انتظام کیا ہے۔ہمیں دنیا میں کیسے زندگی گزارنی ہے اور مرنے کے بعد کیا ہوگا؟وغیرہ اگر آپ پسند کریں گے تو آپ کو وہ کتابیں بھجوادی جائیں گی ۔

میرا اتنا کہتے ہی ڈرائیور نے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر دی ۔میں نے خیال کیا کہ شاید یہ اسلام کا نام سن کر ناراض ہو گئے ہیں اور اب مجھے گاڑی سے اترنے کے لیے کہیں گے ۔میں نے دریافت کیا کہ راستے میں گاڑی کیوں روک دی ۔انہوں نے ایک کاپی میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ آپ کاغذ پرمیرا پتہ نوٹ کر لیں اور کتابیں اور رسالے جلد سے جلد بھجوادیں اور ان کی قیمت بھی مجھ سے ابھی لے لیں ۔

میں نے عرض کیا کہ منزل پر پہنچ کر آ پ کا پتہ لکھ لوں گا، راستے میں گاڑی روکنے کی کیا ضرورت تھی ۔کہنے لگے ،نہیں صاحب ،وہاں پہنچ کر آپ بھول جائیں گے اور بسا اوقات بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے ہم بھی زیادہ دیر گاڑی کھڑی نہیں کر سکتے ۔اس لیے ابھی میرا پتہ نوٹ کر لیں ۔

میں نے پتہ نوٹ کر لیا اور بعد میں ماہانہ کانتی اور اسلام پر بنیادی کتابیں ڈاک سے انہیں بھجوادیں ۔کتابیں ملنے کے بعد انہوں نے فون پر ہی اطلاع دی اور شکریہ ادا کیا ۔

ایک دو ماہ کے بعد مجھے ریڈیو ٹیکسی سے پھر کہیں جانا ہوا ۔قاعدے کے مطابق ٹیکسی میرے گھر پرآگئی اور میں اس میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا ۔راستے میں ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے ہی مجھے کتابیں بھجوائی تھیں ؟۔اس کے یہ پوچھتے ہی میں بھی اسے پہچان گیا اور میں نے اثبات میں جواب دیا ۔پھر اس کی خیریت معلوم کی ۔اس غیر مسلم ڈرائیور نے بتایا کہ گھر کے سبھی لوگوں نے بڑے شوق اور دلچسپی کے ساتھ ساری کتابیں پڑھیں اور بہت پسند کیں ۔ان کتابوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔اس نے ایک حیرت انگیز اور دلچسپ قصہ سنایا کہ ’’میں ایک مسلمان مسافر کو لے کر یو پی کے ایک شہر میں گیا ۔راستے میں ایک مسجد نظر آئی تو مسلمان مسافر نے مجھ سے کہا کہ چند منٹ کے لیے گاڑی روک لیں میں نماز ادا کر کے آجاتا ہوں ۔میں نے مسجد کے پاس گاڑی روک دی ۔وہ صاحب نماز پڑھنے مسجد میں چلے گئے ۔قریب ہی ایک ٹھیلی پر ایک شخص آم فروخت کر رہا تھا ۔میں اس سے کچھ آم خرید کر کھانے لگا ۔تھوڑی دیر کے بعد وہ مسلمان صاحب نماز پڑھ کر آگئے اور مجھے آم کھاتا دیکھ کر مذاق کے انداز میں کہنے لگے ۔بھئی یہ بھی خوب رہی !میں نماز پڑھنے کے لئے گیا تو آپ یہاں اکیلے ہی آم کے مزے لینے لگے !

میں نے ان کی یہ بات سن کر برجستہ عرض کیا کہ جناب اصلی آم (یعنی نماز )کا مزہ تو آپ لے کر آئے ہیں ،یہ تو مٹی کے آم ہیں جو میں نے کھائے ہیں۔‘‘

میں نے ڈرائیور صاحب سے کہا کہ آپ نے توبڑے پتے کی بات کہی ۔کہنے لگے آپ کی کتابیں پڑھ کر مجھے اس حقیقت کا علم ہوا ۔کچھ دیر میں ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔وہاں پہنچ کر اس نے میرا بار بار شکریہ ادا کیا اور مجھ سے کہا کہ میرا نمبر آپ کے پاس ہے آپ کو جب بھی ضرورت ہو مجھے یاد کر لیجئے گا ۔میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہو جاؤں گا ۔

میں سوچنے لگا کہ واقعی کتنے پیاسے ہیں لوگ آب حیات کے لئے۔ ان کی ا س پیاس کوبجھانے کا فریضہ جو لوگ بھی انجام دیں گے وہ کبھی گھاٹے میں نہیں رہیں گے ۔آم کے آم گٹھلیوں کے دام!

(۳) اوکھلا سے پرانی دہلی جانے کے لیے ایک آٹو میں سوار ہوا ۔آٹو ڈرائیور ایک غیر مسلم تھا ۔ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ آٹو ڈرائیور نے مجھ سے کہا کہ ’’اگر آ پ کے علم میں کوئی اچھا عامل ہو تو بتائیے گا ۔میں نے اس سے دریافت کیا کہ آپ کو عامل کی کیا ضرورت پیش آگئی ؟وہ بولا ’’دراصل میرے گھر میں کچھ مسائل ہیں۔میری بیوی اور میری بہن میں جھگڑا ہوتا ہے ۔بہن تو سیدھی سادی ہے مگر بیوی اس سے جھگڑتی رہتی ہے ۔جس کی وجہ سے گھر کا سکون ختم ہو گیا ہے ۔اورمیرا تو گھر جانے کے لئے دل ہی نہیں چاہتا ۔میری بہن کی شادی نہیں ہوئی ہے اور اب تو وہ عمر رسیدہ بھی ہو گئی ہے ۔‘‘اس کی بات سن کر میں خاموش ہو گیا ۔منزل پر پہنچ کر میں نے ایک پر سکون جگہ آٹو رکوایا اور آٹو والے سے کہا کہ آپ نے راستے میں اپنے گھر کا جو مسئلہ رکھا ہے ۔اس کو حل کرنے کے لیے کسی عامل کے چکر میں نہ پڑیں ۔‘‘وہ بولا ،’’پھر کیا کروں ؟‘‘میں نے عرض کیا کہ آپ اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک خدا کو یاد کریں اور ا س سے دعا کریں ۔میں نے اس کو اسلام اور توحید کے سلسلے میں بھی کچھ باتیں بتائیں ۔وہ بڑی توجہ سے باتیں سنتا رہا ۔آخر میں میں نے اس سے کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کو کچھ اسلامی کتابیں ہندی میں بجھوادوں ۔آپ خود بھی ان کا مطالعہ کریں اور اپنے گھر میں ایسی جگہ ان کو رکھ دیں کہ اگر کوئی اور پڑھنا چاہے تو وہ بھی پڑھ لے ۔یہ کتابیں آپ کو خدا کے بارے میں معلومات دیں گی اور یہ بھی بتائیں گی کہ ہمار ا پروردگار خدا ہم انسانوں سے کیا چاہتا ہے ۔ میرے اتنا کہتے ہی اس شخص نے فوراً ایک کاغذ نکالا اور اس پر اپنا پتہ اور فون نمبر لکھ کر دے دیا نیز کتابوں کے لیے روپے بھی دینے لگا ۔میں نے روپے تو نہیں لیے البتہ پتہ لے کر رکھ لیا ۔اس شخص نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کی بھیجی ہوئی کتابیں میری بیوی مجھے نہ دے ۔اس لئے میں نے اپنے دوسر کا پتہ آپ کو دیا ہے ۔اپنے گھر کا نہیں ۔
اب میں نے اس کا طے شدہ کرایہ اسے دیا تو اس نے لینے سے صاف انکار کر دیا اور میرے پیر چھونے لگا ۔میں نے اسے اٹھایا اور زبردستی کرایہ اس کے حوالے کیا ۔میں نے وعدے کے مطابق اسلامی کتابوں کا ایک سیٹ اس کے پتے پر بجھوادیا ۔کتابیں موصول ہونے کے بعد اس شخص نے مجھے فون کیا اور بہت بہت شکریہ ادا کیا ۔

و باﷲ التوفیق

Falahuddin Falahi
About the Author: Falahuddin Falahi Read More Articles by Falahuddin Falahi: 135 Articles with 112480 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.